پچھلے کئی دنوں سے ہم سب میڈیا میں FATF نامی چیز کی
بازگشت سن رہے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف ہے کیا ؟
پاکستان کا اس کیا لینا دینا ہے ؟
اور اس موضوع پر سیاسی جماعتوں کی آپس کی کھینچا تانی کے اسباب کیا ہیں ؟
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) عالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی
کی مالی اعانت کے سد باب کا نگران عالمی ادارہ ہے جو 1989 میں قائم ہوا اور
پاکستان اس کا رکن ہے۔
اس ادارے کے زمے ہے کہ وہ حکومتوں کو ایسے اقدامات اور قوانین تجویز کرے جن
پر عمل پیرا ہو کر ممالک اپنے مالی معاملات میں شفافیت لا سکیں اور منی
لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت جیسی چیزوں کا سدباب کو سکے۔
تجویز کیئے گئے اقدامات پر ہونے والے عملدرامد کی بنیاد پر ادارہ مملک کو
تین کیٹیگریز میں تقسیم کرتا ہے۔
بلیک لسٹ
گرے لسٹ
وائٹ لسٹ
بلیک لسٹ ممالک پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری رک
جاتی ہے۔ بینک بین الاقوامی کاروبار کے حقوق سے محروم کر دئیے جاتے ہیں۔
ائیرلاینز پر پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ملک معاشی طور پر تنہائ کا
شکار ہو جاتے ہیں۔
گرےلسٹ میں موجود ممالک کچھ حد تک مالی معاملات چلانے کی اجازت ہوتی ہے
لیکن بین القوامی ٹرازیکشنز پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ گرے لسٹ ممالک کو
بین الاقومی کاروباری ادارے، مالیاتی ادارے اور بینکس مشکوک نظروں سے
دیکھتے ہیں۔
وائٹ لسٹ ممالک کو ہر قسم کے کاروبار، مالی معاملات اور ٹرانزیکشنز کی
آزادی ہوتی ہے اور بین القوامی طور پے ایسے ممالک کو اعتماد کی نگاہ سے
دیکھا جاتا ہے۔ سرمایہ کار پورے اعتماد کے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔
پاکستان کا ایف اے ٹی ایف سے تعلق کچھ ایسا رہا۔
2008 میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔
2010 میں پاکستان گرے لسٹ میں چلا گیا۔
2012 میں دوبارہ بلیک لسٹ
2014 میں پھر گرے لسٹ
2015 میں وائٹ لسٹ
اور 2018 میں مجھے کیوں نکالا کے ساتھ پاکستان کو بھی وائٹ لسٹ سے نکال کر
پچھلے تین سال کی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا اور
بلیک لسٹ کی تلوار تب سے پاکستان کے سر پر لٹک رہی ہے۔
پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوششوں کی قیادت ہمارا ازلی دشمن بھارت
کر رہا ہے۔
2018 میں نئی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک ایف اے ٹی ایف کی تین اجلاس
ہوئے جن میں پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں ڈالنے کا معاملہ ایجینڈے پر
شامل تھا لیکن بہترین سفارتی حکمت عملی اور اقدامات کے سبب پاکستان تینوں
بار بلیک لسٹ میں جانے سے بچ گیا اور FATF کی طرف سے بتائے گئ اقدامات پر
عملدرامد کے لیئے مزید وقت ملتا گیا۔
اب حکومت پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں لے جانے کی کوششوں کو
انجام تک پہنچانے کے لیئے کوشاں ہے۔2018 میں FATF کے بتائے گئے 40 اقدامات
میں سے
1 پر 100 فیصد عملدرامد
9 پر 70 سے 80 فیصد عملدرامد
26 پر 50 فیصد یا اس سے زائد عملدرامد
کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
اور 4 نکات ایسے ہی جن پر بالکل بھی عملدرامد نہیں ہو سکا اور اس کے لیئے
قانون سازی کی ضرورت تھی۔
اب آتے ہیں اس بات پر کہ FATF کے موضوع پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں
آپس میں چپقلش کیوں چل رہی ہے ؟
بنیادی طور پر ان 4 نامکمل معاملات اور عمومی طور پر تمام معاملات کو ٹھیک
کرنے کے لیئے قانون سازی کی ضرورت تھی۔ اور ایک اچھا تاثر دینے کے لیئے
حکومت کی کوشش تھی کہ اپزیشن کے ساتھ مل کر یہ قوانین پاس کروائے جائیں۔
لہذا اپوزیشن سے بات کی گئ۔ لیکن جو جواب آگے سے ملا وہ سن کر ایک شعر یاد
آ گیا۔
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
بندہ لا لوے چھتر تے پا لوے لمیاں
نون اور پی پی کی مشترکہ مذاکراتی ٹیم اس پاکستان کے لیئے عالمی سطح پر
شرمندگی اور مالی مسائل کا باعث اس معاملے پر ووٹ دینے کے بدلے اپنی
فرمائشوں کی ایک لسٹ لے کر آگئ جس کا ون پوائنٹ ایجینڈا اپنی اپنی لیڈرشپ
کے خلاف کرپشن کے کیسز کا خاتمہ تھا۔ مطلب کہ ایک اور این آر او۔
ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں جانے کے لیئے پیش کردہ
قوانین کو ووٹ دینے کے بدلے نون اور پی پی انوکھے لاڈلوں نے کھلین کو
مندرجہ زیل چاند مانگے تھے۔
1۔ نیب قوانین کا اطلاق 16 نومبر 1999 کے بعد سے ہو اس سے پہلے والے تمام
کیسز ختم۔
2۔ منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا اختیار نیب سے واپس لیا جائے۔
3۔ 5 سال سے پرانے کرپشن کے مقدمات کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیئے۔
4۔ 1 ارب سے کم مالی بد عنوانی کو کرپشن کی فہرست سے نکالا جائے۔
5۔ عدالتوں سے اپیلوں کا فیصلہ آنے تک عہدوں سے نا اہل نہ کیا جائے۔
6۔ بینک نادہندگان پر نیب کا کیس بنانے کا اختیار ختم کیا جائے۔
7۔ بیرون ملک اثاثوں کو نیب کے دائرہ کار سے نکالا جائے۔
8۔ آمدن سے زائد اثاثوں کی تحقیق کا اختیار نیب سے واپس لیا جائے۔
مطلب کہ نیب اس کے بعد صرف بندے کی روٹیاں ہی گن سکے اور گھر سے 200 روپے
کا سامان لینے کے لیئے جانے والے بندے کو 20 روپے اپنی جیب میں ڈالنے جیسے
جرائم پر ہی کیس کر سکے۔
مختصر یہ کہ ایسا وقت جب ایک طرف ملکی وقار اور عزت داو پے لگی ہو اور ملک
کو بلیک لسٹ میں ڈالا جانے والا ہو اور اس سے بچنے کے لیئے اقدامات کی
حمایت کرنے کے وقت بھی جو سیاستدان اپنی ذاتی لوٹ مار کو بچانے کے لیئے
کوشاں ہوں اور حکومت کو بلیک میل کریں تو ان کی اس ملک سے وابستگی پر سوال
نہ اٹھائے جائیں تو اور کیا کہا جائے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت نے قومی اسمبلی سے مطلوبہ بل اپوزیشن کے
ووٹوں کے بغیر ہی پاس کروانے کے بعد سینیٹ سے بھی پاس کروا لیئے ہیں۔
جو یقینا قوم کے لیے بہت حوصلہ افزا خبر ہے
|