یہ ۲۵ دسمبر ۲۰۱۸ء کی چمکیلی دھوپ والی ایک
خوبصوت صبح تھی ،جب میانوالی کی محبت اورعشق سے سرشارکچھ نوجوانوں نے ایک
اہم فیصلہ کیا۔
پھول ،کلیاں ،خوشبو،رنگ ، تتلیاں ،جگنو کس کو اچھے نہیں لگتے؟ خوبصورت اور
دلکشن منظر کس کی آنکھ کو بھلے نہیں لگتے؟ پودے، درخت،سبزہ کون پسند نہیں
کرتا ؟ ہر فرد ،ہر جوان ، ہر بچہ اورہر بوڑھا خواہ وہ مرد ہو عورت حسن و
دلکشی اورجمال ہرکسی کے من کوبھاتا ہے ۔ ہردل کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ
خوبصورت علاقوں کی سیر کو جائے ، تفریح کرے ، کچھ لمحات زندگی کے بکھیڑوں
اورجھنجٹوں سے نکل کر آرام وسکون اور راحت و تسکین سے گزارے اورزندگی کی
کلفتوں کو کچھ دیر کے لئے بھول جائے ۔
پاکستان کا ہرشہر اورہر گاؤں بہت خوبصورت اورحسن ودلکشی اورانفرادیت لئے
ہوئے ہے ،اورہر کسی کو اس کا شہر اورگاؤں نہایت پیارا ہوتا ہے اوراس کے لئے
وہ کچھ نہ کچھ کرنے کی خواہش اورجذبہ بھی رکھتا ہے ۔ اس کی یہ تمنا ہوتی ہے
کہ اس کا شہر اس کا گاؤں دوسروں سے خوبصورت اورصاف ستھرا بھی ہواورترقی
یافتہ بھی ہو، مگر ان مقاصد کے لئے عملاََ میدان میں کوئی کوئی ہی نکل کر
قدم اٹھاتا ہے ۔
ضلع میانوالی بھی اپنے اندر ایک حسن ودلکشی اورخوبصورتی لئے ہوئے ہے ، تبی
سر کے سنگلاخ پہاڑوں سے کچہ گجرات کے میدانوں تک، چکڑالہ نمل کے کہساروں سے
ٹبہ مہربان کے کھیتوں کھلیانوں اورہرنولی کے ریگستانوں تک حسن ہی حسن جلوہ
گر ہے ،مگر افسوس صدافسو س کہ ان حسین مناظر کو نکھارنے سنوارنے کے
اختیارات واقتداررکھنے والے اسمبلیوں میں اپنے مفادات کے تحفظ کے سوا عوام
کے لئے کچھ نہ کرسکے ۔
درخت انسان کی پہلی ضرورت ہیں کیونکہ جہاں یہ آکسیجن کی فراہمی کے ذریعے
زندگی بخش ہیں وہیں زندگی کی اکثر ضروریات بھی درختوں کے رہین منت ہیں ۔اسی
لئے درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قراردیا گیا ہے کہ انسان تو ایک بہت محدود
عرصہ حیات گزارکر اپنی آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے مگر اس کا لگایا گیا
ایک ہی درخت اس کے لئے لاکھوں نیکیوں کا باعث بن جاتا ہے جس سے ہزاروں کی
تعداد میں اﷲ کی مخلوق مستفید ہوتی ہے، دوسری طرف درخت لگانا سنت مطہرہ بھی
ہے ۔
دنیا میں کسی بھی ملک کے کل رقبے کے ۲۵ فیصد رقبے پر درخت لگے ہونا ضروری
ہیں یہ ایک عالمی معیار ہے ،مگر پاکستان اس عالمی معیار سے بہت بہت پیچھے
کہیں آخری قطاروں میں ہے ، پاکستان میں درختوں پر مشتمل کل رقبہ تقریباََ
محض ۵ فیصد ہے ۔اس لئے ضروری ہے اپنی مادروطن میں لاکھوں درخت لگائے جائیں
۔
انہی امور کو دیکھتے ہوئے ہم نے اس شوق کو جو ہم نے گھر تک رکھا ہواتھا ،باہر
نکال کر ضلع میانوالی کا قرض اداکرنے کا فیصلہ کیا، یہ ۲۵ دسمبر ۲۰۱۸ء کی
چمکیلی دھوپ والی ایک خوبصوت صبح تھی ،جب میانوالی کی محبت اورعشق سے
سرشارکچھ نوجوانوں نے ایک اہم فیصلہ کیا۔مذکورہ دن کو صبح ۱۰ بجے راقم کی
رہائش گاہ پر حافظ عمر فاروق ، حماد حسن خان ،ملک زاہد،جہانزیب فاروق،اسامہ
طارق خان اورطلحہ طارق خان جمع ہوئے ،راقم نے ا ن کے سامنے مختصر سی گفتگو
