۲۲ مئی ایک ایسا سیاہ دن ہے جس
دن دھشت گردوں نے پاکستان کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ میں تو اسے
پاکستان کا نا ئن الیون کہتا ہوں کیوں کی حسا سیت کے نقطہ نظر اور نقصان کے
لحاظ سے یہ دھشت گردوں کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس نے عسکری قیادت کی
کارکردگی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔اسامہ بن لادن کی ہلا کت کے بعد
القاعدہ اور طالبان کے باہمی گٹھ جوڑ سے ظہور پذیر ہو نے والی دھشت گردی کی
نئی کاروائی نے پاکستان کی سالمیت پر ایسا وار کیا ہے جس نے پوری پاکستانی
قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کی ساری کاروائیوں کے کھُرے
مذہبی جما عتوں کے نیٹ ورک تک پہنچ رہے ہیں جو ان شدت پسندوں کی پشت پر
کھڑی ہیں اور انھیں انسان کش حملوں کے لئے تعاون اور حوصلہ عطا کر ر ہی ہیں
۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ لوگ جو القاعدہ کو احیائے اسلام کی علمبر دار تنظیم
سمجھتے ہیں ۲۲ مئی کے اس حملے کے بعد ان کے نظریات میں کہاں تک تبدیلی آئی
ہو گی۔ کیا وہ اپنے خیالات میں کوئی بدلاﺅ لا ئیں گے یا پاکستان کی تباہی
کے منظر میں اسلام کے طلوع ہونے کا خواب اسی طرح دیکھتے رہیں گے۔۲۲ مئی کو
پی این ایس مہران پر حملہ اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال نے ثابت کیا
ہے کہ مذہب پرست جماعتوں اور شدت پسند تنظیموں کے آپس میں گہرے را بطے ہیں
اور وہ ایک ہی متفقہ ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ پا کستان کو مذہبی
جنونیوں کی آماجگاہ بنا نا ہے اور اس کےلئے اگر انسانی خون بہتا ہے تو راہِ
جہاد میں اس کی بالکل پرواہ نہیں کرنی بلکہ اپنے طے شدہ ایجنڈے پر ہر حال
میں پیش قدمی جاری رکھنی ہے کیونکہ ان کے فلسفے کی رو سے اسلام اپنی حاکمیت
کو قائم کرنے کےلئے خون بہانے کی اجازت دیتا ہے اور شدت پسند اپنے اسی خود
ساختہ نظریے اور فلسفے کے تحت انسانی خون بہانے کی راہ پر اسلحے اور بارود
کی قوت اسے معصوم انسا نوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔قتل و غارت گری جب
مقصدِ اسلام قرار پا ئےگی تو پھر کون ہے جو اسلام کو امن اور سلامتی کا دین
مانے گا ۔ اسلام کا روشن اور حسین چہرہ جب خون کے چھینٹو ں سے لت پت کر دیا
جا ئےگا تو پھر ہرامن پسند شخص اسلام سے پناہ مانگے گا لیکن ستم ظریفی کی
انتہا یہ ہے کہ شدت پسند اسے ہی اسلام کی فتح سے تعبیر کر کے اسلام کے اجلے
دامن کو داغدار کرتے رہیں گے اور مسلما نوں کا جینا د وبھربھی کرتے رہیں گے
اور انھیں مہذب دنیا کے سامنے رسوا بھی کرتے رہیں گے۔
دنیا بھر کے سارے انسان کش، امن دشمن، بے رحم اور انتشار پسند افراد جنھیں
ان کے اپنے ممالک نے ان کی غیر انسانی حرکات کی وجہ سے اپنے اپنے ممالک سے
بے دخل کیا ہوا ہے سارے کے سارے پاکستان میں روپوش ہیں اور اس ملک کی تباہی
کے در پہ ہیں جسے قائدِ اعظم محمد علی جناح نے شاندار جمہوری جدو جہد کے
بعد حاصل کیا تھا۔افغان جنگ میں جنرل ضیاا لحق نے افغانیوں کو پناہ دے کر
جس تباہی کے بیج بوئے تھے وہ فصل اب پک کر تیارہو چکی ہے ۔غیر ملکی جہادیوں
کو اسلام کی جس نام نہاد جنگ کے لئے پاکستان میں جگہ دی گئی تھی وہ جنگ تو
زمانہ ہوا ا ختتام پذیر ہو چکی ہے لیکن یہ سماج دشمن عناصر پاکستان سے جانے
کانام نہیں لے رہے بلکہ اس پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔پاکستان کی مذہبی
تنظیمیں اس مذہبی قبضے کے خواب میں رنگ بھرنے کے لئے ان کے شانہ بشانہ کھڑی
ہیں اور انھیں اپنی اعانت اور مدد سے نواز رہی ہیں ۔ گھر کا بھیدی لنکا
ڈھائے کے مصداق یہ مذہبی جماعتیں شدت پسندوں کو حساس اداروں کی معلومات بہم
