توصیف احمد خان صحافت کے میدان میں نصف صدی سے زیادہ گزار
چکے ہیں۔
ان کا شمار صحافت میں جدید رحجانات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔
بھٹو دور کے روزنامہ مساوات کے نیوز ایڈیٹر رہے۔
روزنامہ نوائے وقت میں ڈپٹی ایڈیٹر، روزنامہ جنگ لاہور میں چیف نیوز
ایڈیٹر۔
روزنامہ جنگ اور خبریں اسلام آ باد کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جبکہ خبریں گروپ کے
ایگزیکٹو ایڈیٹر کے علاویہ روزنامہ جہان پاکستان کے گروپ ایڈیٹر رہے۔
آپ روزنامہ دن لاہو ر اور روزنامہ اذکار اسلام آباد کے بانی ایڈیٹر بھی رہے
ہیں۔
الیکڑانک میڈیا میں انہوں نے رائل ٹیلی ویژن کے سینئر ڈائریکٹر نیوز جب کہ
پنجاب اور سٹار ایشیاء ٹی وی کے گروپ ایڈیٹر کے طو ر پر کام کیا۔ " سنگریزے
" کے عنوان سے مستقل کالم لکھتے ہیں۔
آج کل آپ کی ساری توجہ تصنیف و تالیف پر مرکوز ہے۔ اہم موضوعات پر ان کی
کئی کتب شائع ہو چکی ہیں اور کئی ایک زیر طبع ہیں۔ کئی کتابوں کے دو سے چار
چار ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ آپ ایک درویش منش انسان ہیں۔
قارئین کرام ! پڑھنے میں مجھے اسلامی اور تاریخی کتب کا شروع سے شوق ہے،
محترم توصیف احمد خان کی جو کتب میں نے باقاعدہ خریدیں اور جو مجھے انہوں
نے محبت سے گفٹ کیں۔
آج سوچا کہ جو کتابیں پڑھی جا چکی ہیں، قارئین ہم سب کے لیے ایک ہی تحریر
میں انکے رشحات قلم کو اکٹھا کرنے کی ایک کوشش کی جائے۔ سو یہ ایک معمولی
کوشش ہے۔
اور ساتھ اپنے احساسات اور معمولی تجزیہ بھی شامل کر کے کیونکہ آپ کی
خوبصورت بصیرتوں کے حضور پیش کیا جائے۔ یاد رہے کہ مصنف کی یہ تمام کتابیں
خالصا علمی بنیاد پر لکھی گئیں ہیں اور علمی اور فکری بحث کے لیے یہ تحریر
لکھی جا رہی ہے۔ جسے پڑھ کے آپ اپنی رائے دیکر راقم الحروف کو شکریہ کہنے
کا موقعہ ضرور عطا فرمائیں گے۔
خدا کا پہلا گھر آخری پیغمبر :
اس کتاب میں اللہ کریم کے پہلے گھر کی ارضی، جغرافیائی، روحانی، آسمانی اور
کائناتی اہمیت کو مدلل انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ علاویہ ازیں نبی کریم ؐ کے
شجرہء نسب خاندان، والدین اور گھرانے کی عرب میں عزت و توقیر پر بھی سیر
حاصل معلومات دی گئی ہیں۔ مصنف نے نہایت سادہ الفاظ میں بڑی عمدگی کے ساتھ
تاریخ اور انسائیکلو پیڈیا، سیرت نگاری اور کردار نگاری کی جامع منظر کشی
کی ہے۔
سیرت النبی ؐ پر یہ کوئی باقاعدہ کتاب نہیں۔ مصنف کچھ عرصہ قبل سفر حج کی
سعادت حاصل کرنے گئے اس دوران مقامات مقدسہ کی زیارت کی تو اللہ تبارک و
تعالیٰ نے انہیں اس پر کچھ لکھنے کی سعادت عطا کی۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر
انعام الحق جاوید نے لکھا جبکہ چار ابواب پر مشتمل اس کتاب کا ہر مضمون
اسکا متن ادبی اسلوب اور ایمان افروز حقیقی واقعات نے کتاب کو یاد گار بنا
دیا ہے۔ کئی دفعہ قاری پڑھتے اپنی آنکھیں نم کر لیتا ہے۔ چونکہ یہ ایک سچے
عاشق رسول ﷺ کی محبت عقیدت اور اکرام کی روائیداد ہے ۔ ابدال بیلا کی " آقا
" جیسی منفرد اور ادب کی چاشنی سی گندھی ہوئی یہ کتاب پڑھنے والوں کا دل
موہ لیتی ہے۔
ان کا نثر ی اسلوب خاص طور پر قابل تحسین ہے ایک ایک لفظ موتیوں کی مالا
میں پرویا ہوا ہے۔
ابتد ا اللہ کے پاک نام سے !
