امن و آشتی اور فکر وخیال سے مزیّن”پہلی بارش“ اور شمّی جالندھری۔۔۔۔پارٹ ٢
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
|
امن و آشتی اور فکر وخیال سے مزیّن”پہلی بارش“ اور شمّی جالندھری افضل رضوی۔ایڈیلیڈ،آسٹریلیا گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔قسط دوم ایک اور نظم میں شمّی نے بڑے واشگاف الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ شاید شعر لکھنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا اس میں استعمال ہونے والے لفظوں کے چناؤ کا ہے۔ کوِتا لکھنا اینا اوکھا نہیں ہوندا جنا اوکھا ہوندا ہے لفظاں دے نال نال چلنا شمّی جالندھری نے بعض نظموں میں خواب اور محبوب کو موضوع بنایا ہے۔ نیند کی حالت میں روح جہاں جاتی ہے اور جو کچھ کرتی، دیکھی اور سنتی ہے دماغ کو اس کی پوری اطلاع ملتی رہتی ہے اور اس اطلاع کو خواب کہہ سکتے ہیں۔ خواب میں انسان بہت سی ایسی باتیں دیکھتا ہے جنھیں وہ جسمانی طور پر نہیں دیکھ سکتا۔شمّی کی شاعری میں یہ تجربہ بہت عمیق ہے۔مثلاً، جب شاعر کو ”سرگھی لَو“میں خواب میں محبوب کا دیدار ہوتا ہے تو اس کی مہک اس کے سانسوں میں رچ بس جاتی ہے۔دیکھیے کس خوب صورتی سے اس کا اظہار کیا گیاہے۔ ہوئی ادھی راتیں سرگھی لَو میرے خاباں چوں جد لنگھی اوہ ساہاں وچ میرے کھلر گئی اوہدے ساہواں دی صندلی خوشبو یہی مضمون ”خوشبو“ میں بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے جہاں شاعر کواب بھی اس خوشبوکا احساس ہوتا ہے جو اس نے خواب میں محسوس کی تھی لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ اب کہ اس خوشبوکا تعلق اس کے دیس پنجاب سے جڑا ہوا ہے۔ میری نیند وچ تیرے خاباں دی حالے وہ خوشبو باقی اے تیرے ہونٹھیں کرے گلاباں دی حالے وہ خوشبو باقی اے میں شاعر آں میری ہستی نوں نہ ونڈ سکیاں اے سرحداں میرے وچ دواں پنجاباں حالے وہ خوشبو باقی اے شمّی کے یہ خوبصورت جب نظم”سُپنے“ میں ٹوٹتے ہیں تو اسے دکھی کردیتے ہیں: نیناں دے وچ سُپنے جمدے جمدے ای کچھ مر جاندے نیں مردے سُپنے نیناں نوں پھیر اتھرو اتھرو کر جاندے نیں دریا بھی شمّی کی شاعری میں ایک علامت بن کر ابھرا ہے۔ وہ راوی، ستلج، جہلم، چناب،بیاس اور سندھ کو اس کے زمینی تعلق سے جوڑ کر اپنے اشعار کی زینت بناتا ہے۔اس تجربے کو اس کی نظم ”چنبے دی راوی“،”میں پنجاب ہاں“ اور ”میں پنجابی“میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، جہاں شاعر کو لمحے لمحے پنجاب کے ندی نالوں، دریاؤں، قصبوں، شہروں اور اس دھرتی کے بزرگوں کا خیال آتا ہے توکبھی وہ وارث شاہ کو یاد کرتا ہے تو کبھی بلھے شاہ کو، کبھی بابا فرید کو تو کبھی بابا نانک کو، کبھی چناب سے باتیں کرتا ہے تو کبھی جہلم سے، کبھی راوی سے مخاطب ہوتا ہے تو کبھی بیاس کو اپنی داستانِ غم سناتا ہے۔