ہندوستان میں نعروں کی روایت بہت قدیم ہے مثلاً
اندراگاندھی کا ’غریبی ہٹاو‘ والا نعرہ سبھی نے سنا ہے لیکن گزشتہ چند
سالوں سے تو نعروں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور اس نے کورونا وائرس کی مانند
پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔۷ سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی کی
زبان سے جب پہلی بار’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ سنا تو کانوں پر یقین نہیں
آیا ۔ اس لیے کہ 2013 کے اندر وزیراعلیٰ نریندر مودی کی شبیہ ایک مسلم
دشمن رہنما کی تھی اورپچھلے ایک سال میں اب پھر ہوگئی ہے۔ گجرات کا فساد
لوگ اس وقت بھی نہیں بھولے تھے اور اب بھی اس کی یادیں تازہ ہیں لیکن اس
ایک نعرے کی مدد سے ان کی شبیہ بدلنے کی کوشش کی گئی۔ مسلمانوں نے تو خیر
اس وقت بھی مودی جی پر اعتبار نہیں کیا تھا اورنہ اب کرتے ہیں لیکن ہندووں
کے اندر معتدل طبقہ جو ان فرقہ پرستوں کے اقتدار میں آجانے سے قتل و
غارگریکے اندیشوں کا شکار تھا قدرے مطمئن ہوگیا یا کہہ لیں کہ جھانسے میں
آگیاْ۔
اس خوشنما نعرے نے بی جے پی کے حلقۂ اثرکو وسیع کرنے میں مددکی ۔ اسی
زمانے میں ’اچھے دن آنے والے ہیں‘ کا نعرہ بھی چل پڑا ۔ اس طرح گویا ترقی
اور خوشحالی کےخوابوں نے مودی جی نے اقتدارکی راہ ہموار کردی ۔ نعرے سےخواب
دکھانا جتناآسان ہوتا ہے محنت کرکے انہیں شرمندۂ تعبیر کرنا اتنا ہی مشکل
ہوتا ہے ۔ اس لیے وزیر اعظم نے 2014 کے اواخر میں ’میک ان انڈیا ‘ کا نیا
نعرہ لگا دیا ۔ ہر سال ایک کروڈ20لاکھ نئے لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے
لیے یہ لازمی تھا ۔ وقت کے ساتھمیک ان انڈیا کا علامتی شیر کاغذی نکلا۔
نوجوانوں کو ملازمت نہیں ملی تو مودی جی نے 2015 میں اسٹارٹ اپ انڈیا کا
نیا نعرہ لگا دیا ۔ اب وہ بلاواسطہنوجوانوں سے کہہ رہے تھے کہ سرکار یا نجی
اداروں سے نوکری کی توقع چھوڑ کرخود اپنا کاروبار شروع کروگے تو حکومت
تعاون کرے گی ۔ یہ تبدیلی دراصل میک ان انڈیا کے مقصد میں شکست کا کھلا
اعتراف تھی۔
اسٹارٹ اپ انڈیا سے نہ جانے کیوں یہ تاثر چلا گیا کہ اس سے صرف اونچی ذات
کے امیر کبیر لوگوں کا فائدہ ہو گا اور پسماندہ طبقات محروم رہ جائیں گے اس
لیے 2016 میں اسٹینڈ اپ انڈیا کا نعرہ لگایا گیا ۔ یہ اسٹارٹ اپ انڈیا کی
جڑواں بہن تھی جس ہیں پسماندہ اور غریب طبقات کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے
کی ترغیب دی گئی تھی۔ وہ بیچارے سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن کی امیدرکھتے
تھے ۔ اب ان کو بھی مایوسی کا شکار کردیا گیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک
کی معاشی حالت بگڑتی جا رہی تھی اور بیروزگاری کی شرح نے 45سالوں کا ریکارڈ
تو ڑ دیا تھا ۔ ایسےمیں مودی جی نے تنگ آکر ڈاووس کے اندر ایک انٹرویو میں
ملک کےپڑھے لکھے نوجوانوں کو پکوڑے بیچنے کا مشورہ عنایت فرمادیا ۔ اس پر
خوب ہنگامہ ہوا۔ بیروزگار نوجوانوں نے اپنی ڈگری گلے میں ڈال کر مودی کے
جلسوں میں احتجاجاً پکوڑوں کی دوکان لگائی اور سابق وزیر خزانہ چندمبرم نے
یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پکوڑے بیچنا روزگار ہے تو بھیک مانگنا بھی ایک کام
ہے ۔ نوجوت سدھو نے تو کہہ دیا کہ مودی نے ملک کو صرف پکوڑے اور بھگوڑے