لیبک اللھم لبیک۔۔
حاضر ہوں۔۔ اے اللہ میں حاضر ہوں !
میں اس جگہ حاضر ہوں اے رب کریم ۔۔ جس جگہ کے بارے میں تیرا اپنا فرمان ہے
کہ :
" اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے وہی ہے جو مکہ میں ہے
جو تمام دنیا کے لیے برکت و ہدایت والا ہے " (آل عمران: 96)
میں تیرے اسی گھر میں حاضر ہو گیا۔ یہ حاضری مجھ پر فرض تھی ۔
تو کس قدر رحیم و کریم ہے۔۔ تیری صفات کا احاطہ تو ممکن ہی نہیں ان کی
انتہا تو نظر اور سوچ
کی تمام تر وسعتوں سے باہر ہے اور اتنی باہر کہ اس کے بارے میں خیال کرنا
ہی جنوں کہلائے گا۔
تیری رحمت کب جوش میں آ جائے۔۔ تیرے کرم کی بارش کب برس جائے۔۔ کس کس طرح
بندے پر نچھاور ہو جائے۔۔! کون جانتا ہے۔۔؟
تونے اپنے اس بندے پر کرم کیا اور تیرے اس بندے نے اپنا فرض ادا کر لیا۔
میں نے تیرے اس گھر میں جو کچھ دیکھا۔۔ جو کچھ مجھ تک پہنچا۔۔ اے مولائے
کریم یہی تو میرا
حاصل زندگی ہے۔
بندہ مانگتا ہے اور تو دیتا ہے۔۔ ضرور اور بلاشبہ دیتا ہے۔ تمام تر
نافرمانیوں کے باوجود وہ تیری
رحمتوں سے فیض یاب ہوتا ہے۔۔ بندہ مانگے تو سہی۔۔!
تو تو بن مانگے بھی دیتا ہے اور بے حد و حساب دیتا ہے۔
تو جسے چاہے نواز دے۔۔ جسے چاہے راہ ہدایت پر ڈال دے۔
تو ہی قادر مطلق ہے۔ تیری رضا کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔
اے مولائے کریم ! تیرے گھر میں حاضر تیرا یہ بندہ تو بہت ہی گنہگار۔۔
بہت ہی خطا کار۔۔ بہت ہی تقصیر۔۔ اور بہت سیاہ کار ہے۔
تیرے اس بندے کو اندازہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کا رواں رواں گناہوں میں کس
قد ر لتھڑا ہوا ہے۔
وہ اس دلدل میں کس قدر دھنسا ہوا ہے۔ شا ید اسکا کو ئی حد و حساب ہی نہ ہو۔
تیرے اس بندے کا نامہ اعمال سیاہ پڑا ہوگا۔ فرشتے لکھ لکھ کر تھک چکے ہوں
گے،
گناہوں اور خطاؤں کا پلڑا بہت ہی زیادہ بھاری ہوگا۔
مگر اے معبود حقیقی !
