آرمی چیف جنرل قمرباجوہ نے یوم دفاع کے موقع پرمنعقدہ
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرحلے پرکہاکہ میں آپ کی توجہ ایک اور چیلنج
کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں اور یہ چیلنج ففتھ جنریشن یا ہائبرڈ وار کی
صورت میں ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ اس کا مقصد ملک اور افواج پاکستان کو بدنام
کرکے انتشار پھیلانا ہے۔ ہم اس خطرے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ قوم کے تعاون سے اس
جنگ کو جیتنے میں بھی ہم انشا اﷲ ضرور کامیاب رہیں گے۔جنرل قمرباجوہ کے یہ
الفاظ اس تلخ حقیقت کوآشکارکررہے ہیں جس سے ہماری قوم نے آنکھیں بندکی ہوئی
ہیں اوردانستہ یانادانستہ طورپراس وارکاشکارہورہے ہیں ۔
ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں قوم پرست فرنٹ لائن پرہیں جوملک اوربیرون
ملک بیٹھ کراس ففتھ جنریشن وارکے ذریعے نوجوانوں کوگمراہ کررہے ہیں حقائق
کوتوڑموڑکرپیش کررہے ہیں ،ضم شدہ قبائلی علاقوں کے قوم پرست ہوں یابلوچستان
کے علیحدگی پسند،یہ معصوم ذہنوں میں زہرگھول رہے ہیں انہیں حقائق کی بجائے
جھوٹ پڑھارہے ہیں نفرت کادرس دے رہے ہیں پی ٹی ایم ہویابلوچستان کاکوئی
ماما سب کامشن ایک ہی ہے کہ اس ریاست اورافواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ
کرناہے اوریہ تصورذہن میں بٹھاناہے کہ یہ ریاست اورفوج ہماری دشمن ہے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ قوم پرست اورعلیحدگی پرست ان علاقوں کی ترقی میں رکاوٹ
ہیں مگرالزام سیکورٹی فورسزپرلگادیتے ہیں ،میں یہاں شیربازبلوچ کی تحریرنقل
کرتاہوں جنھوں نے اعدادوشمارکے ساتھ بلوچ قوم ستوں کے منفی پروپیگنڈے
کاجواب دیاہے وہ لکھتے ہیں کہ "کچھ دن پہلے بلوچستان کی ایک یونیورسٹی کا
طالب علم ملا گفتگو کے دوران اس کی باتیں سن کر میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ
آخر بلوچستان کی یونیورسٹیز میں نئی نسل کو تعلیم کی آڑ میں کیا پڑھایا جا
رہا ہے۔
اس نوجوان نے بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں کی روایات برقرار رکھتے ہوئے اپنی
توپوں کا رخ وفاق اور پنجاب کی طرف کر دیا۔ میں نے اس کے سامنے بلوچستان کا
2010 سے 2020 تک کا سالانہ صوبائی بجٹ رکھا.
2009-2010 ،میں بلوچستان کاکل بجٹ 74 ارب روپے،2010-2011 ،میں152 ارب روپے
تھا ،2011-2012 میں یہ بجٹ بڑھ کر164 ارب روپے ہوگیا اسی طرح 2012-2013 میں
یہ بجٹ180ارب روپے، 2013.2014میں200 ارب روپے ،2014-2015 میں216 ارب
روپے،2015-2016 میں244 ارب ،2016-2017 میں بلوچستان کابجٹ290 ارب روپے
ہوگیا جبکہ 2017-2018 میں صوبائی بجٹ325 ارب روپے ،2018-2019 میں352 ارب
روپے اور2019-2020 میں یہ بجٹ بڑھ کر419 ارب روپے رکھا گیاہے ۔
میں نے کہا بھائی جان صوبہ بلوچستان کو دس سال میں 2616 ارب ملے ہیں۔ کیا
آپ نے کبھی بلوچستان کے سیاسی لیڈران سے پوچھا یہ پیسہ کہاں خرچ ہوا؟ وہ
بھڑک اٹھا اور غصے سے بولا کہ وفاق اور پنجاب بلوچستان کو مال غنیمت سمجھ
کر لوٹ رہے ہیں۔ میں نے کہا بلوچستان کے بجٹ کا وفاق اور پنجاب سے کیا تعلق
ہے کیابلوچستان کاوزیراعلی اوروزاراء پنچاب سے آتے ہیں ۔ مگرجواب میں وہ ہر
بات پر پنجاب اور پنجابی کے نام سے زہر اگلتا رہا۔
میں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ آخر اس سب کی کیا وجہ ہے؟ بقول آپ کے
بلوچستان کے قوم پرست اور چند سرداروں کی وجہ سے بلوچستان محرومیوں کا شکار
ہے پر آپ ان قوم پرستوں اور سرداروں کو میرے سامنے مظلوم بنا کر پیش کر رہے
