اٹکھیلیاں

کتاب کا نام اٹکھیلیاں
مصنف ڈاکٹر پروفیسر ذوالفقار علی
اشاعت کنندہ مثال پبلشرز۔ رحیم سنٹر،پریس مارکیٹ ،امین بازار فیصل آباد
رابطہ موبائل ۔ 0300-6668284 ۔ 041-2615359
صفحات 128
قیمت صر ف 300 روپے
تبصرہ نگار محمداسلم لودھی (شاہ زیب)
کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر ذوالفقارعلی میرے لیے ایک اجنبی انسان تھے ، ان کی چھپڑپھاڑ قسم کی مزاحیہ تحریریں فیس بک پر پڑھنے کو ملتیں تو دل نے چاہا کہ ان کی کتاب "اٹکھیلیاں"(جس کا آج کل بہت چرچا تھا ) اسے پڑھا جائے ۔ ایک دن میں نے ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب سے کتاب بھجوانے کی درخواست کی ،تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت کتاب ختم ہوچکی ہے نیا ایڈیشن زیر طبع ہے ، جیسے ہی شائع ہوا، پہلی فرصت میں آپ کو بھجوا دوں گا ۔یکم ستمبر کو مجھے ان بکس میں ان کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا ۔کہ نیا ایڈیشن شائع ہوگیا ہے میں سب سے پہلی کتاب حسب وعدہ آپکو بھجوا رہا ہوں ۔اسی شام مجھے لیپرڈ کوریئر کی جانب سے ایس ایم ایس آیا کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب نے آپ کے نام کتاب بھجوائی ہے ،جلد وہ آپ تک پہنچ جائے گی ، اگلی صبح دس بجے میری بیگم کتاب ہاتھ میں لیے کمپیوٹر میں داخل ہوئی جسے میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی جلد ی بھی کبھی کتاب مل سکتی ہے ۔یہ سب کارنامہ ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب کا ہے، وگرنہ محکمہ ڈاک کے ذریعے بھجوائی ہوئی کتاب مہینے بعد بھی منزل مقصود پرپہنچ جائے تو غنیمت سمجھتے ہیں۔

بہرکیف کتاب پر گفتگوکرنے سے پہلے مصنف کتاب ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب کا مختصر تعارف کرواتا چلوں ۔ڈاکٹر صاحب گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،اصغرمال راولپنڈی میں شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ان کا آبائی تعلق فیصل آباد سے ہے، جہاں اب بھی ان کے والدین قیام پذیرہیں ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب نے ایم اے اور ایم فل اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی سے کیا جبکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی ۔جن صاحب علم و دانش نے آپ کو بے حد متاثر کیا ان میں پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اورڈاکٹر محمد فخرالحق نوری شامل ہیں۔ان اہل دانش شخصیات کے علاوہ آپ ڈاکٹر وحید قریشی ،ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر اور ڈاکٹر محمد کامران سے بھی متاثر نظرآتے ہیں ۔جبکہ ان کے والدمحمد اسلم پروانہ جن کا شمار شعبہ اردو کے ممتاز اساتذہ کرام میں ہوتا ہے ، تمام تر کامیابیوں کا سہرا آپکے والد کے سر بندھتاہے۔جنہوں نے ہرقدم پر آپ کی رہنمائی فرمائی ۔ یہ خبر بھی یقینا قارئین کے لیے سود مند ہوگی کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب اٹکھیلیاں کے علاوہ بھی تین کتابوں چھیڑچھاڑ ، چٹکیاں اور اردو سفرنامے میں جنس نگاری کا رجحان کے مصنف ہیں ۔