دوسری جانب تیری ذات ہے۔ جس کی رحمتوں کا کوئی حد و حساب نہیں۔
جس کے کرم کا کوئی دوسرا کنارہ ہی نہیں۔ تو مانگنے والے کو سوا دیتا ہے اور
تیرا اپنا فرمان ہے کہ
" میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے۔ "
یہ حسین کاوش چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ بیت اللہ شریف، مسجد الحرام
اور مکہ مکرمہ کی تاریخ، دوسرا حصہ نبی کر یم ؐ کی پیدائش سے مکہ میں قیام
تک، تیسرا حصہ سفر ہجرت سے سفر آخرت پر مشتمل اور چوتھا حصہ غزوات کے بارے
میں ہے۔ اسے نیشنل بک فاونڈیشن اسلام آباد نے شائع کی ہے۔
گریٹر اسرائیل :
اس اہم کتاب میں پاکستان اور عالم اسلام کی توڑ پھوڑ کی سازش کو بے نقاب
کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تمام سازشوں، فتنوں اور ریشہ دوانیوں کے تانے بانے
سے پڑھنے والوں کو آگاہی دی گئی ہے کتاب کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا حصہ میں یہود اور بنی اسرائیل میں فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
دوسرا حصہ میں گریٹر یا عظیم تر اسرائیل کے دعویٰ کی تاریخی حیثیت شامل ہے۔
تیسرے حصے میں اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کا ذکر ہے۔ جو اس قوم کے
لیے مخصوص کر دی گئی تھیں، لیکن یہ قوم ناشکری اور گستاخ ثابت ہوئی۔
چوتھے حصہ میں اسلام اور نبی کریم ؐ کے بارے میں ان کے تعصب اور اسکی
وجوہات درج ہیں۔
پانچواں حصہ ان تنظیموں کے بارے میں ہے جو قاتل ہی نہیں دجالی خیالات کی
حامل اور دجال کے مشن کے سلسلے میں کوشاں ہیں اس اہم حصہ میں خلافت عثمانیہ
کے خلاف سازشوں اور اس کے خاتمہ کے لیے سو سال معاہدہ کا بھی ذکر ہے، اس
معاہدے کے خاتمے کا سال 2023 ء ہے۔
چھٹے حصہ میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور پاکستان سمیت اسلامی ممالک کی
توڑ پھوڑ کے منصوبوں کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔
آخری حصہ اس آخری جنگ کے بارے میں ہے جو حق اور باطل کے درمیان ہوگی، اس
میں امام مہدی ؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد جبکہ دجال کے خروج کے ابواب شامل
ہیں۔ احادیث مبارکہ کے حوالے سے یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ دجال اس وقت کہاں ہے
؟
جسے یہودی ہی نہیں ہندو بھی اپنا دوست قرار دہے رہے ہیں اور اسکی آمد کے
منتظر ہیں۔ موجودہ کرونا تھیوریوں میں ایک تھیوری اسی حوالے سے سوشل میڈیا
پر گردش کرتی رہی ہے۔
یوں تو پوری کتاب ہی دلچسپ واقعات سے بھرپور ہے۔
ایک واقعہ پاکستانی صدر یحییٰ خان کے متعلق ہے جو کچھ یوں ہے کہ
پہلی سربراہ کانفرنس 1969 ء میں مراکش کے دارالحکومت رباط میں بلائی گئی
جہاں شاہ حسن، پوری اسلامی دنیا کے میزبان تھے۔ یہ کانفرنس 24 ستمبر 1969 ء
کو شروع ہوئی تو میزبان ہی نہیں سارے اسلامی سربراہوں کو ایک عجیب صورتحال
کا سامنا کرنا پڑا بلکہ سب پریشان ہو کر رہ گئے کہ اس معاملے کو کیسے
