دنیا فانی میں دوست،دوستیاں وقتی اورمفادات کے کی خاطر کی
جاتی ہیں۔شاذوناز ہی کو ئی ایسا دوست ہو جو مشکل میں ساتھ دے۔ورنہ مشکل وقت
میں رفوچکر ہوجاتے ہیں۔زیادہ تر ابن الوقت ثابت ہوتے پیں۔
چلیں آج میں آپ کو ایک ایسے دوست کی خبر دیتاہوں۔بے وفا وہ ہے نہیں،مشکل
حالات میں ساتھ ہوگا بلکہ راہنمائی کے لیے بروقت تیار ہوتا ہے۔سفر و حضر ،تنہائئ،گھبراہٹ،پریشانی،جیل
کی صعوبتوں میں آپ کو حوصلہ دے گا۔جی ہاں آپ صحیح سمجھے،میں انسان کی
بہترین دوست "کتاب"کی بات کررہا ہوں۔
کتاب کے مطالعہ سے انسان علم کے سمندر میں غوطے لگاتا ہے،علمی جواہرات ،شاہپارے
نصیب ہوتے ہیں۔ایک کتاب علم کے سمندر کا ایک قطرہ ہوتا ہے ۔انسان جتنی
کتابیں مطالعہ کرے گا اتنا ہی اس کے اندر علمی دریا محفوظ ہوتے جاییں
گے۔پھر یہی دریا چشموں ، آبشاروں کے شکل میں لوگوں کی علمی پیاس بجھاتے ہیں۔
جس انسان کو کتاب اور سے عشق ہوتا ہے ۔دنیا کے تمام نشے اس نشے سے ہیچ
ہیں۔ایک طلب لگی رہتی ہے جب تک مطالعہ نہ کیاجائے۔نیند نہیں آتی جب تک ورق
گردانی نہ کرلی جائے۔یہ عادت سودمند ہے ۔
کتاب کا مطالعہ جب گہرائی میں ڈوب کر،دنیا ومافیا سے بے نیاز ہوکر کیا جاتا
ہے۔تو انسان اس دور میں چلا جاتا ہے۔اس دور کا باسی بن جاتا ہے۔صدیاں گزرنے
کے باوجود وہ وہاں کی سیر کر آتا ہے۔یہ صرف کتاب کی وجہ سے ہی ممکن ہوپاتا
ہے۔کتاب کے ذریعے سے ہی ہم سینکڑوں سال پہلے کی اقوام کے حالات کو سمجھ
پاتے ہیں۔ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے ہم ان کے عہد کے افراد ہوں۔
جدید دور میں حصول کتاب تو ایک کلک پر ہے ۔دنیا جہاں کی کتابوں کو ہم
ڈیجیٹل لائبریری میں رکھ سکتے ہیں۔اب تو ہمارے آباؤ اجداد کے مخطوطات تک
رسائی ہمیں حاصل ہوچکی ہے۔اگر کوئی درد دل رکھنے والا انسان اپنے آباؤاجداد
کے لکھے شاہکاروں کو ترجمہ کر کے امت کو مستفید کرنا چاہتا ہے اسے بھی
تحقیق کے پرخار راستوں پر چل کر ان نیک کام میں حصہ ڈالنا چاہیے۔اب بھی
یورپ کی لائیبریریوں میں ہمارے آباؤ اجداد کے لکھے شاہکار رکھے ہوئے دعوت
مطالعہ دے رہے ہیں،ہے کوئی جو ان کی دعوت پر لبیک کہے؟ |