آپ کی ایک کتاب اردو سفرنامے میں یورپ کی معاشرت ( تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) زیرطبع ہے ۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ طنز و مزاح کے حوالے کئی نامور ادبی شخصیات کی تخلیقات سرسری طورپر پڑھنے کا موقعہ میسر آیا جن میں مشتاق یوسفی ، اشفاق ورک ، ڈاکٹر یونس بٹ ، نوخیز اختر اورپروفیسر عطاالحق قاسمی شامل ہیں ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب کی کتاب کا مطالعہ میرے لیے پہلا موقعہ ہے ۔کتاب کے اندر دلچسپ مضامین کو ہم بعد میں ڈسکس کرتے ہیں ،پہلے پروفیسر عطاالحق قاسمی کی اس کتاب پر رائے کو دیکھتے ہیں ۔ عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں کہ" فی زمانہ جب کہ ہنسنا ایک خواب بنتا جارہا ہے ۔حالات کی ستم ظریفی کے شکار لوگوں کو ہنسانا پتھر میں جونک لگانے کے مترادف ہے ۔ہنسنے ہنسانے کے اس دور خشک سالی میں اگرکوئی قہقہوں اور مسکراہٹوں کی فصلیں بونے کی جستجو کررہاہے تو وہ دراصل ایک مشکل فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی نے یہ کام بہت خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ کسی بھی شعبے کے صف اول کے لوگوں میں جگہ بنانے کے لیے وقت لگتا ہے ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی نے جس شعبے میں قدم رکھا ہے وہاں ان دنوں مقابلے کی کیفیت نہیں ہے جو دوسری اصناف ادب میں ہے ۔ چنانچہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس نوجوان لکھاری نے اگرپوری سنجیدگی سے مزاح لکھا تو اس کی منزل دنوں میں قریب آجائے گی ،مجھے اس کی تحریر میں اس کی منزل کا عکس دکھائی دے رہا ہے "۔

ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "ڈاکٹر ذوالفقار علی وسیع المطالعہ طالب علم ہیں ۔تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں ۔طلب علم میں منہمک رہتے ہیں لیکن محض مطالعے تک محدود نہیں رہتے ،معاشرے کی ناہمواریوں کا شعوررکھنے کی وجہ سے گاہے گاہے طنز مزاح کا سہارا لیتے ہیں ۔یوں تو بہت سے نوجوان اس شعبے سے وابستہ ہیں مگر اکثرابتذال سے نہیں بچ سکے ۔کتاب" اٹکھیلیاں" ڈاکٹر ذوالفقار علی کے درخشاں ادبی مستقبل کی طرف اشارہ کررہی ہے"۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کی اسی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے سرفراز شاہد لکھتے ہیں" مزاح کی جتنی ضرورت آج ہے ،شاید پہلے کبھی نہ تھی ،ہم جن بحرانوں سے گزر رہے ہیں ان میں زندہ رہنے کے لیے مزاح کی آکسیجن کی اشد ضرورت ہے ۔چنانچہ گھٹن اور تعفن کی اس فضا میں اگر کوئی لکھاری حقائق پر نظر رکھتے ہوئے اپنے ظریفانہ اسلوب سے مسکرانے ،ہنسانے اور قہقہہ لگانے کی تحریک دیتا ہے تو وہ بجاطورپر "ہیومرتھراپسٹ" کہلانے کا حقدارہے ۔اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ڈاکٹر ذوالفقار علی نے "اٹکھیلیاں" میں اپنے مشاہدات و تجربات کی بنا پر زندگی کے مختلف پہلوؤں کو طنزومزاح کا نشانہ بناکر لطافت و ظرافت کا ایک بیش بہاذخیرہ فراہم کردیا ہے ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کے مزاج میں فطری مزاح پایا جاتا ہے اگروہ باقاعدگی سے اس صنف کی ریاضت کرتے رہے تو بہت جلد اہم مزاح نگاروں کی صف میں نمایاں مقام پر نظر آئیں گے" ۔اب ہم ڈاکٹر وحید قریشی کے کتاب کے حوالے چند مختصر تاثرات بیان کرتے ہیں ۔"ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب کی کتاب میں شامل مضامین طنزومزاح کی عجیب وغریب دنیا آباد کرتے ہیں ۔کہیں واقعات سے مزاح پیدا کیاگیا ہے تو کہیں جملوں کے ذریعے اور کہیں تشبیہ و استعارہ کی مدد سے ۔ان مضامین کی خاص خوبی یہ ہے کہ یہ سماجی زندگی کے عمومی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہیں" ۔ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری لکھتے ہیں کہ" دی نیوکیکسٹن انسائیکلوپیڈیا برٹیانیکا میں لکھا ہے کہ مزاح ایک قسم کا عمل ہے جو ردعمل کے طورپر ہنسی ابھارنے کا رجحان رکھتاہے۔یہ ڈاکٹر ذوالفقار علی کی اکثر تحریروں پر صادق آتاہے ۔اس کی "اٹکھیلیاں" گدگد ی کرتے ہوئے ہنسی کو تحریک دیتی ہیں اور ہم ہنسنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب کی تحریروں میں مزاح کا رجحان طنز پرغالب دکھائی دیتا ہے ۔شاید یہ اسکی عمر کا تقاضا ہے ۔ظاہر ہے کہ نوجوانی میں انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اور ان ترجیحات میں اجتماعی اصلاح کا مقصد تو دور کی بات ہے ،اپنی اصلاح کا پہلو بھی شاذونادر ہی جگہ بنا پاتا ہے ۔اس عمر میں تو اپنی ذات کے گرد گھومتے ہوئے شوخ رومانوی رنگوں کے فانوس نما ہیولے ہی باعث کشش ہواکرتے ہیں ۔ذوالفقار بھی انہی میں جاذبیت محسوس کرتاہے ۔ان کے بارے میں اس کا زاویہ نگا ہ ظریفانہ ہے ۔اس ضمن میں اس کی تحریریں اورینٹل نامہ، لوکل بس سے کالج تک ،برات عاشقاں ،کنوارے بے روزگار ،کیا یہی پیار ہے ؟اور شادی خانہ بربادی ۔بطورخاص دیکھی جا سکتی ہیں" ۔
................
بطور تبصرہ نگار میں ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری صاحب سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ"اٹھکیلیاں " میں شامل ہر مضمون میں طنز سے زیادہ مزاح دکھائی دیتا ہے ۔ جس مضمون کو پڑھنا شروع کریں اسے ادھورا چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا ۔ بطور خاص ان حالات میں جبکہ انسان کو ذاتی بکھیڑوں نے ہرطرف سے گھیررکھا ہے ۔دفتر میں افسر کا خوف ، گھر میں بیگم کا خوف اور بچوں کی چیخ وپکار انسان ان مسائل میں گھر کر رہ گیا ہے ۔وسائل کی کمی اور مسائل کی زیادتی انسان کو ہرقدم پر خون کے آنسو رولاتی ہے ۔ان حالات میں اگر "اٹھکیلیاں "جیسی کتاب ہاتھ میں آجائے تو کچھ وقت کے لیے جینے کو جی چاہتا ہے ۔جہاں تک کتاب میں شامل مضامین کا تعلق ہے تقریبا سبھی اپنی اپنی نوعیت کے بہترین مضامین میں شامل ہیں لیکن جس مضمون نے مجھے قہقہے لگانے پر مجبور کیا وہ اس مضمون کا نام ہے "کیا یہی پیار ہے" جو واقعی بہت دلچسپ اور منفرد دکھائی دیتا ہے۔لیجیئے آپ بھی لطف اٹھائیں -:
"مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے "۔اس نے اپنے گیلے ہاتھوں سے جھاڑو پھینکتے ہوئے کہا ،میں حیران ہوا کہ آج چھیمو کو کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے بھی اپنی تمام ترمحبتوں کو آواز دے کر اس کی طرف دیکھا اور کہا میں بھی تمہیں چاہنے لگاہوں ۔اس نے یہ سنا اور ساتھ ہی زور سے آواز لگائی ۔چاچی تیرے منڈے نو میرے نال محبت ہوگئی اے ۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ادھر ماں جی پرانے جوتے کو تلاش کررہی تھیں تاکہ اسے میرے سر پہ استعمال کرسکے۔