پہنچا رہی ہیں اور پاکستان کی تباہی میں کلیدی کردار ادا کرہی ہیں۔دھشت
گردوں کو ہر ٹارگٹ کی انفار میشن انہی مذہبی جماعتوں کے شدت پسندوں کی
بدولت ملتی ہے جو ان کے کام کو آسان تر بنا دیتی ہے اور وہ اپنے ھدف کو
نشانہ بنا نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی کامیابی پر مذہبی
جماعتیں ان کے دفاع کےلئے میدان میں نکل آتی ہیں اور اس کو حق بجانب قرار
دینے کی مشق میں جٹ جاتی ہیں۔ جو کو ئی بھی ان کے بے تکے اور منطق سے عاری
دلائل کو ماننے سے انکار کرنے کی جرات کرتا ہے اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے
ہیں یا اس پر اسلام دشمنی کا لیبل چسپاں کر کے اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں
۔۔
جنرل ضیاا لحق کے دستِ راست اور افغان جنگ کے ماسٹر مائنڈ جنرل حمید گل کی
گل افشا نیاں آج بھی اسی انداز میں جاری ہیں جیسے وہ اب بھی آئی ایس آئی کے
چیف ہیں اور پاکسان کے مفادات کےلئے افغانیوں کی مدد ضروری تصور کرتے
ہیں۔انھیں علم ہی نہیں کہ دنیا بدل چکی ہے اور وہ ا فغانی جنھیں ۹۷۹۱ میں
مجایدین کہہ کر گلے لگا یا گیا تھا آج کی مہذب دنیا کے دھشت گرد ہیں اور
عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں۔ لیکن جنرل حمید گل آج بھی ان کی محبت میں رطب
اللسان ہیں، ان کی جراتوں کی قصیدہ گوئی میں مگن ہیں اور ان کی حمائت میں
اپنی ساری توانائیاں صرف کر ر ہے ہیں۔پاکستان جل رہا ہے لیکن وہ افغانیوں
کی محبت میں پاکستان کی محبت کو فرا موش کر رہے ہیں۔ جنرل حمید گل کی زندگی
کا واحد مقصد افغانیوں کی جیت ہے چاہے اس کے بدلے میں پاکستان اپنی بقا کی
جنگ ہار جائے اور اس کا شیرازہ بکھر جائے۔وطن سے محبت کا یہ انداز میں نے
جنرل حمید گل کی ذات میں دیکھا ہے جسے اپنے وطن کی جیت سے زیادہ اپنے وطن
کے دشمن کی جیت زیادہ عزیز ہے جس نے پورے پاکستان کو شمشان گھاٹ بنا رکھا
ہے۔۔ کمال ہے کہ جنرل صاحب رہتے تو پاکستان میں ہیں لیکن ان کے دل میں مروڑ
افغانستان کی محبت کے اٹھتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے اندر دھشت گردی کی
کاروائیوں سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں حالانکہ یہ کاروائیاں پاکستان کے وجود
کو مٹانے کے مترادف ہیں لیکن انھیں افغان محبت میں اتنا ہوش ہی نہیں کہ وہ
پاکستان کی بقا کے بارے میں سوچ سکیں ۔ان کی سوئی افغان مجاہدین پر اٹکی
ہوئی ہے اور وہ اسی سوچ کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں۔میں جنرل حمید گل کی خدمت
میں اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کہ اگر افغانستان ا نھیں اتنا ہی عزیز ہر
تو پھروہ افغانستان میں جا کر ا فغانیوں کے ساتھ شامل ہو کر اس جنگ کو کیوں
نہیں لڑتے ۔پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپے کی سازش
کرنے سے باز آجائیں کہ پاکستانیوں کے لئے ان کی پہلی اور آخری محبت پاکستان
ہے اور وہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔
جنرل ضیاا لحق اور ا فغان مجاہدین کو پناہ دینے والے سارے کردار اپنے عبرت
انگیز انجام کو پہلے ہی پہنچ چکے ہیں لیکن ان کی ایک نشانی اب بھی جنرل
حمید گل کی شکل میں موجود ہے جو اسی فکر کی نمائندہ ہے اور دھشت گرد طالبان
کو مجاہدین لے لقب سے پکارتی ہے۔جنرل صاحب نیند سے بیدار ہو جا ئیے ، نئے
حقائق کا ادراک کیجئے اور پاکستان کی سالمیت کو روندھنے کی موجودہ روش کو
غیر باد کہہ دیجئے۔ہمیں علم ہے کہ مذہبی گروہوں سے آپ کی محبت بہت شدید ہے
تبھی تو آپ نے ۸۸۹۱ میں آئی جے آئی تشکیل دے کر جمہو ری قوتوں کار استہ
روکنے کی کوشش کی تھی لیکن کس کے روکے رکا ہے سویرا کے مصداق اپ کی ہزار ہا
