اِس دشت میں اِک شہر تھا(کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان) ا


اِس دشت میں اِک شہر تھا(کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان)
اقبال اے رحمن مانڈ ویا کی تصنیف
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
چند دن ہوئے جناب اقبال اے رحمن مانڈویا صاحب کا فون آیا ، سلام کا تبادلہ ہوا،انہوں نے اپنا نام بتایا ، میں ان سے واقف نہیں تھا ، البتہ وہ میرے فیس بک فرینڈ کی فہرست میں شامل ہیں ، ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوپائی ، فرمایا کہ میں اپنا پوسٹل ایڈریس بتادوں وہ کوئی کتاب بھیجنا چاہتے ہیں ۔ میرے اکثر احباب مجھ پر اس قسم کی کرم فرمائی کرتے رہتے ہیں ۔ میں نے اپنا پتہ واٹس اپ کردیا ۔ اگلے روز رات ہی میں میسیج ملا کہ انہوں نے اپنے کسی نمائندے کے ہاتھ کتاب مجھے بھیجی ، وہ نمائندہ مجھے فون کرتا رہا، اقبال صاحب نے بھی فون کیا لیکن میری جانب سے خاموشی رہی، ان کی یہ بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا، معزرت چاہتے ہوئے ان سے کہا کہ مجھے اپنا پتہ بتادیں میں خود آکر آپ سے کتاب لے لوں گا، میں ان کے ایڈریس کا انتظار ہی کررہا تھا کہ دوسرے ہی روز ان کا کوئی نمائندہ ان کی کتاب ’’ اِس دشت میں اِک شہر تھا‘‘ میرے گھر دے گیا ۔ کتاب ہاتھوں میں تھی، میں کتاب پر انتہائی خوشی کے عالم میں شفقت اور محبت سے کبھی ایک ہاتھ کبھی دوسرا ہاتھ کتاب کے سرورق پر پھیرتا رہا، میرے شہر کراچی پر اتنا تحقیقی اور ضخیم کام کرنے والے شخص کے لیے دل سے دعا نکل رہی تھی، اس لمحہ اس کے مصنف کی علمیت ، قابلیت اور دریا دلی کا بھی خیال آیا کہ اس نے مجھے اس قابل سمجھا کہ 800 صفحات پر مشتمل کتاب جس کی قیمت 2000;47; روپے درج ہے مجھے اپنے خصو صی نمائندہ کے ہاتھوں عنایت فرمائی، یہی وہ لمحات بھی تھے جب میرے ذہن میں میری 71 سالہ زندگی کے نشیب و فرازکی فلم چلنے لگی ۔ میں نے اسی لمحہ کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا بھی فیصلہ کیا ۔ تاریخ دان و مصنف گل حسن کلمتی جنہوں نے کتاب کا مختصر فلیپ لکھا اس کتاب کو ’’تحقیقی کے بجائے کراچیائی کا کراچی کی گلیوں کا سفر نامہ قراردیا ہے‘‘، ساتھ ہی اس کی وجہ یہ بیان کی کہ’’ اس کتاب میں پورے تحقیقی یا ادارتی آداب نہیں ملیں گے‘‘ ۔ کلمتی صاحب کی رائے میں وزن ہے لیکن میری رائے میں جستجو ، تحقیق ،سخت محنت، احباب سے میل ملاقات کے بغیرایسی کتاب مرتب نہیں ہوسکتی تھی ۔ اس کے لیے کراچی کی گلیوں ، شاہراہوں ، مختلف بستیوں اور مختلف رہائش پذیر برادریوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں مصنف نے جان جوکھوں میں ڈالی ہے ۔ اس سے عام قاری ہی نہیں بلکہ مستقبل کا محقق بھی استفادہ کرے گا، نیز کراچی کے کسی بھی پہلو پر تحقیق کرنے والے کے لیے یہ کتاب اہم حوالہ قرار پائے گی ۔ کتابوں میں عام طور پر تحقیقی آداب اس انداز سے فراہم نہیں کیے جاتے جیسے کسی تحقیقی مقالے میں ہوتے ہیں ۔ لیکن کسی بھی موضوع پر تحقیق کی بنیاد کتاب ہی ہوا کرتی ہے ۔