دیئے ہیں ۔
ملک کے اس معاشی انحطاط میں مودی سرکار کے دو احمقانہ فیصلوں نے بہت اہم
کردار ادا کیا اور رہی سہی کسر ناعاقبت اندیش لاک ڈاون نے پوری کردی۔ ان
میں پہلافیصلہ اچانک نافذ کی جانے والی نوٹ بندی تھی۔ خاطر خواہ تیاری کے
بغیر اٹھایا جانے والا یہ ایک عاجلانہ اقدام تھا۔ اس کا مقصد بدعنوانی کا
خاتمہ بتایا گیا لیکن اس کے سبب بدعنوانی کا بہت بڑا سیلاب آگیا۔ ہندوستان
کا روپیہ خود اپنے ہی بازار میں کم قیمت پر بکنے لگا ۔ بنک ملازمین پانچوں
انگلیاں گھی میںاور ان کے دلالوں کا سر کڑھائی میں چلا گیا۔ اس بیچ بی جے
پی والوں نے بھی اپنے کوآپریٹیو بنکوں میں خوب کالے دھن کو سفید بنایا ۔
ان میں امیت شاہ کا بنک پیش پیش تھا ۔ اس فیصلے کو نافذ کرنے سے قبل متبادل
نوٹ تیار نہیں کیے گئے اس لیے بازار میں کرنسی کی شدید کمی ہوگئی۔ اے ٹی
ایم کے باہر طویل قطار اور اندر خالی مشین نے عوام کو رلا دیا اور کئی
لوگوں نے تو قطار میں دم توڑ دیا۔ پرانے نوٹ کو ٹھکانے لگانے اورنئے نوٹ
چھاپ کرانہیں پہنچانے میں کروڈوں روپئے خرچ ہوگئے ۔ اس مشقت کا سب سے
بھیانک پہلو یہ تھا کہ ملک کا سارا کالادن سفید ہوگیا ۔ یہ ملک کی معیشت کو
پہلا سب بڑ ا جھٹکا تھا۔
اس برین ہمبریج سے ابھی قومی معیشت سنبھل ہی نہیں پائی تھی کہ گبر سنگھ
ٹیکس یعنی جی ایس ٹی وارد ہوگیا۔ اس کی دہشت سے معیشت کودل کا ایسا شدید
دوڑا پڑا کہ وہ اب بھی کوما میں ہے۔ سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی چونکہ پہلے
سے متوقع مشکلات کا اندازہ نہیں لگا پائے تھے اس لیے ہر روز کسی نہ کسی
ترمیم کا اعلان فرمادیتے تھے ۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے اور متوسط درجہ کی صنعت
کو بے موت ماردیا اور معیشت کی گاڑی جو پٹری سے اتری تو ابھی تک لوٹ کر
نہیں آئی۔ پہلے تو عوام اور پھر تاجر و صنعتکار لیکن اب تو صوبائی حکومتیں
اس کی سزا بھگت رہی ہیں۔ پہلے ٹیکس کی تقسیم بہت سادہ تھی ۔ انکم ٹیکس
مرکزی حکومت کی جیب میں چلا جاتا۔سیلس ٹیکس ریاستی حکومت کے خزانے کا حصہ
بنتا اور راہداری پر متعلقہ شہر کا حق بنتا تھا ۔ یہ نظام برسوں سے بغیر
کسی مشکل کے جاری و ساری تھا۔ کسی کو اس سے شکایت نہیں تھی۔مرکزی حکومت نے
اسے جی ایس ٹی کی چھتری میں جمع کرکے اپنے خزانے میں جمع کرلیا اور خود اس
پر سانپ بن کر بیٹھ گئی۔اب اگر وزرائے اعلیٰ نےاپنا حصہ طلب کیا توسرکار نے
ٹھینگا دکھا دیا۔
مرکزی وزیر خزانہ نے کورونا کا بہانہ بناکر قرض لے کر کام چلانے کا مشورہ
دے دیا۔ یہ عجیب منطق ہے کہ مرکزی حکومت قرض لے کر اپنے واجب الادا بقایہ
جات ادا کرنے کے بجائے الٹا قرض لینے کی تلقین کررہی ہے۔مودی سرکار نے دنیا
کی معاشی تاریخ میں اپنی ہی صوبائی حکومت کی گرہ کٹ کرنے کا یہ انوکھا
واقعہ درج کیا ہے۔ اس کے لیے کورونا کی آسمانی سلطانی کو بہانہ بنایا گیا
حالانکہ کورونا نہ تو ہندوستان سے شروع ہوا اور نہ یہاں آکر ختم ہوا۔ یہ
تو ایک عالمی وبا ہے۔ جس چین سے یہ وبا پھوٹی اس نےدوسری سہ ماہی کی جی ڈی
پی میں 3.2 فیصد کی ترقی درج کرائی اور جس ہندوستان میں اس کا نوٹس تین ماہ
بعد لیا گیا اس کی معیشت 23 فیصد نیچے اتر گئی اس لیے کورونا کا بہانہ کام
نہیں آئے گا۔ ہندوستان سے زیادہ متاثرین امریکہ اور برازیل نقصان ۹ فیصد
