’’شہر خموشاں کے چراغ‘‘ماہ نامہ اشرفیہ کے مدیر مولانا
مبارک حسین مصباحی کے ان مضامین اور اداریوں کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنے
۱۹؍ سالہ عہد ادارت میں داغ مفارقت دینے والی شخصیتوں کو خراج عقیدت پیش کر
نے کے لیے سپرد قلم فر مایا ہے۔
مولانا مبارک حسین مصباحی ایک ذمے دار استاذ، بلند پایہ خطیب اور صاحب طرز
ادیب ہو نے کے ساتھ کہنہ مشق صحافی بھی ہیں۔ بقول سید محمد اشرف مارہرویـ
’’مبارک حسین مصباحی ہمارے ان قلم کاروں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں
جنہوں نے قلم کی حرمت کو ہمیشہ اولیت دی، ان کی کتابیں اور موقر جرائد میں
ان کے مضامین دل چسپی اور سنجیدگی سے پڑھے جاتے ہیں ، سیمیناروں میں ان کے
مقالے توجہ اور رغبت سے سنے جاتے ہیں ۔ان کی کتابوں، مضامین اور مقالات کا
بنیادی مو ضوع ہمیشہ وہ ہو تا ہے جس سے مصنف کا گہرا شعوری تعلق ہو تا ہے۔
معتبر جریدہ ’’ماہ نامہ اشرفیہ‘‘ میں ان کے اداریے اپنے موضوع کی اہمیت اور
تفہیمی انداز کے باوصف بہت مقبول ہیں ‘‘
’’شہرخموشا ں کے چراغ‘‘صرف چند رسمی تعزیتی تحریروں کا مجموعہ نہیں بلکہ
ایک عہد زرین کی تاریخ اور قوم وملت کے ان شاہین صفت ہستیوں کے آفاقی کار
ناموں کی حسین داستان بھی ہے، جنھوں نے اپنے خلوص پیہم ، علم و عمل، عزم و
حوصلہ اور افکار ونظریات سے پوری امت مسلمہ کو فیض یاب کیا۔شہر خموشاں کے
ان چراغوں میں معرفت و طریقت کے سلاطین بھی ہیں ،رازداران شریعت بھی، مسند
نشینان درس وتدریس بھی ہیں اور ارباب فکر وقلم بھی۔’’شہر خموشاں کے
چراغ‘‘علوم و فنون کے مختلف شعبوں سے متعلق متنوع شخصیات کے تذکا رجمیل کا
حسین مرقع ہے۔ کتاب کی فہرست جدید طرزکی ہے، فہرست میں ہر شخصیت سے متعلق
تحریرکا ایک جامع اقتباس بھی پیش کر دیا گیا ہے، جس سے متعلقہ شخصیت کا
اجمالی خد وخال نمایاں ہو جا تا ہے، اوردل میں ان کی عظمت کے دیے روشن ہو
جاتے ہیں۔
کتاب کے شروع میں ۵؍صفحات پر مشتمل مصنف کا ایک دل چسپ اور طنز لطیف سے بھر
پور مقدمہ بھی ہے، جس میں انہوں نے ماہ نامہ اشرفیہ کی ادارت ، نیشنل و
انٹر نیشنل میڈیا کی اہمیت و افادیت، تنظیم ابناے اشرفیہ مبارکپورکے زیر
اہتمام منعقد بین الاقوامی میڈیا سیمینار کے اثرات اور کتاب کے مشمولات پر
روشنی ڈالی ہے۔
مولانا موصوف نے مقدمے میں نیشنل و انٹر نیشنل میڈیا سے متعلق جن مسائل پر
اظہار تشویش کیا ہے وہ یقینا قابل توجہ ہیں ۔ آج عالمی میڈیا کے تمام
شعبوں پر اسلام دشمن طاقتوں کا غاصبانہ قبضہ ہے،اور آئے دن نت نئے انداز
میں اسلام کے خلاف زہر افشانی کی جا رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بر صغیر میں
اسلامی چینلوں کے نام پر غیر اسلامی افکار ونظریات کی اشاعت عام ہے ، جس سے
نئی نسل کا ذہن بڑی تیزی سے متاثر ہو رہا ہے۔ حا لات کا تقاضا ہے کہ قوم و
