اللہ تبارک و تعالی نے ہمیں اس دنیا میں زرخیز خطہ زمین
عطا کیا یہ اسکی کرم نوازی ہے۔اسی لیے ہمارا ملک زرعی ملک کہلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لیے زمین کو پیدا کیا مگر حق ملکیت اپنے
پاس رکھا اور انسانوں کو ان زمینوں سے فائدہ اٹھانے کا اختیار دیا کہ اس سے
فائدہ اٹھاو اور میرا شکر بجا لاو مگر پڑھے لکھے انسانوں نے اس زمین کو
اپنی اپنی ملکیت بنا لیا اور سرحدیں قائم کر لیں۔ایسے ہی ہر کسان اپنی زمین
کو سمجھتا ہے کہ وہ اسکا بلاشرکت غیر مالک کل مختا ر ہے مگر جب فرشتہ اجل
آتا ہے تو اس کی ملکیت باقی وارثوں میں بانٹ دی جاتی ہے اور تب یہ بات سمجھ
میں آتی ہے کہ یہ دنیا ، یہ زمین تو کبھی میری تھی ہی نہیں بلکہ میرے تو
صرف اعمال تھے کہ اس زمین سے اگنے والی فصل کو میں نے کہاں کہاں خرچ کیا۔
کسان کھیتوں کی آبیاری کرتا ہےاس میں فصل اگاتا ہے اور پھر اس فصل سے اپنا
بھی پیٹ پالتا ہے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا ہے۔ جب اسکی آمدنی
زیادہ ہو تو جانور بھی رکھ لیتا ہے اور ان سے دودھ اور باربرداری کا کام
لیتا ہے۔ان جانوروں کے لیے اپنے کھیتوں میں گھاس اگاتا ہے تاکہ ان کا پیٹ
بھی بھر سکے۔مگر ان جانوروں سے فائدہ لینے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ
ان کو باندھ کے رکھا جائے کیونکہ اگر ان کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ اپنے
کھیت بھی برباد کر دیتے ہیں اور دوسروں کے کھیت میں بھی گھس جاتے ہیں اور
نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اور اگر کہیں آپس میں لڑ پڑیں تو بھی نقصان گھاس
کا ہی ہوتا ہے ۔ اسی لیے کہتے ہیں ناں کہ "بھینسوں کی لڑائی میں گھاس کا
نقصان"۔گھاس قدرتی طورپر اگتی ہے اس کےلیے محنت کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اس
کےلیے زمین کا زرخیز ہونا ہی بہت ہے۔
اور یہاں کی زمین {پاکستان}بھی زرخیز ہے۔اس لیے آزادی کے بعد ہی اس پر
کسانوں کا قبضہ ہوا اور ان کسانوں نے اپنی اپنی مرضی کی گائے اور بھینسیں
پال لیں پھر ان کو باندھ کر رکھنے کی بجائے کھلا چھوڑ دیا گیا اور تب سے ان
میں لڑائی ہو رہی ہے اور گھاس مسلسل نقصان اٹھا رہی ہے۔گھاس میں چھوٹی[غربا]
اور لمبی [امرا] ہوتی ہے۔ مگر نقصان چھوٹی گھاس کا زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ
پاوں میں آتی ہے اور لمبی گھاس منہ میں۔ پھر ان جانوروں کی جگہ درندوں نے
لے لی اور شیر اور چیتے بھی گھاس کھانے لگے۔
ان جانوروں نے خوب سیر ہو کر گھاس کھائی اور ذخیرہ بھی کی پھر درندوں کی
باری آئی تو انہوں نے بھی اپنی اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرا اوراب رہی سہی
کسر بارشوں نے پوری کر دی ا ور گھاس اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے اپنی آخری
سانسیں لے رہی ہے۔ اس میں اتنا دم خم ہی نہیں کہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا
سکے یا پتہ نہیں کسی مسیحا کی منتظر ہے کہ آئے گا اور ہمارے سارے مسئلے حل
کرے گا۔ لیکن خیر یہ بھی اچھی بات ہے کیونکہ ویسے بھی یہ گھاس بدبودار ہو
چکی ہے اس میں کھاد{ کرپشن} کی بو پھیل چکی ہے اس لیے اسے ختم ہی ہونے دو
پھر نئی گھاس اگائی جائے گی جو کہ لہلہا تی، بل کھاتی، خوشبو دار ہو گی اور
پھر سے نئے جانوروں کو اس میں لڑنے اور اسے روندنے کا موقع ملے گا۔ مواقع
پیدا کیے جاتے ہیں خود بخود تھوڑی پیدا ہوتے ہیں۔اگر ہم اپنی تاریخ کا
مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہے کہ جب بھی ہم نے ترقی کا سفر شروع کیا یا تو
ہمیں راستہ بھٹکایا گیا یا ا س راستے کو ہی غلط قرار دے کر پھر سے نئے
راستے پہ ڈالا گیا۔ اس لیے ہم نے ابھی مزید تین سال اس نئے راستے {تبدیلی}
پر چلنا ہے پھر فیصلہ ہوگا کہ ہم ٹھیک راستے پر ہیں کہ غلط۔
|