سنبھالا جائے کیونکہ یہ انتہائی حساس اور سنگین نوعیت کا تھا۔
یہ معاملہ کیا تھا۔۔؟
جب کانفرنس ہال سجا اور اس میں سربراہوں کی آمد شروع ہوئی تو بھارتی وفد
بھی وہاں موجود تھا۔ بھارت نے ساری اسلامی دنیا کے منہ پر اس طرح سے طمانچہ
مارا کہ اس نے اپنے وفد کی سربراہی ایک سکھ کے حوالے کر دی۔ مراکش میں
بھارت کا سفیر گوربچن سنگھ بھارتی وفد کو لیے کر بڑے طمطراق کے ساتھ
کانفرنس ہال میں بیٹھا تھا۔ دوسری جانب مسلم سربراہ بھی آ رہے تھے۔
سعودی عرب کے شاہ فیصل، ایران کے شاہ رضا شاہ پہلوی، اردن کے شاہ حسین سب
پہنچ گئے۔ پاکستانی وفد کی سربراہی جنرل یحییٰ خان کر رہے تھے، وہ بھی ہال
میں داخل ہوئے اور اپنی نشست پر بیٹھ کر وفود پر نظر ڈالی تو اسکی نگاہ
بھارتی وفد پر ٹک سی گئی۔ وہاں ایک سکھ کو بیٹھے دیکھ کر اس کا چہرہ غصے سے
سرخ ہو گیا، وہ اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام وفود اور مندوبین کو
مخاطب کرتے ہوئے بولے۔۔" میں اس شخص کے ساتھ کیسے بیٹھ سکتا ہوں جس کے ہاتھ
مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ "
اتنا کہہ کر یحییٰ خان نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا اور اشتعال کے عالم سے
باہر نکل گئے۔ تمام سربراہ حیران و پریشان ہوئے تھے کہ یہ کیا ہو گیا۔ یکے
بعد دیگرے سب نے یحییٰ خان کو منانے کی کوشش کی مگر اس نے کسی کی بات ماننے
سے صاف انکار کر دیا۔
تب مراکش کی حکومت حرکت میں آئی اس نے فوری طور پر گوربچن سنگھ کو
ناپسندیدہ شخصیت قرار دیکر ملک سے چلے جانے کا حکم دیدیا جبکہ بھارتی وفد
کو بھی کانفرنس ہال سے نکال دیا گیا۔ پھر یحییٰ خان بڑے طمطراق اور فخر سے
کانفرنس میں واپس آئے۔
یوں اس واقعہ کی بناء پر یحییٰ خان نے پاکستانیوں کے ہی نہیں پوری اسلامی
دنیا کے دل جیت لیے۔
یہ کتاب نگارشات پبلشرز لاہور نے شائع کی۔
قیامت کب آئے گئی:
قیامت عربی کا لفظ ہے جس کے معنی کھڑا کرنا ہے۔ اس روز ان سب کو پھر کھڑا
کر دیا جائے گا۔ یا زندہ کر دیا جائے گا۔ جو وفات پا چکے تھے اور انکی
ہڈیاں تک مٹی کا حصہ بن چکی تھیں۔
ان میں اکثر کا دعویٰ تھا کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ
انہیں نہ صرف زندہ کر دے گا بلکہ وہ اس دن کی سختیوں کو برداشت کریں گے اور
جہنم کی آگ ان کا مقدر ہوگی جب کہ اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسولوں پر
یقین رکھنے والوں کو جنت اور اس کے محل فراہم کیے جائیں گے۔
قرآن کریم میں مولا پاک نے قیامت یا یوم قیامت کو کئی نام دیے ہیں، اسے سب
سے زیادہ جس نام سے پکارا گیا ہے وہ یوم الدین ہے۔ یہ نام قرآن پاک کی پہلی
سورت یعنی الفاتحہ کی آیت نمبر تین میں سب سے پہلے آیا ہے۔ یہ سورت قرآن کا
دیباچہ کہلاتی ہے
اور اسے پڑھے بغیر نماز کی کوئی رکعت مکمل نہیں ہوتی۔ قیامت کے قیام یا
قیامت آنے کے بارے میں کوئی فرد یا بشر کچھ نہیں کہہ سکتا، یہ اللہ تعالیٰ
کے معاملات ہیں اور وہی اس کے بارے میں جانتا ہے۔