کتاب کے مطالعے کا اصول یہ ہے کہ ہم پہلے کتاب میں درج فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالتے ہیں ، سو میں نے بھی ایسا ہی کیا ۔ اندازہ ہوا کہ اس میں کراچی کی مختلف بستیوں ، علاقوں ، جگہوں جیسے بندرگاہ، کلفٹن، ویسٹ وہارف، جزائر، ہاکس بے روڈ، ماری پور روڈ، ساءٹ، لیاری، کھارادر، ہر چند رائے و شنداس روڈ، نشتر (لارنس روڈ)، چاند بی بی روڈ (پرنسس اسٹریٹ)، شہراہ لیاقت، آئی آئی چندریگر روڈ، ڈاکٹر ضیا ء الدین احمد روڈ، مولوی تمیز الدین روڈ، صدر، ایم اے جناح روڈ، جمشید روژ ۔ اس فہرست کو دیکھ کر میں اپنی یادوں کے سمندر میں غوطے مارنے لگا، یہ سب تو وہ علاقے،بسیاں ، شاہراہیں جہاں پر میں صبح و شام گزرا کرتا تھا، کبھی تانگے میں ، کبھی سائیکل رکشا میں ، کھبی کھوڑا گاڑی میں ، کبھی بسوں میں ،کبھی ٹرام میں پھر رکشا کا زمانہ آیا، موٹر سائیکل خریدلی تو اس پر انہی سڑکوں پر دوڑتا وقت یاد آگیا ۔ کلفٹن سیر و تفریح، ساحل سمندر کے حوالے سے ہاکس جانا، لیاری جس میں میرا بچپن ، میری جوانی گزری یہاں تک کے بڑھاپے کی پہلی دہلیز پر بھی یہیں قدم رکھا، مختصر یہ کہ اس کتاب کی فہرست سے اندازہ ہوگیا کہ اس میں بیان کردہ ذیلی موضوعات میں جو کچھ بھی لکھا ہوگا وہ سب میری یادداشتوں میں محفوظ ہے اسے پڑھ کر یقینا مجھے مسرت ہی نہیں ہوگی بلکہ میرے دل و دماغ کو ایسی آکسیجن میسر آئے گی جو مجھے آج تک کسی اور کوئی کتاب سے حاصل نہ ہوئی ہوگی ۔ اب میں نے اگلا صفحہ پلٹا، یہاں فہرست مضامین (تہجی) موجود تھی یعنی فہرست عنوانات میں جو موضوعات دئے گئے ہیں ان موضوعات کے تحت ذیلی موضوعات کو حروف تہجی کے تحت ترتیب دیا گیا ہے ان کے سامنے صفحہ نمبر درج ہے ۔ اس فہرست کو دیکھ کر میرے چاروں طبق روشن ہوگئے، وہ چھوٹی چھوٹی جگہیں ، علاقے، محلے، اسکول، کالج،اسپتال، شاہراہیں ، مختلف برادریوں جیسے کچھی ، بلوچ، اردو بولنے والے، میشوری برادری،نیازی برادری،اوکھائی میمن برادری، لاسی برادری، ریلوے اسٹیشن، مختلف بازار، ہندوستان سے جنگ 1965، چڑیا گھر، ریڈیو پاکستان، سینٹرل جیل، عجائب گھر، قبرستان اور اس دور کی بعض شخصیات کی فہرست دیکھ کر میرا گمان یقین میں بدل گیا کہ واقعی یہ تصنیف ’’کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان‘‘ ہے جوآنکھوں دیکھی اور کانوں سنی،آپ بیتی بھی ہے جگ بیتی بھی، زبان عام فہم اور سادہ ہے اقبال اے رحمن مانڈویا صاحب قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے ماضی کے کراچی کو دوبارہ زندہ کردیا ۔

