ہورٹیکلچر سے مراد پھولوں اور پودوں کی
باغبانی ہے۔ پھول خوبصورتی کے لئے لگائے جاتے ہیں اور ان سے ماحول کی
خوبصورتی اور تازگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں پھولوں، درختوں اور
بیلوں کے ذریعے ایسے شاندار شاہکار بنائے گئے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے
ہیں۔ امریکہ اور افریقہ کے مختلف شہروں میں پھولوں اور درختوں کے ذریعے
بادشاہوں، شاعروں اور تاریخی شخصیات کے مجسمے بنائے گئے ہیں جو انتہائی
دلکش اور دیدہ زیب ہیں، یقیناً ان فن پاروں کو بنانے کے لئے بہت محنت کی
گئی ہے۔
باغبانی ایک قدم اور اچھا مشغلہ ہے اور لوگ اسے سالوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔
پھول، پودے اور درخت انسان کے لئے خاص اہمیت رکھتے ہیں، طبعیت کی خوشگواری
میں پودوں اور پھولوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ لوگ باغات کی خوبصورتی کے لئے
پھول اور پودے جبکہ پھل کے لئے درخت لگایا کرتے ہیں۔ لوگ عموماً اپنے گھر
کے باغ اور سبزے میں پھولوں اور درختوں کو لگاتے ہیں۔
پھول وہ اہم چیز ہے جو تمام گلے شکوں کو دور کر دیتا ہے اور پیار کو بھر
دیتا ہے۔ پھول خوبصورتی تو پیدا کرتے ہی ہیں لیکن ان سے منافع بخش کاروبار
بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنہ2005 میں چینی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے زراعت پر
آٹھ سال کی ریسرچ کے بعد ایک اورچڈ پھول بنایا جس کی شکل اور پتیاں باقی
تمام پھولوں سے مختلف ہیں۔ یہ پھول نہایت منفرد نوع کا حامل تھا یہی وجہ ہے
کہ اس کی فروخت ایک عشاریہ چھ آٹھ ملین یین یعنی دو لاکھ یو ایس ڈالر میں
کی گئی۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ باغبانی یا ہورٹیکلچر کے ذریعے کتنا
منافع بخش کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور پھول جس کا نام کاڈوپل پھول ہے،
یہ بھی مہنگے ترین پھولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس پھول کی سب سے اہم
خصوصیت یہ ہے کہ پھول آدھی رات کو کھلتا ہے اور پھر مرجھا جاتا ہے۔ اس پھول
کو سری لنکا کے کچھ مقامات پر دیکھا گیا ہے۔ ٹیولپ بلب کو سترھویں صدی میں
سب سے مہنگا پھول تصور کیا جاتا تھا۔
چند مزید مہنگے پھولوں میں سیفرون، کیننا، چیری بلوسم، کولریڈو کمبائن،
ہائیڈرینجیا، لیلی آف دی ویلی، کلا لیلی، بلیک آئڈ سوسان، بلیڈنگ ہرٹ، بلیو
بیلز، لینتانا، گلاب، اوینٹل پوپی، موسائنڈا اری تھو پائیلا، بیگونیا،
لزورا اور ڈینڈ روبیم شامل ہیں۔
دنیا بھر میں پھولوں کی نشوونما کے ذریعے فائدے مند کاروبار کیا جا رہا ہے۔
اس کاروبار میں صرف ایک ہی مسئلہ ہے جو کہ پھول کی نشوونما، خوراک، دھوپ
اور جگہ کا مناسب انتظام ہے۔
جاپان پھولوں کی پیدا وار اور نشوونما کے لئے خاص مقام رکھتا ہے۔ چینی
سائنسدان ہورٹیکلچر انڈسٹری پر اپنی تمام توجہ لگائے ہوئے ہیں۔ چینی
سائنسدان تحقیق کے ذریعے پھولوں کی نئی اقسام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس
سے ان کو منافع ہوتا ہے۔ صرف ایک یا دو پھولوں کی قیمت لاکھوں ڈالر میں
وصول کی جاتی ہے۔پاکستان میں بھی لوگ باغبانی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔پاکستان
کے صوبہ سندھ، شمالی علاقہ جات او دیگرعلاقوں میں پھلوں اور پھولوں کے
باغات بڑی تعداد میں ہیں۔
پاکستان میں پھولوں کی باغبانی کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ گلاب، چمیلی،
ٹیولپس اور دیگر پھولوں کی پنکھڑیوں کو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لئے
تیار کیا جاتا ہے۔پاکستان سے پھولوں کو مشرق وسطی بھیجا جاتا ہے۔ اس کے