ویسے تو ایک انسان جس وقت اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، اس کے لیے وہی یوم
قیامت ہو تا ہے کیونکہ پھر بندوں اور اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات سے اس کا
معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ پھر اس کا معاملہ صرف اور صرف اپنے رب سے ہوتا ہے۔
اس کے لیے اس وقت جزا و سزا کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے۔کیونکہ اللہ کے مقرر
کردہ فرشتے اس سے تفتیش کے لیے قبر میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے لیے وہ قیامت
تو ہو سکتی ہے، یوم حساب نہیں ہو سکتا۔ یوم حساب تو وہی ہو گا جس کا اللہ
نے اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے۔ یہ وہ دن یا وقت ہوگا جب " میزان عدل "
قائم کی جائے گی۔
رسول اللہ ؐ نے قیامت کی دس بڑی نشانیاں بتائی ہیں۔ یہ تمام نشانیاں ابھی
تک وقوع پذیر نہیں ہوئیں تاہم اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک یہ سب کی
سب پوری نہیں ہو جائیں گی۔ احادیث مبارکہ کو دیکھیں تو یہ نشانیاں کافروں
اور مشرکوں کے لیے ہلاکت خیز ہو ں گی۔ آپ ؐ کی بیان کردہ ان دس علامات میں
دھواں، دجال دابتہ الارض کا خروج، سورج کا مغرب سے طلوع، سیدنا حضرت عیسیٰ
ؑ بن مریم کا نزول، یاجوج و ماجوج، زمین کا تین جگہ سے دھنسنا، ایک دھنستا
مشرق، ایک مغرب اور ایک جزیرۃ العرب میں اور آخر میں یمن سے آگ نکلنے کا
ذکر فرمایا۔ ایک اور روایت میں دسویں علامت کے طور پر سیدنا حضرت عیسیٰ ؑ
بن مریم کا نزول ہے جبکہ ایک نے کہا کہ وہ آندھی ہے جو لوگوں کو سمندر میں
ڈال دے گی۔ بہر طور بہت سے بزرگوں نے علامت قیامت کو تین حصوں میں تقسیم
کیا ہے۔
ان میں علامات بعیدہ یعنی ایسی علامتیں جو بہت پہلے وقوع پزیر ہو چکی ہیں۔
پھر علامت صغریٰ یا علامات متوسط ہیں جو وقوع پزیر ہو رہی ہیں یا ہونے والی
ہیں۔ تیسری اور سب سے اہم قسم علامات کبریٰ ہیں یہ علامات قیامت سے کچھ ہی
دیر پہلے بالکل آخری زمانے میں ظاہر ہوں گی۔
مصنف کے بقول اس کتاب کی تیاری کے لیے قرآن پاک کی تفاسیر، احادیث مبارکہ
کی کتب اور سیارہ ڈائجسٹ کے آثار قیامت نمبر سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ
بھی نگارشات پبلشرز نے شائع کی۔
مساجِد مدینہ:
مساجد مدینہ بھی محترم توصیف احمد خان کی انتہائی عمدہ تحقیقی کاوش ہے۔ یہ
کتاب مساجد مدینہ کے تعارف کا احاطہ کرنے تک محدود نہیں بلکہ تاریخ اسلام
کا ایک دل نشین باب بھی ہے۔ اس میں مساجد مدینہ کی وساطت سے زمانہ رسول ؐ
کا ماحول اطہر، صحابہ کرام رضی اللہ علہیم کا مختصر تعارف، قبائل مدینہ کا
تزکرہ، مدینہ منورہ کے اسمائے مبارک کا ذکر بھی موجو د ہے۔ مصنف نے قاری کو
سیاحت، تاریخ تہذیب اور تمدن جیسے پہلوؤں سے نہایت خوبی سے متعارف کرایا
ہے۔ عمرہ و حج کی سعادت کے لیے حجاز مقدس جانے والے احباب کے لیے یہ نہایت