حروف تہجی کی فہرست پر نظر ڈالنا شروع ہی کی تھی کہ پہلے آتما رام پریتم داس روڈ اور آگرہ تاج کالونی کا نام دیکھ کر میں وہیں رک گیا ۔ آتما رام پریتم داس روڈ لیاری ندی کے دائیں جانب مرزا آدم خان روڈسے بس اسٹاپ 10نمبر کہلاتا تھا سے شروع ہوتی ہوئی بائیں جانب بہار کالونی اور دائیں جانب آگرہ تاج کالونی ،کچھی کالونی، جونا آباد،کلری، موسیٰ لین، بغدادی کے درمیان سے ہوتی ہوئی کھارادر تک جاتی ہے ۔ عرصہ دراز تک یہ زیادہ استعمال ہونے والی یہی سڑک تھی، ہ میں کھارا در، جوڑیا بازار، مچھی میانی مارکیٹ، ٹاور یا کیماڑی جانا ہوتا تو آتما رام پریتم داس روڈ کے دوسرے بس اسٹاپ آگرہ تاج کالونی کا بس اسٹاپ کہلاتا تھا، جو شاہین اسکول اور غازی محمد بن قاسم اسکول پر تھا سے 10 نمبر بس میں یا پھر تانگے یا گھوڑا گاڑی(بگی) میں فی سواری کے حساب سے کھارا در تک پہنچ جایا کرتے پھر اگلا سفر شروع ہوا کرتا ۔ یہ سب کچھ تو اپنے سے متعلق اور اس وقت کے لمحات و روز و شب جو ذہن میں آئے بتادیے ۔ یہ بات بھی واضح کروں پاکستان میں میرے رہائش والدین کے ہمراہ بہارکالونی میں حنیف منزل روڈ پر آغا خان کے جماعت خانے کے بالکل برابر والا گھر میرے والدین کا تھا جو انہوں نے اپنے ماموں جناب خادم الا انبیاء سبزواری کے اشتراک سے پلاٹ خرید کر بنایا تھا ، لیکن جائیداد بری بلا ہے، چند سال بعد والد صاحب نے حالات سے سمجھوتا کرتے ہوئے اس گھر کو خیر باد کہا اور آگرہ تاج کالونی میں ایک پلاٹ خرید کر رہائش اختیار کر لی ۔ میں نے عبد اللہ ہارون کالج ، کھڈا مارکیٹ سے اس وقت بی اے کیا تھا جب معروف شاعر جناب فیض احمد فیض کالج کے پرنسپل تھے، یعنی 1969-70 میں ، اس کے بعد ایم اے کرنے کے بعد کالج میں ملازمت مل گئی ، اتفاق کہ 1974 میں تبادلہ عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہوگیا ۔ لیکن فیض صاحب نے1972 میں کالج کو اس وقت خیر باد کہہ دیا تھا جب بھٹوصاحب نے تعلیمی اداروں کوسرکاری تحویل میں لے لیا تھا، اب ہمارا سفر ماری پورروڈ سے ہونے لگا ، اس زمانے میں کے آرٹی سی(;75828467;) بسیں چلا کرتی تھیں ، کبھی ہم پیدل ہی اپنے کالج آنے جانے لگے ، ہمارا راستہ شاہ ولی اللہ روڈ ہوا کرتاتھا جس سڑک پر دریا آبادواقع ہے وہاں سے سیدھے سیدھے کھڈا مارکیٹ (نوا آباد)جس کا جدید نام میمن سوسائیٹی ہے پر کالج پہنچ جایا کرتے ۔ یہ مختصر سی باتیں تھیں اس زمانے کی ہمارے حوالے سے ۔ لیکن ان سب کا ذکر اقبال اے رحمن صاحب نے مرحلہ وار اپنی کتاب میں کیا ہے ۔ کالج سے منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھنے، پڑھانے اور لکھنے اور چھپنے کی عادت میں بھی مبتلا ہوگیا، مختلف موضوعات پر لکھتا رہا، نصف صدی ہونے کو آئی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔ چالیس کتابیں اور سات سو مضامین آن لائن ہیں ، اپنی آپ بیتی پر کئی مضامین، شخصیات، خاکے، کالم نگاری، کتابوں پر تبصرہ نگاری، نصابی کتب، ادب اور ادبی موضوعات پر بہت کچھ لکھا ۔