کوششوں اور خواہشوں کے علی الر غم پی پی پی کی جیت کو آپ روک نہ سکے تن
تبھی تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دنیائے اسلام کی پہلی وزیر ِ اعظم کا حلف
اٹھا یا تھا اور حلف اٹھا نے کا یہ تاریخ ساز منظر آپ کے سینے میں خنجر کی
طرح پیوست ہو گیا تھا جس کی تکلیف آج بھی آپ کو پریشان کئے رکھتی ہے۔ مذہی
عناصر کی محبت کی یہی شدت ہے جس نے آپ کو القاعدہ اور طالبان کے قریب کیا
ہوا ہے اور آپ ان کی حمائت میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا نے سے باز
نہیں آ رہے آپ ان کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہو ئے ہیں جب کہ ان
کا دامن معصوم اور نہتے شہریوں کے خون سے رنگین ہے۔۔
پاکستان جل رہا ہے۔ آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے۔عوام موت کے حصار میں ہیں
او ر اپنے پیاروں کے لاشے اٹھا رہے ہیں ۔سڑکوں پر خون بہہ رہا ہے۔ انسانیت
چیخ رہی ہے دہائی دے رہی ہے ماتم کناں ہے اور امن کی صدائیں بلند کر رہی ہے
لیکن دھشت گرد ہیں کہ کسی آواز کو سننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ خون کی
ہولی کھیلتے چلے جا رہے ہیں اور انسانی خون کی ارزانی کے کارو بار میں
مصروف ہیں ۔ وہ انسانی خون کے بہاﺅ سے اسلام کے نفاذ کی راہ دیکھ رہے ہیں
اور مذہبی جماعتیں ان کی اس غیر اسلامی سوچ میں ان کے شانہ بہ شانہ کھڑی
ہیں اور انھیں حوصلہ عطا کر رہی ہی ہیں۔میرا آشیانہ (پاکستان) جل رہا ہے
اسے آگ کے تندو تیز شعلوں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس آگ
سے آشیا نے کے بچنے کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ آگ کے
شعلے بڑے تیز ہ اور بے رحم ہیں۔ میں اس آشیا نے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش
کر ر ہا ہوں کیونکہ میرے پاس تو اس آشیا نے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں
ہے۔یہ آشیا نہ ہی میری کل کائنات ہے لہٰذا اس کے لئے مجھے میدان میں نکل کر
دھشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہو گا اور انھیں شکست دینی ہو وگرنہ یہ آشیانہ
آگ کے شعلوں میں بھسم ہوکر ختم ہو جائے گا اور پھر میں بے یارو مدد گار
اہلِ جہاں کے بے رحم تھپیڑوں کے رحم و کرم پر پچھتاوے کی ایسی آگ کا ایندھن
بنوں گا جو مجھے جلاڈالے گی میرے وجود کومٹا کر مجھے خاک کر ڈالے گی۔۔۔
جب یہ طے ہے کہ دھشت گردی کی آگ میں امن کا جل جانا یقینی ہے تو پھر کیوں
نہ امن کی خاطر ، انسانیت کی خاطر اور نہتے بے یارو مدد گار لوگوں کی خاطر
جو ان دھشت گردوں کا نشانہ بنتے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو
بیٹھتے ہیں انھیں للکا را جا ئے اور ان کی دھشت گردی کا قلع قمع کیا جائے۔
میرے ہم وطنوں اٹھ جاﺅ کہ یہ وقت آرام کا نہیں ہے۔ دھشت گردی کی جنگ اپنے
فیصلہ کن موڑ پر آن پہنچی ہے اور ہمیں اس جنگ کو ہر حال میں جیتنا ہے۔ یہ
کسی کی جنگ نہیں ہے یہ ہماری اپنی جنگ ہے، ہمارے وجود کی جنگ ہے،ہماری بقا
کی جنگ ہے اور یہ جنگ ہم نے خود ہی لڑنی ہے۔ اگر آج ہم نے اس جنگ میں
ہتھیار ڈال دئے تو پھر ہماری آنے والی نسلیں دھشت گردوں کے ہاتھوں اس کی
سزا بھگتی رہیں گی لہذا اٹھو اور اس جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا کر
دھشت گردوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفایا کردو کہ یہی وقت کا تقاضہ ہے اور
یہی انسانیت کی پکار ہے ۔مجھے یقینِ کامل ہے کہ آخری شکست دھشت گردوں
کامقدر ہو گی کیونکہ امن اور سچائی کو شکست د ینا کسی کے بس میں نہیں
ہوتا،۔
شب بیتنے والی ہے سحر دیکھ رہے ہیں ۔۔ ہم اپنی دعاﺅں کا اثر دیکھ رہے ہیں
یہ معجزہ دیکھا ہے خزاں دیدہ چمن میں۔۔ہم شاخِ برہنہ پہ ثمر دیکھ رہے ہیں
(ڈاکٹر مقصود جعفری) |