ملت کے قائدین غفلت کی چادر اتار پھینکیں اور اس تشویش ناک صورت حال سے
نمٹنے کے لیے موثر لائحہ عمل تیار کریں۔ اس تناظر میں تنظیم ابنائے اشرفیہ
کا ’’ میڈیا سمینار‘‘ ایک خوش آئند اقدام ہے جسے بہ نظر استحسان دیکھا
جانا چاہیے۔
۴۸۰؍ صفحات پر مشتمل’’ شہر خموشاں کے چراغ‘‘ میں تقریبا ۵۰؍ جلیل القدر
شخصیات کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، اور ان کی رحلت پر دل کھول
کر آنسو بہائے گئے ہیں۔ تعزیتی تحریروں کا لب ولہجہ غم واندوہ میں اس قدر
ڈوباہوا ہے کہ قارئین کی آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں، اور ہر قاری اپنے آپ
کو بزم تعزیت میں آہ وفغاں کرتا ہوا محسوس کر تا ہے۔ فقیہ عصر شارح بخاری
علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃ والرضوان کے وصال پر لکھے گئے ان
تعزیتی جملوں میں مفارقت کا زخم واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
’’آہ ! اب ہماری سر پرستی کون کرے گا، اب مشکلات میں داد رسی کون کرے گا،
آہ! اب ہماری غلطیوں پر تنبیہ کو ن کرے گا آہ! اب بدمذہبوں کی ریشہ
دوانیوں کا پردہ چاک کون کرے گا؟آقائے نعمت!تمہاری جدائی کا پہاڑ سے بڑا
غم لے کر ہم کس دہلیز پر جائیں؟ تمہاری طرح آنسو پوچھنے والا کوئی نہیں،
تمہاری طرح تسلی کے میٹھے بول بولنے والا کوئی نہیں ، کیا آپ اب دارالافتا
کبھی نہیں آئیں گے؟ کیا آپ کے دروازے پر عصری نشست کی انجمن کبھی نہیں
سجے گی؟‘‘۔
کتاب کی پہلی تحریر دسمبر ۱۹۹۰ء کی ہے جو خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی
کی رحلت پر سپرد قلم کی گئی ہے، جب کہ آخری تحریرمارچ ۲۰۰۹ء کی ہے ، جو
جواں سال صحافی مولانا شکیل احمد مصباحی نائب مدیر ماہ نامہ اشرفیہ کی
اچانک رحلت پر نہایت غم آگیں اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ اکثر تحریریں مختصر
مگر جامع ہیں ۔ شخصیتوں کے اوصاف وکمالات کو نہایت سلیقے سے بیان کیا گیا
ہے، اور ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف بھی کیا گیا ہے۔
خود غرضی ،تعصب پرستی اور نفسا نفسی کے اس دور میں جب کہ ہر کس وناکس اپنے
کو ہی جماعت اہل سنت کا مقتدیٰ اور اسلاف کے علوم وفنون کا تنہا وارث
سمجھنے لگا ہے، علما کی باہمی رقابت اور خانقاہوں کی آپسی چپلقش نے ایک
ہنگامہ محشر بپا کر رکھا ہے۔ ایسے میں اعتدال کی راہ پر چلنا ایک مشکل امر
ہو تا جا رہا ہے۔ لیکن مولانا مبارک حسین مصباحی کا یہ امتیازی وصف ہے کہ
انہوں نے مشربی تنازعات، گروہی تفریقات اور خانقاہی تعصبات سے بالا تر ہو
کر شہر خموشاں کے ان تما م چراغوں کی روشنی قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی
ہے جو کسی بھی جہت سے جماعت اہل سنت کے محسن و مربی ہیں ، خواہ ان کی
وابستگی کسی بھی خانقاہ یا سلسلے سے ہو، بلا شبہہ محسنوں کے احسانات کا