پیش نظر کتاب کے حوالے سے ایک اور اہم بات ، کتاب پر اظہاریہ لکھنا شروع کیا تو حروف تہجی کے تحت موضوعات کی فہرست میں تیسرے نمبر پر موضوع کا عنوان تھا ’’آگرہ تاج کالونی‘‘ ، میری نگاہیں اس پر منجمد ہوگئیں ، اور میں فوری طور پر ان صفحات پر پہنچ گیا ۔ اس عمل کی وجہ اس بستی سے میری کی وابستی یادیں ہیں ۔ بچپن یہاں گزرا، جوانی کی بہاریں اسی بستی میں آئیں اور جوانی نے اسی جگہ سے واپسی کا سفر شروع بھی کیایعنی بڑھاپے کی دہلیز پر یہیں قدم رکھابہار کالونی اور آگرہ تاج کالونی میں میری قیام کی کل مدت 39سال پر محیط ہے جب کہ لیاری سے میری وابستگی 49سالوں پر محیط ہے ۔ اس لیے کہ ہم 1987 میں آگرہ تاج کالونی سے دستگیر منتقل ہوگئے تھے جب کہ کالج سے وابستگی 1997تک رہی ۔ ان صفحات کا مطالعہ شروع کیا جوصفحہ 140سے شروع ہوتا ہے اگلے ہی صفحہ یعنی141پر پہنچا تو پھر چونک گیا، مصنف نے میرے ایک مضمون سے ایک پیراگراف نقل کر رکھا ہے اس پیراگراف کے نیچے میرا نام بھی درج ہے، دیکھ کر خوشی ہوئی، کہ مصنف نے کراچی کے موضوع پر تفصیلی تحقیق و جستجو کی ہے ۔ لکھتے ہیں ’’پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ابتدائی 25برسوں میں لوگوں نے اپنی زندگی جس طرح بسر کی ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی یادداشتوں سے عیاں ہے‘‘ ۔ اس جملے کے بعد میری زندگی کے ابتدائی ایام کی کچھ باتیں نقل کی گئی ہیں جس میں بہار کالونی سے آگرہ تاج کالونی منتقل ہونے کا ذکر، وہ گھر جس میں رہائش تھی اس کی خستہ حالی اور اس وقت کے ماحول کی عکاسی کی گئی ہے ۔ اسی موضوع کے تحت اس علاقے کی تفصیل غازی محمد بن قاسم اسکول اور اس کے صدر مدرس سید ابو ظفر آزاد کا ذکر ، ان کی شریک حیات ڈاکٹر عطیہ ابو ظفر کا ذکر، ان کے بچوں ، اور بچوں کے بچوں کا ذکر اس بات کا بھی ذکر ہے کہ ان کے خاندان میں کل ملا کر 40ڈاکٹر ز ہیں ۔ آزاد صاحب میرے استاد رہے، میں نے پرائمری تعلیم غازی محمد بن قاسم اسکول سے حاصل کی تھی ۔ بہار کالونی کے قیام کا ذکر، وہاں کی مساجد، اسکول، سڑکوں ، علاقوں ، وہاں رہائش پذیر مختلف برادریوں کا ذکر ملتا ہے ۔ کتاب کے اس حصہ کو پڑھ کر اندازہ ہوگیا کہ مصنف نے ماضی کی کراچی کے مختلف علاقوں ، سڑکوں ، بستیوں ، اہم عمارتوں ، برادریوں کو تفصیل سے موضوع بنایا اور تحقیق کر نے کے بعد اسے قلم بند کیا ۔

پیش نظر تصنیف کے ناشر زاہد علی خان نے عرض ناشر میں لکھا ’’یہ داستان ہے اس شہر نگاروں کی گلیوں محلوں ، برادریوں ، شخصیات اور عمارتوں کی، اس میں تذکرہ ہے ان گم نام ہیروز کا جنہوں نے اس شہر کو تعمیر کیا اور عالم اسلام کا دوسرا ور دنیا کا چوتھا بڑا شہر بنادیا‘‘ ۔ کتاب کے مصنف اقبال اے رحمن مانڈویا نے عرض مصنف میں لکھا کہ’’یہ کتاب ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے جسے علمی و ادبی دوستوں کے مشوروں نے سند توثیق بخشی ہے، ساتھ ہی انہوں نے ان احباب کا شکریہ بھی ادا کیا جو اس کتاب کی تدوین میں ان کے قدم بہ قدم رہے‘‘ ۔ عروس البلاد کراچی کے ایڈمن عمران اشرف جونانی نے کتاب کی پشت پر کتا ب اور صاحب کتاب کے بارے میں تفصیل فراہم کی کہ یہ کتاب کس طرح ترتیب پائی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اقبال اے رحمن علمی و کاروباری خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کے والد عبد الرحمن اسیر علمی و ادبی ذوق کے حامل صاحب کتاب ادیب تھے جب کہ ان کے چچا یوسف مانڈویا صاحب نامور ادیب و بے باک صحافی تھے ۔ جونا گڑھ سے گجراتی اخبار مجاہد نکالا کرتے تھے ۔ مجاہد کے ساتھ ساتھ انہوں نے کئی کتابیں بھی ترتیب دیں جن میں سب سے اہم سیر ت النبیﷺ پر صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب ہے ۔ اسی ادبی فضاء نے وقت آنے پر اپنا اثر دکھایا جس کا ثمر آج ’’اِس دشت میں اِک شہر تھا ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے‘‘ ۔

کراچی ایک تاریخی شہر ہونے کے ساتھ عالم اسلام کا دوسرا ور دنیا کا چوتھا بڑا شہرہے ۔ کراچی پر بے شمار محققین اور مصنفین نے قلم اٹھایا، تحقیقی مقالات بھی لکھے گئے، کتابیں اور مضامین بھی ۔ میرے ایک شاگرد ڈاکٹر عظیم الشان حیدر نے جامعہ کراچی سے ’’ ہسٹری آف کراچی ‘‘کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ کراچی کی اہمیت کے پیش نظر کراچی پر تحقیق و جستجوکا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری وساری رہے گا ۔ کتاب یقینا اس شہر کے باسیوں کے لیے خاص طور پر دلچسپ اور معلوماتی ہے، بلکہ عام قارئین کے لیے، تحقیق کرنے والوں کے لیے اہم حوالہ ہے، البتہ اس کتاب کا کراچی وہ نہیں جو اب ہے بلکہ اس میں ماضی کے کراچی کو خوبصورت انداز سے پیش کیا گیا ہے ۔ موجودہ کراچی اپنی جغرافیائی اعتبار سے وسیع تر ہوچکا ہے، بے شمار نئی آبادیاں معرض وجود میں آچکی ہیں ، نئی نئی سٹرکیں ، بلند و بالا عمارتیں ، تفریحی مقامات کراچی کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اس کراچی کو بھی کتابی صورت میں سامنے لانا ضروری ہے ۔ کراچی اپنا حسن ، خوبصورتی، صفائی ستھرائی کھو چکا ہے ، آج کراچی کو کچرا کراچی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں والا کراچی، منشایات، سیاسی ابتری، لوٹ مار، ڈاکے، چوری، پرچی ،مال بنانے الغرض کون سی ایسی برائی ہے جو اب کراچی کے نام کے ساتھ منسلک نہیں کی جاتی ۔ یہ ایک الگ اور اہم موضوع ہے کہ کراچی کو اس حالت پر پہنچانے میں کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا، اس کا تعین کون کرے گا ، ہوپائے گا بھی یا نہیں ، کیا کراچی اپنی ماضی کا حسن و خوبصورتی بحال کرسکتا ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے، کراچی کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو وہ تمام حقائق سامنے آجائیں گے بلکہ اب لوگوں میں اتنا شعور پیدا ہوچکا ہے کہ وہ ان حقائق پر میڈیا پر گفتگو کرنے کی جرت کرنے لگے ہیں ۔ آخر میں کتاب کے بارے میں اس قدر کہنا چاہوں گا کہ یہ کراچی کے حوالے سے ایک بہترین کتاب ہے، بھر پور معلومات، سہل انداز بیان ، اسے ہر کتب خانے کی زینت ہونا چاہیے ۔ (9ستمبر2020ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273503 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More