دراصل نئے جوتے کے معاملے میں وہ بہت حساس تھیں ۔میں نے بھاگنا چاہا تو وہ جھاڑوپکڑ کر میرے سامنے کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی باؤ ۔ پیار تو قربانیاں مانگتا ہے تو جوتوں سے ڈر رہا ہے ۔میری تو سٹی گم ہوگئی ۔میں کیا جواب دیتا میں نے انکھیں بند کرکے دوڑ لگا دی مگر زمین بوس ہوگیا۔دراصل چھیمو کی ٹانگ میری راہ میں حائل ہوگئی ۔بعد ازاں پتا چلانہیں کیا ہوا؟اچانک سر پر دھم کی آواز سے کوئی قہر نازل ہوا۔اس کے بعد چھک کی آواز سے کوئی بلا نازل ہوئی ۔پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۔دھم چھک دھم چھک ۔ ذرا ہوش آیا تو پتا چلا جھاڑو اور جوتے کے حسین امتزاج سے میرے سرپر کوئی دھن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ایک دن میں نے اس سے کہا ۔مجھے کالج جانا ہے میری شرٹ استری کردو۔ اس نے بہت پیار سے شرٹ لی اور استری کردی۔ میں اسکی فرمانبرداری پر انگشت بدنداں تو ہوتا مگر وقت کی کمی کے باعث یہ ارادہ ملتوی کردی اور جلدی سے شرٹ پہن کر کالج چلاگیا ۔ناجانے کیوں اس دن موسم ٹھنڈاٹھنڈا لگ رہاتھا ۔کالج پہنچتے ہی میرے دوست میرا مذاق اڑانے لگے ۔ان سے مذاق اڑانے کی وجہ ڈپٹ کر دریافت کی تو ٹھنڈے موسم کی حقیقت منکشف ہوگئی ۔شرٹ پر استری کے سائز کا روشن دان کھلا تھا ۔جس سے ہوا گزر کرمیرے جسم و جاں کو ٹھنڈ ک بلکہ سکون ہی سکون بخش رہی تھی ۔اچانک برہنگی کا احساس شرمندہ کرنے لگا ۔میں نے جلدی سے دو روپے والا اخبار خریدا اور اسے چادرکی طرح جسم پر لپیٹ کر گھر کی جانب دوڑ لگا دی ۔ گھر پہنچا تو صحن میں چھیمو ماں جی کے بالوں میں تیل لگا رہی تھی ۔اسے دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتاوہ بولی ۔ماں جی آپ کے بیٹے کو کپڑے خریدنے کا بھی ڈھنگ نہیں ہے۔باریک سے کپڑے لے آتا ہے ،ذرا استری لگاؤ تو جل جاتے ہیں ۔ میرے پاس وضاحت کے لیے کوئی لفظ نہیں تھا ۔میں آنکھوں میں آنسو سمیٹے اپنے کمرے میں چلاگیا۔ میں کچھ عرصے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔یونیورسٹی کا ماحول بہت عجیب تھا ۔لڑکے لڑکیوں سے نوٹس لینے کے بہانے باتیں کرتے اور اگر کوئی اس کا بروقت نوٹس نہ لیتا تو بعد میں وہ نجانے کیا کرتے ۔میں نے بھی دوسروں کی طرح نوٹس کی پرواکیے بغیر ایک دن ہمت کرکے اپنی کلاس کی سب سے خوبصورت لڑکی سے نوٹس کا مطالبہ کردیا اور وعدہ کیا دو دن بعد واپس کردوں گا۔دوسرے دن شدید بارش ہوئی ۔ میں اپنے کمرے میں سویا ہوا تھا ۔گلی میں بچوں کا شور اور قہقہے موسلادار بارش کی آواز کا حصہ معلوم ہوتے تھے ۔ میں نے کمرے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو چھیمو بچوں کو کاغذ کی کشتیاں بنا بنا کر دے رہی تھی۔اچانک ایک خوف کی لہر چہرے اور بدن میں دوڑ گئی اور اپنے خدشے کو تصدیق کے لیے میں کشتیوں کو غو ر سے دیکھا تو میر اور غالب اپنے اشعار سمیت بارش کے گندے پانی پر تیررہے تھے ۔میں نے زور سے آواز دی ۔چھیمو لاپرواہی سے بولی ۔باؤ آ جا بڑا مزا آرہاہے اور وہ نیلے رنگ کی کتاب بھی لے آ۔ اس کے صفحے بڑے ملائم ہیں ،کشتیاں بہت اچھی بنیں گی ۔ میں نے چیخ کر کہا ۔چھیمو میں خود کشی کرنے لگا ہوں ۔تم نے میری زندگی تباہ کردی ہے ۔