کبھی جھنگ کو یاد کرتا ہے تو کبھی لاہور کی بات کرتا ہے اور کبھی جالندھر کو اپنا موضوع بنا لیتا ہے لیکن ان سب کو لانے کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ مقصد پیغامِ اخوت کا ہے، جس میں شاعر کامیاب نطر آتا ہے۔ جاندی اے روز بن ٹھن کے جاندی اے ملن چناب نوں راہے راہے جاندی گل لاؤندی جاوے لہندے تے چڑھدے پنجاب نوں راوی جتھوں جتھوں لنگھے خیراں سبھ دیاں منگے راوی پڑھدی نمازاں ہر پہر تے لیکن ”میں پنجابی“میں شاعر وارث شاہ کے عقیدے کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل عقیدہئ توحید کی بات کرتا ہے،جس کا مطلب ہے کہ ربّ تو ایک ہی ہے جو سب کا خالق ہے اور یہی عقیدہ بابا گورونانک کا بھی ہے۔ مینوں چمیا آن فریدا مینوں عشق دمودر کیتا نانک دی میں اسیں ہاں باہو دا جین سلیقہ بلھے دی صوفی بولنی وارث دا میں عقیدہ شاعر نے روح کا تذکرہ بھی ایک خاص پیرائے میں کیا ہے، یہاں تک کہ اس کے نزدیک یہ لفظ جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا، ان کی بھی روح ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے ان کے چہرے نہ ہونے کے باوجود ان کی پہچان کا احساس ہے۔ یہ بہت گہری بات ہے جس کا ادراک دلِ زندہ کا مالک ہی کر سکتا ہے۔ لفظاں دے چہرے نہیں ہوندے پر پھیر وی ایہناں دی اپنی پہچان ہوندی اے ایہناں دا کوئی جسم نہیں ہوندا پر روح ہوندی اے ایک اور نظم میں شمّی کو شکوہ اور شکایت ہے کہ انسان مادیت میں الجھ کر اپنے آپ کو ربّ سمجھنے لگا ہے، اسی لیے اسے آدمی نظر ہی نہیں آتے کیونکہ ہر کوئی خدا بنا بیٹھا ہے۔اور ان جھوٹے خداؤں کا ایک ہی کام ہے اور وہ دوسروں کے عیب تلاش کرنااور اس کام میں وہ ایسے مگن ہیں کہ تھکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ دوسرے لفظوں میں شاعر نے معاشرے کی بگڑتی صورت پر بہت گہری چوٹ کی ہے۔ ایتھے سارے ہی رب ہوگئے۔ آدمی کدھر ے لبھد انہیں ہر کوئی ہر کسے شخص دے عیب گِن گِن کے تھکدا نہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا کہ شمّی جالندھری کی شاعری میں مختلف علامات ابھرتی ہیں اور کسی خاص سوچ اور فکر کی عکاسی کرتی ہیں۔ کہیں تشبیہات ہیں تو کہیں اشارے کنائے سے بات کی گئی ہے۔ ”رنگ فقیراں“ میں شاعر جب فقیروں کے رنگ ڈھونڈنے نکلتا ہے تو اس کا تخیل اسے ”جھنگ“ کے بیلوں میں لے جاتا ہے جہاں اس کو پنجاب کی لوک داستان کے مرکزی کردار ”ہیراور رانجھا“ فقیری رنگ میں ڈھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں شاعرکی قوتِ پرواز قابل دید بھی ہے اور قابلِ ستائش بھی۔ چل لبھئے رنگ فقیراں جھنگ بیلے رانجھن ہیراں چل لبھئے وچ ہواواں ہو جایئے لیر ولیراں چل سورج بوہے بیٹھئے اگ بھنجئے سرخ شہتیراں شمّی اس سے بھی آگے کی بات کرتا ہے اور وطن کی سرحدوں سے نکل کر آفاقیت کا ترجمان بن کر نمودار ہوتا ہے۔ پکار اٹھتا ہے کہ: میں وساں لاہور جلندھر کونا کونا دنیا اندر ایک جگہ شاعر کو عشق کے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے چنانچہ وہ عشق کا ترجمان بن کر اس کی شان یوں بیان کرتا ہے۔ بناں عشق ادھوری ساڈی سبھ دی کہانی عشق پون عشق مٹی عشق اگ عشق پانی بناں عشق ادھوری ساڈی سبھ دی کہانی ”اکھیاں“ میں ہجر کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور جب عشق اس کے جسم کے ایک ایک جزو کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔ چل آپاں وی قلندر ہوئیے مسجد گرجے مندر ہوئیے تر پئے نانک دیاں پیڑاں دھوڑمٹی رل انبر ہوئیے چل آپاں وی قلندر ہوئیے من تے لکھیاں آیتان پڑھئے چھڈ ہوراں نوں خود نال لڑیئے خود نوں جت سکندر ہوئیے چل آپاں وی قلندر ہوئیے شاعر نہ صرف قلندر ہونے کی خواہش کرتا ہے بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اپنے خوابوں کو بھی ملنگ بنا دیتا ہے۔”فقیریاں“میں اس کا اظہار دیکھیے۔ خیالاں دے چڑھ دے پتنگ وے میرے سُپنے ہوئے ملنگ وے ہوئیاں پھر دیاں باغی نیندراں ڈاہے جدوں دے عشق پلنگ وے ایہہ یاداں وانگ نمازاں دے جان اکھاں بدو بدی بھیڑیاں میر ی روح دا رنگ ہویا جوگیا میرے روم روم فقیریاں نظم”نی دھرتیئے“ مترنم نظم ہے جس میں شاعر نے دھرتی سے خطاب کرتے ہوئے اس کی صفات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ نی دھرتیئے نی دھرتیئے سورج دوالے گھمدیئے تُری جانی اپنی چال توں ؎انبراں دے مکھڑے چمدیئے کتے پانی ایں کتے ریت توں کتے اگدے رزق دا کھیت توں کتے جنگل جنگل ہری بھری کتے برفاں بنی سفید توں پھر ”دھوڑ مٹی“ میں شاعر کی اس دھرتی اور وطن سے محبت دیدنی ہے۔ اوہ راہاں بنیاں دی دھوڑ مٹی ہے حالے وی میرے پیراں ہیٹھ لگی میں سارا ہی جہاں گھم لیا ایہہ مٹی آسمان چم لیا ایس مٹی وچ یاداں بڑیاں قلم دواتاں ہتھیں پھڑیاں حالے وی زبان تے بیٹھیاں نال بیلیاں کتاباں پڑھیاں اوہ راہاں بنیاں دی دھوڑ مٹی ہے حالے وی میرے پیراں ہیٹھ لگی ایک نظم میں پرندے کی زبانی بھائی چارے اور اخوت و محبت کا پیغام دیا ہے جب کہ”زندگی“ میں شاعر کا خیال ہے کہ انسان ہی انسان کا دشمن بن گیا ہے نیز”نانک“میں دل کو صاف کرنے اور کدورتوں کو مٹانے کی بات کی گئی ہے۔ ”عشق کائناتی“ میں شاعرکا خیال ہے کہ اگر انسان حلیم الطبع نہیں تو پھر چاہے وہ ہر روز سبیلیں لگا لگا کر لوگوں کی خدمت کرے یا قرآن اور انجیل پڑھے تو سب بے کار ہے۔ بھاویں لاتوں روز چھبیلاں پڑھ وید قرآن انجیلاں جے پلے نہیں حلیمی ایہہ جھٹیاں سبھ دلیلاں شمّی جالندھری کی شاعری کے بغور مطالعے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اسے پنجابی زبان سے گہری محبت ہے اور وہ اپنے خیالات کو قرینے اور خوب صورت پیرائے میں بیان کرنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ شمّی کے یہاں تشبیہات، استعارات اور علامتوں کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔
|