28مئی کا دن پاکستانی عوام کیلئے
ایک تاریخی اور یادگار دِن کی حیثیت رکھتا ہے جب پاکستان نے بھارت کے 13مئی
1998ءکے 3ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف ہندو بنئے
کی بولتی بند کر دی بلکہ اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے امریکی
صدر بل کلنٹن کی دھمکیوں اور لالچ کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہوئے پاکستان
کو دنیائے اِسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا دیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز1975ءمیں پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا جنہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو کہ
اس وقت ہالینڈ میں مقیم تھے کو پاکستان میں جوہری تونائی کیلئے کام کرنے پر
تیار کیا۔ابتدائی طور پر یہ کام خفیہ رکھ گیا لیکن جلد ہی امریکہ کو اس کی
بھنک پڑ گئی امریکہ نے اس وقت کے وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کے ذریعے بھٹو
صاحب کو یہ پیغام پہنچایا''ایٹمی پروگرام بند کر دو ورنہ ہم تمہیں نشانِ
عبرت بنا دیں گے''لیکن بھٹو صاحب کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور پھر
واقعی بھٹو صاحب کو نشانِ عبرت بنا دیا گیا لیکن ایٹمی پروگرام ضیا دور میں
بھی جاری و ساری رہا۔جس پر امریکہ نے پاکستان پر متعدد پابندیاں عائد کر
دیں لیکن اس دوران1979ءآگیا جب قدرت کا غیبی ہاتھ حرکت میں آیا جب سُرخ
ریچھ نے افغانستان پر چڑھائی کر دی یوں سوویت یونین کی اس تاریخی حماقت نے
جہاں امریکہ کو اپنی ویتنام کی شکست کا بدلہ لینے کا موقع مل گیا وہیں یہ
جنگ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے باعثِ رحمت بھی ثابت ہوئی کہ امریکہ نے
اس دوران نہ صرف پاکستان پر سے پابندیاں ختم کر دیں بلکہ (بعض اوقات مطلب
کیلئے گدھے کو بھی باپ کہنا پڑتا ہے کے مصداق)پاکستان کیلئے اپنے اسلحہ
خانوں اور تجوریوں کے منہ بھی کھول دیئے یوں اس طرح ڈاکٹر خان اور ان کی
عظیم ٹیم کو کھل کر کام کرنے کا موقع مل گیا اور آخر کار 10دسمبر 1984ءکو
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے صدر ضیا الحق کو خط لکھا کہ پاکستان ایٹمی قوت حاصل
کر چکا ہے اور کسی بھی وقت تجربہ کیا جا سکتا ہے لیکن ضیا الحق نے کہا کہ
ابھی مناسب وقت نہیں ہے۔اور پھر یہ مناسب وقت 14سال کے بعد اُس وقت میسر
آیا جب 13مئی 1998ءکو بھارت نے پوکھران میں 5ایٹمی دھماکے کئے جس پر جہاں
ایک طرف پورے بھارت میں خوشیاں منائی گئیں وہیں ہندو بنئے کی اکھنڈ بھارت
کی وہ مکروہ ذہنیت بھی کھل کر سامنے آگئی جو اس نے ''جو اس نے دنیا کی سب
سے بڑی جمہوریت''کے دلفریب پردے میں چھپائی ہوئی تھی ایٹمی دھماکے کرنے کے
ساتھ ہی بھارتی پنڈتوں نے پاکستان کو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان مقبوضہ
کشمیر کو بھول کر آزاد کشمیر کی فکر کرے۔اس نازک صورتحال میں پوری قوم
ڈاکٹر عبدالقدیر خان اورمیاں نواز شریف کی طرف دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری
جانب ''تمام کفر ایک قوم ہے ''کا عملی نمونہ بھی اس وقت یوں دیکھنے میں آیا
کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں پر مہر بلب امریکہ و یورپ پاکستان کو صبر اور امن
پسندی کا درس دینے لگالیکن میاں صاحب نے ہر طرح کے پریشر کو پائے حقارت سے
ٹھکراتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا یوں 28مئی کو3;16پرچاغی کے
پہاڑنعرہ تکبیر سے گونج اٹھے اس موقع پر جہاں پاکستانی عوام کا جوش و خروش
دیدنی تھا وہیں اس موقع پر جب اس ''حکم عدولی''پر پاکستان ایک بار امریکی
پابندیوں کا شکار تھا اس آڑے وقت میں برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے تعاون
کو بھی نہیں بھلایا جا سکتا جس نے پاکستان کو تین سال تک مفت تیل فراہم کر
کے ہماری معیشت کو سہارا فراہم کیا۔گو اس کے بعد میاں نواز شریف کو ان
دھماکوں کی پاداش میں یہ سزا دی گئی کہ پہلے ان کی دو تہائی اکثریت رکھنے
والی حکومت کو فوجی بوٹوں تلے روند دیا گیا اور پھر اپنے ہی ملک سے بے دخل
کر دیا گیالیکن بہرحال یہ کریڈٹ ہمیشہ کیلئے میاں نوازشریف کو ہی جاتا رہے
گا کہ انہوں نے ہی 28مئی کو ایٹمی بٹن دبا کر ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر
بنایاتھا۔
آج پاکستان کو ایٹمی طاقت حاصل کئے13برس ہو چکے ہیں اور کفریہ طاقتیں
خصوصاََشیطانی اتحادِ ثلاثہ(امریکہ،بھارت اور اسرائیل)کیلئے ہمارا ایٹمی
پروگرام ناقابلِ برداشت ہے اس لئے وہ شروع دِن سے ہی اس کا کانٹا نکالنے
کیلئے بے چین ہیں لیکن پرویز مشرف کے ایک بار پھر امریکی گود میں جا بیٹھنے
اور اپنے دیرینہ اور وفادار ہمسایہ افغانستان کے خلاف نام نہاد war against
terrorismمیں بے دام غلامی نے امریکہ کو مصلحتاََ خاموش رہنے پر مجبور کئے
رکھا لیکن اب جبکہ امریکی غرور بھی سوویت یونین کی طرح افغانی پہاڑوں سے
پاش پاش ہونے کو ہے ایسے میں یہاں سے بھاگتے ہو ئے ایٹمی پروگرام کا کانٹا
نکال کر ہی امریکہ اپنی ساکھ کچھ نہ کچھ بحال کر سکتا ہے تا کہ دنیا کے
سامنے پروپیگنڈہ کر سکے کہ ہم نے دنیا کے خطرناک ترین دہشت گرد اسامہ بن
لادن اور ''اسلامی بم''کو ختم کرکے دنیا کو محفوظ کر دیا ہے ۔لہذٰا بحیثیت
ایک مسلمان اور غیرتمند قوم ہونے کے ناطے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن
کے آفاقی پیغام''یہود و نصاریٰ کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے''پر اب ہی
غور کرلیں کہ یہ وقت کا شدید ترین تقاضا بھی ہے اور یومِ تکبیر کی پکار بھی۔ |