یہ کہہ کر میں نے پنکھے کے ساتھ رسی لٹکائی اور پھندا بنانے میں مصرو ف ہو گیا اچانک وہ اند ر آئی اور اس نے پنکھا چلا دیا۔ رسی میرے پاؤں میں الجھ گئی اور گھومتے ہوئے پنکھے نے میرے پاؤں کھینچے تو میں نیچے جاگرا۔ وہ زور زور سے ہنس رہی تھی اور کہہ رہی تھی باؤ گلے میں رسی ڈالتے ہیں ،پاؤں میں رسی ڈالنے سے خودکشی نہیں ہوتی ۔اس واقعے کو دو ہفتے گزرے تھے کہ ماں جی میرے پاس آئیں اورپیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرکر کہنے لگیں میرا بیٹا ماشااﷲ ایم اے میں ہوگیاہے ۔میں تیرے لیے ایک چاند سی لڑکی ڈھنڈی ہے ۔ میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹنے لگے ۔مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری زندگی کا مقصد مجھے ملنے والا ہے ۔کتنی خواہش تھی کہ میری بھی کوئی دلہن ہوجو مجھ سے محبت کرے ،مجھے کبھی دکھ نہ دے ، پیاری پیاری باتیں کرے ۔ یہ اچھے اچھے خیالات میرے ذہن میں دھمال ڈالنے لگے ۔پھر خوشی سے شرماتے ہوئے میں نے ماں جی سے پوچھا کون ہے وہ لڑکی ؟ ماں جی نے بڑی لاپرواہی سے جواب دیا ۔او اپنی چھیمو۔ ماشااﷲ دیکھی بھالی ہے۔ گھر کی لڑکی ہے ،سگھڑ ہے ، محبت کرنے والی ہے ۔ ماں جی کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آ رہاتھا ۔چھیمو بجلی بن کر میرے اعصاب پرگری تھی ۔میں نے اپنا بوریا بستراٹھایا اور اسٹیشن کی جانب بددلی سے چل دیا اور گاڑی پر سوارہو کر نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا ۔گاڑی چلی تو مجھے ٹھنڈی ہوا محسوس ہونے لگی ۔ میں سوچ رہاتھا کہ نا جانے سردی زیادہ کیوں لگ رہی ہے ۔پھر معلوم ہوا کہ یہ ہوا میری کمرپر پڑرہی ہے اور میں سوچ رہاتھا کہ "کیا یہی پیار ہے -"
اس مضمون نے مجھے بھی وہ گیت گنگنانے پر مجبور کردیا ہے ۔ جس کے بول تھے -:
دل تیرے بن یو نہی لگتا نہیں وقت گزرتا نہیں
کیا یہی پیار ہے ...…

مختصرلفظوں میں یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اس کتاب میں شامل ہر مضمون اپنی نوعیت کا اچھوتا ہے ۔جس مضمون کو پڑھنے لگو دوسرے بھول جاتے ہیں ۔بطور خاص اولڈ پیپل نیوہاؤس،کنوارے بیروزگار ، شادی خانہ بربادی وغیرہ بہت مزے کے مضامین ہیں ۔اس کتا ب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہ جسامت کے اعتبار سے ہلکی اور قیمت بہت مناسب ہے ۔تین سو روپے میں ہر انسان کتاب خرید سکتا ہے ۔جو پبلشر کتابوں کی قیمتیں ہزاروں میں رکھتے ہیں ان کی کتابیں شوکیس میں پڑی رہتی ہیں جبکہ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن چھپا ہے۔مجھے اس کتاب کے ٹائیٹل کی بجائے بیک ٹائیٹل اس لیے زیادہ پسند آیا کہ بیک ٹائیٹل پر ڈاکٹر ذوالفقار علی صاحب کی خوبصورت اور جاذب نظر تصویرآویزاں ہے جن کی آنکھوں سے شرارت کے شرارے پھوٹ رہے ہیں ۔اگر کتا ب کا نام اٹھکیلیاں نہ بھی لکھا جائے اور ڈاکٹر صاحب کی شرارتی آنکھوں والی تصویر ہی لگا دی جائے بات پھر بھی سمجھ آجاتی ہے ۔بہرحال میں اس کتاب کو دور حاضر کی بہترین کتابوں میں شمار کرتا ہوں ۔اﷲ کرے زور قلم اور زیادہ ۔ڈاکٹر ذوالفقارعلی لکھتے رہیں اور ہم پڑھتے رہیں ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 665985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.