رکھی جس میں درختوں کی ضرورت واہمیت اورافادیت پر روشنی ڈالی گئی تھی ۔یہ
بھی عرض کی گئی کہ میانوالی جو ہماری دھرتی ماں ہے اوردرخت زمین کا زیورہیں
اورمیں چاہتاہوں کہ اپنی دھرتی ماں کو ان زیورات سے سجانے سنوارنے کے لئے
اپنے حصہ کا فرض اداکیا جائے ۔آپ کیا اس مشن گرین میانوالی میں میرا ساتھ
دیں گے ؟ توالحمد ﷲ چند لمحوں بعد سبھی تیار تھے ۔جس کے بعد ہم نے ایک
تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام ٹیم فارگرین میانوالی رکھا گیا،ٹیم کے پہلے
صدرحافظ عمرفاروق ،نائب صدرملک زاہد،حمادحسن ،جنرل سیکرٹری جہازیب فاروق ،فنانس
سیکرٹری اسامہ طارق اورمیڈیا کوارڈینیٹر طلحہ طارق خان مقرر ہوئے ۔ جب یکم
جنوری ۲۰۱۹ء کو پہلی سرگرمی کی گئی تو کچھ مزید ممبرزشامل ہوگئے اوریوں
مشن گرین میانوالی کا آغاز ہوگیا۔ (تاہم کچھ مہینوں کے بعد جنرل سیکرٹری
اورنائب صدر یکے بعد دیگرے اپنی مصروفیات کی وجہ سے فارغ ہوگئے اور جواد
سرفراز خان کو جنرل سیکرٹری اورناصر خان کو نائب صدر مقررکیا گیا ۔بعدازاں
میڈیا کوارڈی نیٹر طلحہ طارق ، نیوی میں ملازم ہوگئے ، جس کے بعد عادل حیات
خان کو مقررکیا گیا ، اور پھر کچھ مزید دوستوں نے ٹیم کے مشن میں شمولیت کی
خواہش کی ،جن کو بعد میں عہدیداربھی مقررکردیا گیا جن میں عارف ندیم ڈپٹی
جنرل سیکرٹری ،شالوم طارق معاون خصوصی برائے چیئرمین ،اکرام اﷲ ارائیں
اسسٹنٹ میڈیا کوارڈی نیٹر اوررضوان مہدی اسسٹنٹ سیکرٹری فنانس شامل ہیں)
یہ محض اﷲ رب العزت کی کرم نوازی ہے کہ وہ دن اورآج کا دن ٹیم فارگرین
میانوالی کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں جس پر پوری ٹیم جو اب ۳۸عہدیداران اور۲۰
باقاعدہ ممبرزاورسات مختلف یونٹس(میانوالی سٹی ،واں بھچراں ،ہرنولی ،پپلاں
،کلورشریف ،عیسیٰ خیل اورکندیاں)پر مشتمل ہے، مبارکباد کی مستحق ہے کہ جس
نے پہلے دن سے آج تک کوئی ماہ سرگرمی بغیر نہیں جانے دیا ۔۲۲ مارچ ۲۰۱۹ء
کو پانی کے عالمی دن کے موقع پر میانوالی شہر میں ریلوے اسٹیشن تا انڈرپاس
ایک آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا ، اس وقت کے ڈپٹی کمشنرمحمد شعیب جدون
صاحب نے کمال شفقت سے بطورمہمان خصوصی شرکت کی ۔الخدمت فاؤنڈیشن ،
ریسکیو۱۱۲۲،تاجران ،طلبہ اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے مختلف افراد نے بھرپور
شرکت کی ۔ ریلوے اسٹیشن پر گرین میانوالی کیمپ بھی لگایا گیا ،واک کے
اختتام پر انڈرپاس پر ڈپٹی کمشنر جناب محمد شعیب جدون کے دست مبارک سے پودے
عوام الناس میں تقسیم کرنے کا افتتاح کیا گیا۔بعدازاں ریلوے اسٹیشن پر بھی
پودے تقسیم کئے گئے ۔۲۲ اپریل کو عالمی یوم الارض بھی منایا گیا ، جنوبی
پھاٹک سے رابی سنٹر پھاٹک تک پودے لگائے گئے ۔اسی طرح یوم استقلال پاکستان
(۱۴اگست ) کو گرین میانوالی کیمپ لگایا گیا ،دسمبر میں ٹیم کا یوم تاسیس
منایا گیا ،یوں ہرماہ کوئی نہ کوئی سرگرمی ہوتی رہی ۔پودے اوردرخت لگتے رہے
،دفترالخدمت فاؤنڈیشن کے لئے سبزہ زار تیا رکیا گیا جس کانام بعد میں