کے آس پاس ہے اور ہم لوگ 24 فیصد نیچے آگئے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کورونا
کے سبب نہیں بلکہ کورونا سے نمٹنے میں کی جانے والی بدانتظامی اور سرکاری
نااہلی کی وجہ سے ہے۔ ماہرین کی رائے یہ ہے کورونا تو ایک بہانہ ہندوستان
کی معاشی صورتحال تو پہلے ہی سکرات کے عالم میں تھی کورونا نے اسے وینٹی
لیٹر پر پہنچا دیا ہے۔
وزیر خزانہ معاشی زبوں حالی کے لیے خدا کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں ۔پی
چدمبرم کے ذریعہ ان پر کی جانے والی تنقید کو تو یہ کہہ کر جھٹلایا جاسکتا
ہے کہ حزب اختلاف کا کام ہی کیڑے نکالنا ہے لیکن وزیر خزانہ نرملا سیتارمن
کے شوہر پارکل پربھاکر کی ناراضگی کو کس خانے میں ڈالا جائے ۔ انہوں نے تو
بیزار ہوکر یہاں تک کہہ دیا کہ کمبھ کرن کی نیند سونے کے بجائے ’بھاگوان کے
نام پر اب تو کوئی قدم اٹھا لو‘۔پربھاکر نے اپنے ٹوئٹ میں حکومت میں مضبوط
پالیسی کا فقدان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کورونا وائرس
تو بہت بعد میں آیا’’میں نے اکتوبر 2019 میں یہ کہہ دیا تھا مگر حکومت اس
کی تردید کرتی رہی لیکن اب معیشت نے 23.9 فیصد سکڑ کر اسے صحیح ثابت کردیا
‘‘۔ پارکل پربھاکر نے اکتوبر 2019 کو ‘دی ہندو’ اخبار میں لکھ دیا تھا کہ
نجی کھپت کم ہو کر 3.1 فیصد رہ گئی ہے اور یہ فی الحال 18 ماہ کی کم ترین
سطح پر ہے۔ دیہات میں کھپت تیزی سے گر رہی ہے۔ درمیانے، چھوٹے اور مائیکرو
صنعتوں کو بینک سے ملنے والے قرض میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، برآمدات میں
تعطل آ گیا ہے، جی ڈی پی کی شرح نمو نچلی سطح پر ہے لیکن، حکومت ابھی تک
سمجھ نہیں آ سکی ہے کہ معیشت کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟
پارکل پربھاکر جیسے لوگ جب حکومت کو سنگین معاشی صورتحال سے آگاہ کررہے
تھے تو وزیر اعظم ۵ ٹریلین ڈالر کے خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے ۔ وزیر داخلہ
کشمیر کی دفع 370 کا خاتمہ کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے ۔ بابری مسجد کے
خلاف فیصلہ کروانے کی خاطر عدالت عظمیٰ کے اندر سازش رچی جارہی تھی۔ ایک
عظیم ناانصافی کا جشن منایا جارہا تھا ۔ این آر سی کی کرونالوجی بیان کرکے
ڈٹینشن سینٹر کا ڈر دکھایا جارہا تھا ۔ باہر سے لوگوں کو لاکر بسانے اور
اپنے ملک سے شہریوں کو نکالنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں ۔ شاہین باغ کو
بدنام کرنے کوشش ہورہی تھی ۔ دیش کے غداروں کو گولی مارو۰۰۰۰۰جیسے نعرے لگ
رہے تھے۔ جامعہ ، جے این اور علی گڑھ یونیورسٹی میں پولس ظالمانہ قہر
ڈھارہی تھی ۔ مدھیہ پردیش میں سرکارگرانے کی مذموم کوشش ہورہی تھی ۔ تبلیغی
جماعت کو بدنام کرنے سعی کی جارہی تھی ۔ دہلی میں فساد بھڑکا کر سی اے اے
مخالف مظاہرین کو پابند سلاسل کیا جارہا تھا ۔ یلغار پریشد کی آڑ میں
دانشوروں کا گلا گھونٹا جارہا تھا۔ رام مندر کا شیلا نیاس ہورہا تھا ۔
حکومت ان غیر ضروری کاموں میں اس قدر مصروف تھی کہ معیشت کی جانب توجہ دینے
کی اسے فرصت ہی نہیں تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ایک چوتھائی جی ڈی پی سکڑ
گئی لیکن یہ تو بس ابتداء ہے بقول میر تقی میر؎
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|