علاوہ ویلنٹائن کے موقع پر پاکستان سے یورپی ممالک کو گلاب کے پھولوں کی
فروخت کی جاتی ہے۔ شمال مغربی سرحدی علاقے کی وادیوں اور بلوچستان کے پہاڑی
علاقے میں پھولوں کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔
گلاب کا پھول جو کہ پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے مہنگے پھولوں میں شمار
کیا جاتا ہے۔ اس پھول کی تجربات کے ذریعے نئی اقسام بنائی گئی ہیں جن میں
سفید، پیلا ، خوشبودار اور غیر خوشبودار کے پھول شامل ہیں۔ایک اندازے کے
مطابق گلاب کے پھول سے نکلنے والا تازہ عرق لاکھوں روپے میں فروخت کیا جاتا
ہے۔ تازہ گلاب کا بنایا ہوا مرکب متعدد بیماریاں دور کرنے کے لئے دوا کے
طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ گلاب کو سونگھنے سے ہی دل کی دھڑکن میں نظم
اور دماغ کو بیداری اور قرار حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاب کا پھول عطر
یا پرفیوم بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
چمیلی کے پھول کی خوشبو پھولوں کی دنیا میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے، جس
جگہ چمیلی کا پھول لگا ہو وہ علاقہ اس کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ یہ پھول
رات کے وقت اپنی تازگی کا جادو جگاتا ہے۔ چمیلی کی چائے بنائی جاتی ہے، اس
چائے کو چائنہ نے تیار کیا تھا اور اب دنیا کے متعدد ممالک میں اس کی چائے
بنائی جاتی ہے۔ لوگ چمیلی کی چائے پی کر سکون محسوس کرتے ہیں۔ چمیلی سے
بنایا جانے والا تیل عام لوگ استعمال کرتے ہیں، تیل تھوڑا مہنگا ہوتا ہے جس
کی وجہ چمیلی کے زیادہ پھولوں کی تھوڑا سا تیل نکلنا ہے۔ انڈیا، موروکو،
ایجپٹ اور چائنہ چمیلی کا تیل بناتے ہیں۔
پاکستان میں باغبانی کی ترقی کے لئے ہورٹیکلچر سو سائٹی پاکستان (ایچ ایس
پی) کام کر رہی ہے۔ اس سوسائٹی کا قیام 1948ءمیں ہوا اور سوسائٹی نے
1949ءمیں طبی پو دوں کی پہلی نمائش کراچی میں کی۔ ایچ ایس پی باغبانی سے
متعلق پیغامات کو پھیلانے کے لئے متعدد پھولوں کی نمائشوں اور تربیتی
پروگرامز کا انعقاد نہایت کامیابی سے کر چکی ہے۔ یہ سو سائٹی ماحول کو
خوبصورت بنانے اور پھولوں کی تازگی بکھیرنے کے لئے ایک اہم کردار ادا کر
رہی ہے۔
پاکستان میں باغبانی کے فروغ کے لئے وزارت کامرس کی طرف سے پاکستان
ہورٹیکلچر ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی (پی ایچ ڈی ای سی) بنائی گئی ہے۔
پاکستانی ہورٹیکلچر مصنوعات کو بیرون ملک متعارف کرانے کی ذمہ داری اسی
کمپنی کو دی گئی ہے۔ اس کے فرائض میں انفراسٹرکچر مثلاً ایگرو پروسیسنگ
زون، کولڈ چین سسٹم اور پروسیسنگ پلانٹ وغیرہ کو سنبھالنا شامل ہے۔
پاکستان ہورٹیکلچر انڈسٹری کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے وسیع مواقع
موجود ہیں، پاکستان کی سرزمین خوبصورت پھولوں اور نباتات سے مالا مال ہے جو
دنیا بھر کے قدرتی حسن سے محبت رکھنے والوں اور ہورٹیکلچر انڈسٹری سے
وابستہ کاروباری افراد کے لیے باعث کشش ہے۔ پاکستانی پھولوں اور پودوں کی
دنیا بھر میں بڑی مانگ ہے لیکن اسے منظم انداز سے دنیا بھر میں متعارف
کروانے کی ضرورت ہے تاکہ ہورٹیکلچر کی برآمدات میں اضافہ کیا جاسکے۔
باغبانی کا فن پیشہ ورانہ اور معاشرے میں عام لوگوں کے شوق کی وجہ سے فروغ
پارہا ہے ۔
پاکستان کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی کھیتی باڑی جیسے پیشے سے منسلک ہے۔ پھول
قدرت کا حسین تحفہ ہیں ، پھول موسم کو خوشگوار رکھنے کے ساتھ ساتھ منافع
کمانے کا ذریعہ بھی ہیں۔ اگر پاکستان میں پھولوں کی پیداوار کو فروغ دیا
جائے تو ہم پھولوں کی بہتر پیداوار دے سکتے ہیں۔ پھولوں کی زیادہ پیداوار
سے اچھا کا خاصا منافع کمایا جا سکتا ہے۔ |