مفید تحفہ ہے۔ (اقتباس: پیش لفظ از ڈاکٹر انعام الحق جاوید)
آج کے مدینہ منورہ میں مساجد کی تعداد شاید سینکڑوں سے بھی زیادہ ہو مگر ہم
رسول اللہ ﷺ کی آمد سے قبل کے دور کو دیکھتے ہیں تو اس وقت تک یہاں نماز کی
ادائیگی کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ مکہ میں تو کفار اور مشرکین کی
چیرہ دستیوں کے سبب با جماعت نماز کی ادائیگی ممکن نہیں تھی لہذا کسی مسجد
کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مسلمانوں نے عموماً اپنے گھروں
میں ہی نماز ادا کرنے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ مدینہ شہر میں سب سے پہلے
تعمیر ہونے والی مسجد نبوی ؐ تھی، البتہ اس شہر میں جس مقام کو نبی کریم ؐ
کی سب سے پہلی نماز کا شرف حاصل ہوا وہ بنی سلمہ کی بستی تھی۔ آپ ؐ نے جس
جگہ نماز ادا کی وہاں بعد میں مسجد تعمیر کر دی گئی جو مسجد جمعہ کہلاتی
ہے۔ کیونکہ نبی کریم ؐ نے اس جگہ جمعہ کی نماز ادا کی تھی۔ مکے کے مسلمانوں
کے برعکس مدینے کے مسلمانوں کو اعزاز حاصل تھا کہ وہ اس سے پہلے بھی نماز
جمعہ ادا کیا کرتے تھے، جبکہ مکے میں اس کا بندوبست نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کتاب میں جن مساجد کا ذکر ہے وہ سب نبی کریم ؐ کی حیات میں تعمیر نہیں
ہو گئی تھیں۔ ان میں سے بہت سی مساجد بعد میں تعمیر کی گئیں۔ البتہ کتاب
میں جن مساجد کا ذکر ملتا ہے ان کی کسی نہ کسی حوالے سے رسول اللہ ؐ کے
ساتھ نسبت ہے کہ آپ ؐ نے کسی نہ کسی وقت میں اس جگہ نماز ادا کی لہذا ان
محترم اور مقدس مقامات کو مسجد کا درجہ دے دیا گیا۔ مدینہ میں ایسی قریبا
تیس مساجد کا ذکر ملتا ہے ان میں سے بعض آج بھی موجود ہیں مگر کچھ کا وجود
برقرار نہیں رہ سکا اور وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ بہر طور ان موجودہ
مساجد تک کے رسائی کے راستے اور ان کی تصاویر نے اس کتاب کو ایک نرالی شان
عطا کر دی ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے شائع کی اور اسکی ویب سائٹ
پر موجود سینکڑوں بک سٹالز پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔
سچی پیش گوئیاں:
حضرت نعمت اللہ شاہ ؒ مقرب بزرگ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ولی تھے۔ جن کا دور
چھٹی صدی ہجری یا بارہویں صدی عیسوی ہے۔ انہوں نے اشعار کی شکل میں مستقبل
کی جو تصویر دکھائی ہے اس کی ابتداء دونوں صدیوں کے قریبا نصف میں ہوئی، جن
کی تکمیل کا حصہ دو عشروں سے زیادہ ہے۔
آپ کا اصل نام نور الدین تھا جن کا خاندان علم و عرفان میں اہم مقام رکھتا
تھا۔ ان کے شجرہ نسب کو دیکھیں تو وہ حضرت علی ؓ سے جا ملتا ہے۔ بعض کے
نزدیک وہ کشمیری تھے کچھ انہیں شامی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک سو پانچ
سال عمر پائی۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کے مستقبل کے حوالے سے دو
ہزار سے زائد اشعار کہے، جن میں اس وقت قریبا تین سو دستیاب ہیں۔