اعتراف زندگی کی علامت ہے۔شاید اسی لیے جہاں سنیت کے ہر گوشے میں کتاب کی
یکساں پذیرائی ہو رہی ہے۔
پاکستان کے مشہور عالم دین اور مفسر ومحقق ضیاء الامت پیر کرم شاہ ازہری نے
’’ضیا ء النبی‘‘ کے نام سے سات جلدوں پر مشتمل سیرت رسول لکھی ہے، اس موضوع
پر اردو زبان میں اہل سنت وجماعت کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں سیرت کے ضروری
گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ زبان وبیان کی چاشنی کے ساتھ عشق رسول کا سوز
وگداز سطر سطر سے عیاں ہے۔ مولانا مبارک حسین مصباحی ’’شہر خموشاں کے چراغ
‘‘میں اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’ عشق رسول کے حقیقی سوزوگداز اور منصب رسالت کے کمالِ ادب واحتیا ط کے
بغیر نہ نعت رسول کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی سیرت نگاری سے عہدہ بر آ ہوا جا
سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی وسلیمان کی سیرۃ النبی اور ابوالکلام آزاد
اور سلیمان منصور پوری وغیرہ کی سیرت کے موضوع پر کتابیں عشق رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے خالی ہیں ، ان میں اکثر مقامات پر مستشرقین سے معذرت خواہانہ
انداز اختیار کیا گیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے ’’ ضیاء النبی‘‘
لکھ کرجماعت اہل سنت کا قرض ادا کر دیا ہے‘‘۔
درج بالا اقتباس مولاناموصوف کی کشادہ قلبی، حق گوئی و بے باکی کا اعلیٰ
نمونہ ہے۔ شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی کی سیرت النبی سے متعلق ان کے ان
الفاظ پر کسی بھی صاحب فہم و بصیرت کو چیں بہ جبیں نہیں ہو نا چاہیے، کیوں
کہ شبلی وسلیمان نے سیرت نگاری کے نام پر مسلمانوں کو گمراہ کر نے کی ناپاک
کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے پُر کھوں کی روش پر چلتے ہوئے تنقیص شان رسالت
کے جو ہتھکنڈے اپنائے ہیں وہ ان کے متعصبانہ ذہن وفکر اور علمی افلاس کے
واضح ثبوت ہیں ۔ ان نام نہاد محققین کی زہر افشانیوں کے چند نمونے پیش کیے
جاتے ہیں ، جن کو پڑھ کر ان کی سیرت نگاری کی حقیقت کا اندازہ لگایا جا
سکتا ہے۔
[۱]سیرۃ النبی: جلد۳،ص:۷۷۴، مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ ، میں لکھتے ہیں:
’’ وہ معجزہ جن میں گدھے، اونٹ، بکری، ہرن، گوہ، بھیڑیے، شیر وغیرہ جانوروں
کے انسانوں کی طرح بولنے یا کلمہ پڑھنے کا ذکر ہے، بروایت صحیحہ ثابت
نہیں‘‘۔
[۲] سیرۃ النبی،جلد:۳، ص: ۷۷۶ میں ہے:
’’ ایک روایت میں ہے کہ آں حضرت کا چہرہ مبارک اس قدر روشن تھا کہ اندھیرے
میں آپ جاتے تو اجالا ہو جاتا، چناں نچہ ایک دفعہ رات کو حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کے ہاتھ سے سوئی گر گئی ، تلاش کی، نہیں ملی۔ دفعتا آپ تشریف
لائے تو چہرہ مبارک کی روشنی سے سوئی چمک اٹھی اور مل گئی ، یہ بالکل جھوٹ
