مسلمانوں کے نئے سال کا آغازمحرم الحرام سے ہوتا ہے۔
دورجہالت میں بھی اس مہینہ کو عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا ۔ حضور اکرم
ﷺ نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔یہودیوں کے لیے بھی دس محرم کادن
بہت معتبرک ہے اس دن یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں۔ جب
حضورﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی 10محرم کا روزہ رکھتے
ہیں تو آپ ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ 9اور 10محرم کے روزے رکھا کریں
تاکہ ان سے تفریق ہو۔
یومِ عاشور کے ساتھ کئی تاریخی اور عظیم واقعات منسوب ہیں جن میں دنیا بھر
کے انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش عاشورہ کے دن ہوئی
تھی۔عاشورہ کے روز ہی حضرت آدم علیہ السلام جنت میں داخل کئے گئے اورحضرت
آدم علیہ السلام کی توبہ بھی عاشورہ کے روز ہی قبول ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے
عرش،سورج،چاند،ستارے،زمین،آسمان اور جنت کی تخلیق بھی اِسی د ن کی۔حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش اور انہیں نمرود کی آگ سے نجات کے دونوں بڑے
واقعات بھی اِسی روز پیش آئے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل
کو فرعون سے نجات کا دن بھی عاشورہ تھا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی روز
پیدا ہوئے اور اسی روز ہی انہیں آسمان پر اٹھایا گیاتھا۔
عاشورہ کے دن جہاں یہ واقعات ہوئے اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان
پر اٹھایاگیا۔حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات اس دن
ملی۔حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کنارے اس دن لگی تھی۔حضرت سلیمان علیہ
السلام کو سلطنت کا مالک اﷲ نے اسی دن بنایا ۔اسی دن حضرت یعقوب علیہ
السلام کی بینائی واپس آئی۔اسی دن اﷲ نے حضرت ایوب علیہ السلا م کو بیماری
سے نجات دی۔حضرت خدیجہؓ سے حضور ﷺ نے نکا ح بھی اسی دن کیا تھا۔اسی دن پہلی
بار آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ قیامت آنے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی
ہے قیامت کے دن 10محرم ہوگااورجس وقت واقعہ کربلا ہواا س روز بھی تاریخ
10محرم ہی تھی۔
حضرت امام حسینؓ نے 10محرم الحرام 61ھ کو جو عظیم قربانی دی اس واقع کو کئی
صدیاں گزر گئیں مگر یہ آج بھی اپنی تروتازگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آزادی کے
متوالوں ، ظلم سے ٹکرانے والوں ، حق کا پرچم بلند کرنے والوں، امر بالمعروف
ونہی ازمنکر کا پرچم تھامنے والوں اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے
والوں کے لیے کربلا آج بھی مشعل راہ ہے۔ تحریک کربلا میں ہر مذہب ومسلک اور
زندگی کے ہرشعبے کے افراد کے لیے یکساں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اس تحریک
میں چھ ماہ کے بچے سے لیکر اسی سال کے بوڑھے تک اور پاکبازخواتین کے تاریخ
ساز کردار سے صفحات بھرے پڑے ہیں۔
غیر مذہب اور جاہل معاشرہ میں جو جانوروں کے پانی پینے پلانے پر طویل جنگوں
میں مصروف رہتے تھے وہ بھی اس ماہ میں جنگ نہیں کرتے تھے۔اسلامی دنیا میں
محرم کی اہمیت واقعہ کربلا کی وجہ سے زیادہ ہوگئی ۔حضرت امام حسین ؓ کو جب
کربلا کے میدان میں شہید کیا گیا ، آپ کی شہادت کا واقعہ بہت لمبا اور دل
سوز ہے جس کو لکھنے کی مجھ میں طاقت نہیں اور پڑھنے کا حوصلہ آپ میں بھی نہ
ہوگا۔ واقعہ کربلا میں 16اہل بیت سمیت 76افراد نے شہادت پائی۔جس دن حضرت
امام حسین شہید ہوئے اس دن سورج گرہن ہوگیا ۔حضرت امام حسین کی شہادت پر
انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات بھی روئے۔
یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم ، بے کس بے بس اور لاچار
مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور کس طرح بیابان اور جنگل میں
گئے اپنے آبلوں سے کانٹوں سے تواضع کی ، لو اور دھوپ کو دیکھا ، تپتی ریت
اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے ، سینے پر زخم سجائے ،
آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا ، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر
رکھااور پستی وگمنامی سے نکل کر شہرت ، عزت اور عظمت کے عروج پر پہنچ
گئے۔لیکن سوائے ناکامی آج ہم نے ہجرت کے حقیقی درس کو فراموش کر دیا ۔
محرم الحرم کے ان واقعات میں دیکھا کہ اسلام کے لیے کتنی قربانیاں دی گئیں
مگرافسوس آج کے مسلمان اس ماہ میں افسوس کے لیے کالے کپڑے پہننا، شادی بیاہ
نہ کرناجیسے کام تو کرتے ہیں مگر ان دودن میں روزہ رکھنے کی جو سنت ہے اس
کو پورا نہیں کرتے ۔ اگر قربانی کا درس لینا ہے تو یہ محرم الحرام کا مہینہ
کافی نہیں؟ آج ہم صرف نام کے مسلمان ہیں کیونکہ دشمن اسلام تو کسی طرح بھی
مسلمان پر وارکرنے نے باز نہیں آرہا۔آج جبکہ عالم اسلام پر مصیبتوں کے بادل
چھائے ہیں۔ کشمیر میں کربلا کا سین پیش کیا جارہا ہے ۔ ایک سال سے زائد
ہوگیا ہے کشمیر ی عوام کو بھارت نے قید کیا ہوا ہے۔ ان کا کھانا پینا بند
کیا ہوا ہے اور ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں مگر افسوس کوئی مسلم
ممالک ان کے لیے محمد بن قاسم یا ٹیپو سلطان بننے کو تیار نہیں۔ فلسطین پر
صیہونی قبضہ اور اہل فلسطین پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔خود
ہمارے مسلم ممالک اسرائیل کا وجود تسلیم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مسجد اقصٰی
کی تاریخ کو بھول کر ، فلسطینی عوام کی جدوجہد کو پس پشت ڈال کر کفار سے
دوستی کی پینگیں بڑھانے جارہے ہیں اور پھر یہی اسلام ممالک حضرت امام حسنؓ
اور امام حسینؓ کی قربانیوں کی مثالیں دیتے ہیں۔
کلمہ پڑھ لینا ہی مسلمان ہونے کے لیے ضروری نہیں اس پر عمل پیرا ہونا بھی
اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہے تو ہم اپنے اندر حضرت
عمرؓ اور حضرت امام حسینؑ کی سی دلیری اور جذبہ شہادت پیدا کرنا ہوگا مگر
افسوس کہ مسلمان ممالک بڑی خاموشی سے ان غیر مسلموں کی بدمعاشی کو قبول
کررہے ہیں ۔ ہے کوئی ایسا حاکم اسلام جو امام حسین کی سنت کو پورا کرتے
ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کو اس قرب سے باہر نکالے؟ نہیں ایسا کوئی مسلمان
حکمران نہیں کیونکہ یہ جذبہ تو ہم میں نہیں ہمارے بڑوں میں تھا۔ ہم تو مفت
کا مال کھا کر ہڈحرام ہوگئے ہیں۔ ہم کو دنیا عزیز ہے آخرت سے کوئی پیار
نہیں۔کیونکہ ہمارے اندر موت کا کوئی ڈر نہیں۔ ہمیں خدا کے قہر کا کوئی خوف
نہیں۔ ہمیں اگر محبت ہے تو بس دنیاداری سے۔
آؤ آج عاشورہ کے دن یہ عہد کریں کہ ہم امام حسن ؓاور حسین ؓ کی تقلید کرتے
ہوئے ہمیشہ اسلام کے لیے لڑیں گے۔مسلمانوں پر جہاں ظلم ہوگا تمام اسلامی
ریاستیں اکٹھی ہوکر کفار کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔فرقہ واریت کے بجائے
صرف ایک اﷲ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کریں گے ۔مجھے
معلوم ہے کہ سب باتیں صرف لکھنے پڑھنے تک محدود ہیں مگر اندر سے ہم سب
کھوکھلے ہیں اور کچھ کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ آخر میں اﷲ سے دعا ہی کرسکتے
ہیں اے اﷲ توہی اپنے کرم وفضل سے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ آمین |