ہیں آخر کیوں؟اس نوجوانوں نے ہنس کر مجھے کہا کہ بھائی آپ بلوچستان کی کسی
یونیورسٹی میں داخلہ لیں، پھر آپ خود طوطے کی طرح بلوچ قوم پرست اور
سرداروں کو مظلومیت کے ماڈلز بنا کر پیش کریں گے۔
ابھی چندپروزپہلے کی بات ہے کہ میری بہن سی ایم ایچ کوئٹہ میں داخل تھی،میں
کوئٹہ گیا وہاں میرے شہر کے ایک نوجوان سے جو بلوچستان کی کسی یونیورسٹی
میں زیر تعلیم ہے، سے ملاقات ہوئی ۔ بلوچستان کی موجودہ تعلیمی ترقیاتی اور
محرومیوں پر بات ہوئی ۔ میں نے اس نوجوان کے سامنے بلوچستان کا دس سالہ
تعلیمی بجٹ رکھا ۔اورپوچھا کہ بتاؤکہ آپ کایہ بجٹ کہاں خرچ ہورہاہے ؟
2010- 2011 میں بلوچستان کا تعلیمی بجٹ 19.4 ارب روپے،2012-2011 میں19.3ارب
روپے،2012- 2013 میں34.89ارب روپے،2013-2014 میں 34.89ارب روپے،2014-2015
میں صوبے کاتعلمی بجٹ38.3 ارب روپے تھا اسی طرح 2015 -2016 میں بلوچستان
کاتعلیمی بجٹ 38 ارب روپے،2016- 2017 کامیں 48 ارب ،2018- 2017 میں 52 ارب
،2018- 2019 میں 53 ارب روپے تھا اور2019-2020 میں بلوچستان کے لیے تعلیم
کے لیے 56 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔
میں نے اس نوجوان کے سامنے پھر بلوچستان کا صحت کا دس سالہ بجٹ رکھا۔
2010- 2011 میں صوبے کا صحت کا بجٹ 7.4ارب روپے،2011-2012 میں14.2ارب
روپے،2012- 2013 میں15.37ارب ،2013-2014میں صحت کابجٹ15.23 ارب ،2014-2015
میں15.36 ارب ،2015 -2016 میں صحت کا بجٹ 15.5 ارب روپے تھا جبکہ 2016-
2017میں بلوچستان کاصحت کابجٹ 18 ارب ،2017- 2018 میں یہ بجٹ 18 ارب ،2018-
2019 میں صوبے کاصحت کابجٹ 19.4 ارب روپے تھا جو-2019.2020میں بڑھ کر 34.18
ارب روپے ہوگیاہے ۔
جوابا وہ نوجوان وفاق اور پنجاب کے خلاف باتیں کرنے لگا۔ میری تمام تر
باتیں بھینس کے سامنے بین بجانے کی مانند رہیں۔ اسی دوران میں نے اپنی جیب
سے پاکستانی پرچم کا بیج نکالا اور اس نوجوان کے سینے پر لگانے کے لئے آگے
بڑھایا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر تلخ لہجے میں کہا کہ بھائی جان، میں یہ
پرچم نہیں لگاتا پر میں آپ کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کا پرچم لگا لیتا ہوں
ورنہ اس پرچم سے میرا کوئی تعلق نہیں۔
ان دونوں نوجوانوں کی باتیں میرے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھیں۔ میرا
چہرہ سرخ ہو گیا میں نے اس نوجوان سے اجازت لی اور ہوٹل چلا گیا۔ اس رات
مجھے نیند نہیں آئی۔ میں جاگتا رہا یہاں تک کہ فجر کی اذان سنی۔ میں مسجد
گیا اور نماز پڑھ کر ہوٹل کے کمرے میں واپس پہنچا۔ آئینہ دیکھا، میری
آنکھیں سرخ تھیں۔میں سوچنے لگا کہ بلوچستان کی یونیورسٹیز میں ہماری نئی
نسل کو تعلیم کی آڑ میں کیا پڑھایا جا رہا ہے کہ ان کے دلوں میں اپنے وطن
کے خلاف، اپنی پناہ گاہ کے خلاف اس قدر نفرت پیدا ہو چکی ہے۔اورکون لوگ ہیں
جومعصوم زہنوں میں یہ زہرگھول رہے ہیں ۔
میں پاکستان کے تمام اداروں اور بالا آفسران سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا
بلوچستان کے یونیورسٹیز کے نصاب اور اساتذہ پر دھیان دیں اور دیکھیں کہ
بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر کیسی ذہن سازی کی جا
رہی ہے۔ اس کی مکمل تحقیقات کی جانا چاہیے۔ ہم بارود کے ڈھیر پر بیٹھے
ہیں،ایک چنگاری سب کچھ تباہ کر سکتی ہے۔ اپنے وطن سے مخلص ہوں اور دیکھیں
کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں اور کیا ان کے ذہنوں میں ڈالا جارہا ہے۔ ان نابالغ
ذہنوں کو تباہ کرنا دشمن کا بہت گھناؤنا حربہ ہے۔ محتاط رہیں اور وطن سے
مخلص رہیں۔"
|