ہے۔
[۳]ص:۴۴۵، ج: ۳ میں ہے:
’’عوام میں مشہور ہے کہ آں حضرت کا سایہ نہ تھا ، لیکن یہ کسی روایت سے
ثابت نہیں ‘‘۔
[۴]سفر شام میں’’ بحیرہ راہب‘‘ سے حضور کی ملاقات اور بحیرہ راہب کی شہادت
کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت نا قابل اعتبار ہے‘‘۔
[۵]ص:۷۷۴، ج:۳ میں لکھتے ہیں :
’’وہ تمام روایتیں جن میں آں حضرت کے معجزہ سے حضرت آمنہ یا کسی اور مردہ
کے زندہ ہو نے کا بیان ہے ، وہ سب جھوٹی اور بنائی ہوئی ہیں‘‘۔
گو یا ان نام نہاد محققین کی نظر میں وہ تمام روایتیں بلا دلیل جھوٹی اور
ناقابل اعتبار ہیں جن سے کسی طرح رسول اللہ کی عظمت وفضیلت ثابت ہو تی ہے،
استاذ اور شاگرد[شبلی وسلیمان]کی ان گل افشانیوں کے پیچھے تنقیص شان رسالت
کا وہی جذبہ فراواں کار فرما ہے جو انہیں اپنے اسلاف سے وراثت میں ملا ہے۔
ورنہ مذکورہ واقعات میں بعض اعلیٰ درجہ کی صحیح حدیثوں سے ثابت ہیں اور بعض
ضعیف روایتوں سے، لیکن شبلی وسلیمان جیسے مصنفین کو اتناتو معلوم ہو نا ہی
چاہیے کہ باب فضائل میں باتفاق جمہور ضعیف حدیثیں بھی معتبر ہیں ۔
شبلی و سلیمان کی ان ہفوات گوئیوں پر چنداں حیرت کی ضرورت نہیں ، کیوں کہ
یہ دونوں تقویۃ الایمانی مکتب فکر کے سر گرم نمائندے ہیں ، جن کی خشت اول
میں اہانت رسول کا گارا شامل ہے ، لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی اہل
سنت وجماعت کے معتقدات کا حامل، اور ایک معتمد دینی ادارے کا فارغ التحصیل
بھی شبلی وسلیمان کی ان مزخرفات پر اپنا قلبی تاثر ان الفاظ میں پیش کرے:
’’ شبلی کی سیرت کے مطالعہ کے بعد نبی کریم کی عظمت دل میں پیدا ہوتی ہے،
اور ان سے لگاؤ کا جذبہ پروان چڑھتا ہے، اور اللہ کی راہ میں آپ کی قر
بانیوں کا اندازہ ہو تا ہے، جس سے آتش حب نبی بھڑک اٹھتی ہے‘‘۔[تبصرہ: شہر
خموشاں کے چراغ، از: مولانا ضیاء الرحمن علیمی، مطبوعہ ماہ نامہ جام نور
دہلی، اکتوبر ۲۰۰۹ئ]
مجھے لگتا ہے موصوف کو شبلی وسلیمان کی سیرۃ النبی کے مطالعے کا شرف حاصل
نہیں ہوا ہے اور سیرۃ النبی کی غائبانہ عقیدت میں سرشار ہو کر یہ تاثرات
قلم بند کر دیے ہیں۔ مولا نا علیمی سے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ شبلی
او رسلیمان کی سیرۃ النبی اور خیر الاذکیاعلامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ
کی معرکۃ الآرا تصنیف’’ تنقید معجزات کا علمی محاسبہ‘‘ کا سنجید گی کے
ساتھ مطالعہ کریں تو حقیقت آپ پر عیاں ہو جائے گی اور آپ کی عقیدت کا شیش
محل خود بخود چکنا چور ہو جائے گا۔
مولانا علیمی کی محدود ذہنیت کا اندازہ ان کے اس اقتباس سے بھی لگایا جا
سکتا ہے:
’’[ شہر خموشاں کے چراغ] میں جس طرح کی فہرست سازی کی گئی ہے اس کے مطابق
گوشہ شارح بخاری کا مستقل عنوان قائم کر نے کی ضرورت نہیں تھی، اور نہ