یہ وہ اشعار ہیں جو انہوں نے اپنے مستقبل اور ہمارے ماضی کے حوالے سے کہے۔
یہ اشعار حرف بحرف درست ثابت ہوئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے حکمرانوں کے جو نام دے
دیے وہ بھی اپنی جگہ اٹل تھے۔ بہرحال اتنی سچی پیش گوئیوں پر مشتمل اشعار
کو موجودہ دنیاوی تناظر میں دیکھنا سمجھنا اور لکھنا بہت حوصلہ اور ہمت کا
کام ہے۔ اور یہ وہی کر سکتا ہے جو اعلیٰ عبقری ادراک کا مالک اور فکر فردا
کی روشنی رکھتا ہو۔
یہ کتاب انتہائی حیرت انگیز اور علمی فکری بحث کے در وا کیے ہوئے ہے۔
چند ابواب کے عنوانات سے قا ری اس کتاب کی افادیت کو سمجھ سکتا ہے۔ جیسے کہ
بھارت پر قبضہ۔ جنگ کیسے اور کون لڑے گا۔ تیسری عالمی جنگ اور برطانیہ کی
مکمل تباہی۔ ظہورِ مہدی ؑ۔ خروجِ دجال اور آمد ِ عیسیٰ ؑ، ترکی کا مستقبل
اور خلافت کی بحالی، عدلیہ کی لڑائی، جاہل علما اور بے حیا لوگ۔ اسلامی
ممالک میں تباہی: ظہورِ مہدی ؑ تک سلاطین ایران۔ مغل، سکھ اور انگریز کی
آمد۔ بنتا بگڑتا پاکستان۔وغیرہ
غَزوہ ہنِد:
فکر فردا کے حامل اسلامک دانشوروں کے لیے یہ ایک اہم کتاب ہے۔ خصوصا
پاکستان سے محبت کرنے والے اور اسلامی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے
یہ کسی تحفہ سے کم نہیں۔ ا س میں غور و فکر کے بے شمار زاویے، نشانیاں اور
جہتیں ہیں۔ اصل موضوع یعنی غزوہ ہند کے علاویہ دیگر معاملات پر بھی کسی حد
تک روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور ممکنہ حد تک احادیث مبارکہ کی روشنی سے استفادہ
کیا گیا ہے۔
سورۃ الکہف کے قصے:
دین متین سے رغبت، خشیت الٰہی اور تفہیم قرآن سے دلچسپی ایسے اوصاف نے بھی
توصیف احمد خان کے اسلوب کو سادہ و دلکش اور پُر اثر بنانے میں اہم کردار
ادا کیا ہے۔ صاحب ِ کتاب کے یہ اسلوبی اوصاف ان کی تحریر میں برملا اور
نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اصحاب کہف اور دیگر واقعات کو ان کے
تاریخی حقیقت، تدریجی اہمیت اور اسکے اثرات و ثمرات کی روشنی میں اس طرح
بیان کیا ہے کہ پڑھنے والا ایک ایک سطر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کتاب میں اصحاب کہف کے تعارف انکی طویل نیند اور وفادار کتے کی کہانی ہی کا
احاطہ نہیں کیا گیا، بلکہ اس واقعے سے جڑے دیگر واقعات کو بھی نوک قلم کے
زریعے قارئین تک پہنچایا ہے۔ اس میں واقعات کا تسلسل بھی ہے اور عمدہ اظہار
بیان بھی، اسلوب کے بنیادی اوصاف بھی ہیں اور حکمت خداوندی کے مظاہر بھی۔
قرآنی واقعات اور تاریخ انسانی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب ایک
انمول تحفہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ٍ
محترم توصیف احمد خان کی مزید دو کتابیں " آدھا پاکستان " اور " یثرب سے
مدینہ تک " بھی قارئین اردو ادب سے داد و تحسین پا چکی ہیں۔ لیکن وہ اس وقت
دستیاب نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ تک نہ پہنچ سکیں۔ ورنہ وہ بھی شامل
تحریر ہوتیں۔ |