دین اسلام کا آغاز جزیرة العرب سے ہوا۔ اس وقت وہاں کے
حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے۔ بد عقیدگی اور شرک کا دور دورہ تھا۔ سماجی نا
انصافی عام تھی۔ انسانی حقوق پامال ہو چکے تھے اور اخلاقی قدریں دم توڑ چکی
تھیں۔ قبائلی تعصبات اور خاندانی جھگڑے آئے روز کے معمول تھے۔ مزدوروں کے
حقوق کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ماں، بہن، بیٹی اور ماں کے طور پر عورت ظلم
و تشدد کا شکار تھی۔ جاہ و منصب کے حصول کیلئے والدین سمیت قریب ترین رشتوں
کے تقدس کی پامالی روز کا معمول تھا۔ ان بد نما رسوم و رواج اور عقائد و
نظریات کی بنا پر ہی ہر دور کے مورخین نے اس زمانے کو "زمانہ جاہلیت" سے
تعبیر کیا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی بعثت کیلئے سرزمین حجاز کا انتخاب فرمایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے اعلان نبوت فرما کر 23 سال تک تبلیغ و ارشاد کا فریضہ سر انجام
دیا۔ بت پرستی چھوڑ کر ایک وحدہ لا شریک ذات باری تعالٰی کے حضور سر بسجود
ہو کر عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا۔ زمانہ جاہلیت کے ظالمانہ رسم و رواج کا
خاتمہ فرمایا۔ انسانوں کو باوقار، پاکیزہ اور پرسکون زندگی گزارنے کا سلیقہ
سکھایا۔ تمام انسانوں کو بحیثیتِ اولاد آدم (علیہ السلام)احترام کے رشتے
میں منسلک کیا۔ خصوصا اہل ایمان کے مابین اخوت و بھائی چارے کو عام کیا۔
نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل فرمایا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ "المومن
کالبنیان یشد بعضہ بعضا و شبک بین اصابعہ" یعنی مومن ایک ایسی دیوار کی
مانند ہیں جس کی ایک اینٹ دوسری کو مضبوط کرتی ہے۔ (پھر مثال دے کر سمجھانے
کیلئے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ
کی انگلیوں میں ڈال کر جال کی طرح بنایا" اس حکمت بھری نصیحت کا بظاہر
مفہوم یہ تھا کہ جس طرح ہاتھ کی ہر انگلی اپنا علحدہ وجود رکھتی ہے۔ لیکن
جب ساری انگلیاں باہم مل جائیں تو ایک مضبوط قوت بن جاتی ہے۔ اسی طرح ہر
بندہ مومن ایک علحدہ وجود کا مالک ہے۔ لیکن لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
کی لڑی میں پروئے جانے کے بعد جب مسلمان یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کی فضا
پیدا کرتے ہیں تو ایک عظیم قوت بن جاتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں نبی پاک صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "المُسلِمُون کجَسدٍ وّاحِد انِ
اش٘تَکٰی عَینُہ اِش٘تَکیٰ کُلُّہ وَ اِنِ اش٘تَکیٰ رأسُہ اِشتکیٰ کُلُہ
(الحدیث) ۔۔یعنی مسلمان ایک جسم کی مانند ہے جب آنکھ میں درد ہوتا ہے تو
سارا جسم بے چین ہوتا ہے ( نہ کہ صرف آنکھ) اور جب سر میں درد ہوتا ہے تو
سارا جسم بے چین ہوتا ہے۔اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی
پیغام لے کر اٹھا کہ جس نےاسلامی بھائی چارے کو عام کیا تو اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة(سورۃ الحجرات 10)"بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی
بھائی ہیں" کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔ یہاں تک کہ خطبہِ
حجۃ الوداع کے موقعے پر (لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا
لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا
أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى) ترجمہ "کوئی فضیلت نہیں کسی
عربی کے لئے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو
کسی کالے پر نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقوٰی کے" کے انقلابی نعرے سے ہر
قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔ یہی وہ حقیقت تھی جسے دینِ اسلام نے پیش کیا اور
جاہلی درجہ بندی کا دروازہ بند کیا۔ اخوت و مساوات صرف نعروں کی حد تک ہی
نہیں تھی بلکہ ایسی حقیقت ہے کہ غیر مسلموں نے بھی اس کا اعتراف کیا
H.G.Wells اپنی شہرہِ آفاق کتاب (A Short History of the World) میں اعتراف
کرتا ہے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were
said before also, and we find a lot of them in Jesus of Nazareth, but it
must be admitted that it was Muhammad صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم who for
the first time in history established a society based on these
principles."
ترجمہ:"اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اور حریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی
بہت کیے گئے ہیں اور ایسے وعظ حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاں بھی ملتے ہیں
۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ
انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم فرمایا"
(جاری ہے)
|