مستقل نمبرنگ کی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پتہ نہیں کن مقا صد کے تحت مصنف نے خلجان میں
ڈالنے والا منہج اختیار کیا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ علامہ ارشد القادری
کے تذکرے میں بھی اصل تحریر کے علاوہ دوسرے تعزیتی مکاتب شامل ہیں ،لیکن
وہاں منہج فطری اختیار کیا گیا ہے، یہاں گوشہ علامہ ارشدالقادری جیسا نہ
کوئی عنوان ہے نہ مستقل نمبرنگ‘‘۔
مولانا علیمی صاحب!آپ پوری طرح اطمینان رکھیں اور کسی طرح کے کنفیوزن کا
شکار نہ ہوں ۔ یہ دیار حافظ ملت ہے ، یہاں ہر کام مبنی بر خلوص ہو تا ہے،
یوں بھی فر زندان اشرفیہ کا مطمح نظر کام اور صرف کام ہے، شارح بخاری علامہ
مفتی شریف الحق امجدی اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری دونون ہی الجامعۃ
الاشرفیہ کے قابل فخر فرزند ہیں اور جماعت اہل سنت کے محسن ومربی بھی۔
احباب کی محفلوں میں اکثر کہا جا رہا ہے کہ طلبہ مدارس اور نئی نسل کے
فارغین میں اب خاطر خواہ بیداری آرہی ہے، تحریر وقلم کے میدان میں بھی
ہماری نمائندگی ہو نے لگی ہے، جماعتی سطح پر کام کر نے کا جذبہ پیدا ہوا
ہے۔ احباب کے ان خیالات سے ایک حدتک مجھے بھی اتفاق ہے، لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ ادھر چند برسوں میں ان نئی بیداریوں کے بطن سے کئی ایسے قلم کار معرض
وجود میں آئے ہیں جن کے اندر تحقیق و مطالعہ کا رجحان کم اورلکھنے کا شوق
زیادہ ہے۔ اسی غلط رجحان کے نتیجے میں وقفے وقفے سے ایسی تحریریں منظر عام
پر آتی رہتی ہیں ، جن سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو تا ہے۔ تجارتی نقطہ
نظر سے ان تحریروں کی خواہ کتنی ہی اہمیت کیوں نہ ہو، دینی ومذہبی نقطہ نظر
سے ان تحریروں کی حیثیت اخباری تبصروں سے زیادہ کچھ نہیں ہو تی۔
شہر خموشاں کے چراغوں میں بر صغیر ہندو پاک کی مقتدر شخصیتوں کے علاوہ عالم
عرب کے بلند پایہ عالم دین مینارہ حق وصداقت، علامہ سید محمد بن علوی مالکی
رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، جودیار حرم میں مسلک حق اہل سنت وجماعت کے بے باک
نقیب تھے۔ انہوں نے حرم پاک کے وہابیت زدہ ماحول میں بھی حق وصداقت کا علم
بلند کیا۔ آپ کی درجنوں تصانیف آج بھی اہل علم وادب سے داد تحسین وصول کر
رہی ہیں ۔
’’شہرخموشاں کے چراغ ‘‘میں علم وادب کی تین عظیم ہستیوں [معروف فنکشن نگار
سید محمد اشرف مارہروی، مفکر اسلام علامہ قمر الزماں اعظمی، معروف نقاد
وصحافی مولانا خوشتر نورانی] کے تأثرات بھی شامل ہیں ، جن سے کتاب کی
اہمیت دو بالا ہو گئی ہے،کتاب کا سر ورق ذوق جمیل کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ امید
ہے کہ علمی ادبی حلقوں میں کتاب کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جائے گااور شہر
خموشاں کی روشنی قارئین کے راستوں کو دیر تک اوردورتک روشن رکھے گی۔
|