گلزارنعمت اﷲ خان رکھا گیا ،جامع مسجد ابوبکر تلہ گنگ روڈ میں بھی ایک سبزہ
زار تعمیر کیا گیا۔دریں اثنا ء مسجد منظرالاسلام محلہ یتیم خانہ میں بھی
کام کیا گیا ۔اس سارے عرصے میں میانوالی شہر اورکچھ دیگر علاقوں کے مختلف
سرکاری اورپرائیویٹ کالجز،سکولز،مدارس ومساجد میں بھی سرگرمیوں کے ذریعے نہ
صرف پانی بچانے اورپودالگانے بارے آگاہی دی گئی بلکہ سینکڑوں پودے بھی
لگائے گئے ۔حالیہ گزشتہ ماہ اگست میں جامعہ علیؓبن ابی طالب میں
سرسبزپاکستان سیمینار کا انعقاد کیا گیا اوروہیں پر اہل محلہ اورجامعہ کے
اساتذہ و طلبہ کے ہاتھوں سے شجرکاری کی گئی ۔
ٹیم فارگرین میانوالی کا ہرممبر اپنی جگہ انگوٹھی میں جڑے نگینے کی طرح ہے
،جو پوری دلجمعی اوریکسوئی سے میانوالی کی خوبصورتی اورحسن ودلکشی میں
اضافے اورپاکستان میں درختوں کی کمی پوری کرنے اورپانی جیسی عظیم نعمت کو
ضائع ہونے سے بچانے کے مشن گرین میانوالی پر عمل پیرا ہے ۔ابھی اس ٹیم نے
ایک اورمہم بھی شروع کردی ہے ، میانوالی کی ارضی علامت مقرر کرانے کی مہم ،
چونکہ دیگر شہروں کی ارضی علامات ( Land Marks) مقرر ہیں مگر میانوالی کے
لئے جہازچوک کی تصویربطور علامت استعمال کی جاتی ہے ، ٹیم سمجھتی ہے کہ
جہازچوک کوئی علامت نہیں ہے جہازچوک تو درجنوں شہر وں میں موجودہیں ۔لینڈ
مارک تو کوئی منفرد اورتاریخی مقام ہونا چاہئے تو خوش قسمتی سے میانوالی
میں واں بھچراں کے مقام پر شہنشاہ تعمیرات مشہوربادشاہ فرید خان المعروف
شیر شاہ سوری کی تعمیرکردہ مشہور باؤلی موجود ہے جو ابھی بھی تھوڑی سی مرمت
سے اصل حالت میں بحال ہوسکتی ہے ۔اس لئے ٹیم نے اس تاریخی باؤلی کو
میانوالی کی ارضی علامت مقرر کرانے کی مہم شروع کی ہے ، اس سلسلے میں سوشل
میڈیا پر آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کمشنر کو مراسلہ تحریر کرکے بھی
تجویز دی گئی ہے بعدازاں میانوالی کی چاربڑی دینی سیاسی جماعتوں کو بھی خط
تحریرکردیا گیا ہے ۔ اورصحافی حضرات کو بھی گزارش کی گئی ہے ۔
ان ساری کاوشوں اورجدوجہد کی بناء پر راقم سمجھتا ہے کہ جس منظم اورمربوط
اندازمیں ٹیم فارگرین میانوالی ،سرسبزوشاداب میانوالی کے حسین سپنے کو دلکش
تعبیر دینے کی کاوش کررہی ہے وہ بلا شک وشبہ اس قابل ہے کہ اس کی تحسین
وستائش کی جائے اوراگر اسے ہیروں کی مالا قراردیا جائے تب بھی بالکل درست
ہوگا کہ جہاں لوگ اپنی دنیا بنانے میں مگن ہیں وہاں اس گئے گزرے دورمیں
بلاکسی معاوضے اورلالچ کے بے لوث خدمات انجام دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے
۔جیسے ہیروں کی مالا ایک مرتب ومربوط اورمنظم ہوتی ہے اسی طرح ٹیم فارگرین
میانوالی کے ممبرزوعہدیداران بھی مختلف مسالک ومذاہب اورمختلف جماعتوں سے
وابستگی رکھنے کے باوجود مشن گرین میانوالی کے لئے متحد،متفق اورمربوط
ومنظم ہیں اورآپس میں باہمی پیارومحبت کا سلوک کرتے ہوئے اپنے مشن کی تکمیل
کے لئے بھرپورجدوجہد پریقین رکھتے ہیں، ہیروں کی خوبصورت مالا ٹیم فارگرین
میانوالی کو سلامِ تحسین وعقیدت ۔اﷲ رب العزت ٹیم کی کاوشوں کو قبول کرے
اوراس کے مشن کو تکمیل سے ہمکنارکرے۔
# # #
|