سچ ہے جس دل میں عشق ِ رسول ﷺ موجزن ہوجائے دنیا کی ہر
چیز اس کے آگے ہیچ ہوجاتی ہے مولانا ظفرؒ احمد عثمانی معروف عالم دین تھے
وہ ایسے دور میں ہندوستان سے حج کرنے کے لئے حجاز مقدس گئے تھے، جب لوگ
بحری جہازوں میں سفر کر کے حج کا فریضہ ادا کرنے جاتے تھے۔ انہوں نے حج سے
واپسی پر انہوں نے یہ واقعہ تحریر کیا وہ اکثرکہاکرتے تھے میں ساری زندگی
کسی سے لاجواب نہیں ہوا لیکن ایک واقعہ ایسا ہوا کہ مجھے کوئی جواب نہیں
سوجھا جیسے زبان گنگ ہوگئی ہو سوائے ایک موقع پر جب ہم حج کرنے (کے دوران)
مدینہ طیبہ گئے تو اس وقت مسجد نبو ی ﷺ سے ملحقہ ایک جگہ اپنا خیمہ لگایا
اور وہاں رہائش رکھی اور ادھر سے ہی مسجد نبوی ﷺ میں آ جاتے، چونکہ شدید
گرمیوں کا موسم تھا۔ جب ہم تمام حاجی اکٹھے ہو کر شام کا کھانا کھاتے تو اس
وقت وہاں سے گرم موسم کی وجہ سے تربوز خرید لیتے اور کھانے کے بعد اسے
کھاتے اور اس کے چھلکے باہر پھینک دیتے۔اس دوران ہم نے کیا دیکھا کہ ایک
سات آٹھ سالہ بچہ آتا اور چھلکوں کے ڈھیر میں سے چھلکے اٹھاتا، جو ہلکی
سرخی مائل گری رہ جاتی، اسے کرید کرید کر کھا لیتا۔جب یہ معمول دو روز تک
دیکھا تو میں نے پیار سے اس بچے سے پوچھ لیا کہ بیٹے تم ایسا کیوں کرتے ہو
؟ تو بچے نے کہا میں ایک یتیم بچہ ہوں، میرے والد فوت ہو چکے ہیں۔ میری
والدہ نے عقدثانی کر لیا ہے۔ گھر میں غربت اور فاقے ہیں، میں مدینے کا بچہ
ہوں اور میزبان ہونے کی حیثیت سے مہمانوں سے مانگتے شرم آتی ہے۔ لہذا میں
اس بچی کھچی گری سے پیٹ بھر لیتا ہوں۔ مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ
مدینے کے بچے کی اس فہم و فراست نے ہمارے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔ آنکھیں
آنسووں سے بھیگ گئیں۔ بچے سے کہا کہ بیٹا اگر آپ مناسب سمجھو تو آپ ہمارے
ساتھ آ کر کھانا کھا لیا کرو۔ بچہ انکاری تھا، مگر ہمارے پیار بھرے بھر پور
اصرار پر ہاں کر دی۔ مدینے کا یہ بچہ روز آ جاتا، ہمارے ساتھ کھانا کھاتا۔
آہستہ آہستہ شناسائی بڑھتی گئی۔ بچے سے انس ومحبت پروان چڑھا تو میں نے بچے
کو پیشکش کر دی کہ بیٹا آپ میرے ساتھ ہندوستان آ جاؤ۔ میں وہاں آپ کو درس
میں رکھ کر پڑھاؤں گا۔کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک آپ کی تعلیم کا بندوبست
کروں گا، تو بچے نے کہا کہ میں اپنی والدہ سے بات کر کے آپ کو آگاہ کروں
گا۔ جب ہماری واپسی کا وقت آ گیا تو وہ بچہ اپنی والد ہ سے اجازت لے کر
سامان سفر باندھ کر آ گیا۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی۔ بچے کو ساتھ لیا، بچہ قافلے
کے ہمراہ چل رہا تھا تو دوران سفر میرے ساتھ محو گفتگو تھا لور سوال پرسوال
کر رہا تھا کہ چاچاجی وہاں ہندوستان میں سکول اچھے ہیں؟ میں نے کہا کہ بیٹا
بہت اچھے ہیں۔ وہاں مجھے اچھے کپڑے پہننے کو ملیں گے؟ میں نے کہا کہ ہاں
بیٹا۔ اس نے پوچھا کہ مجھے وہاں فٹ بال کھیلنے کے گراؤنڈ میسر آئیں گے؟ جی
ہاں بیٹا ہندوستان میں فٹ بال کھیلا جاتا ہے۔بچے نے کہا کہ مجھے وہاں طرح
طرح کے معیاری کھانے اور اچھی رہائش ملے گی؟ میں نے کہا کہ کیوں نہیں بیٹا
یہ سب سہولتیں آپ کو ملیں گی۔اس دوران چلتے چلتے سامنے گنبد خضریٰ نظر آ
گیا بچے کی نظر پڑی تو سوال کر دیا کہ چاچا جی یہ سامنے والا گنبد بھی وہاں
ہوگا؟ میرے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ بچے کے اس سوال نے مجھے لاجواب کر دیا
اور میں نے تڑپ کر کہا کہ بیٹا اگر یہ گنبد وہاں مل جاتا تو مجھے یہاں آنے
کی کیا ضرورت تھی؟ بچے نے میرا جواب سنا تو تیزی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور
کہا: "چاچا جی مفلسی، بے بسی اور یتیمی قبول ہے۔ مگر سرکارِ مدینہ ﷺ کا
دامن چھوڑ نا کسی صورت گوارا نہیں۔ میں مدینے کو کس صورت نہیں چھوڑ سکتا۔"
آپ جائیں میں نہیں جاؤں گا
مولاناظفرؒ احمد عثمانی لکھتے ہیں کہ بچہ ہمیں روتے ہوئے دم بخود چھوڑ کر
بھاگا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ مولاناظفر احمد عثمانی باقی مانندہ
زندگی، یہ واقعہ لوگوں کو سنا سنا کر روتے رہے۔
|