بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور علاقائی امن

امریکی صدر بارک حسین اوباما نے نئی دہلی کو اس امر کی پختہ یقین دہانی کرائی ہے کہ واشنگٹن پاکستان کو بھارت کے خلاف استعمال کے لیے ہتھیار فراہم نہیں کرے گا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا، جب واشنگٹن نے بھارت کی حمایت کرتے ہوئے زمینی حقائق اور بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کو نظرانداز کیا ہو۔ انہوں نے بحرِ ہند میں بھارت کی جانب سے فوجی تیاریوں کو بھی نظرانداز کر رکھا ہے۔ یہ 7 مئی 2009ءتھی جب صدر اوباما نے اوول آفس میں ملاقات کے دوران صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو کہا کہ امریکا بھارت کے خلاف پاکستان کو مسلح کرنے میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل بھارت کو مسلح کر کے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے میں کردار ادا کررہے ہیں۔ اس منظرنامہ میں بڑے دعوؤں کی گونج پھر سنائی دے رہی ہے جس کے نتیجے میں یہ خدشات اور شبہات سر اٹھا رہے ہیں کہ اس سے اسلحہ کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔

اگنی سیریز کے بیشتر میزائل کی ناکامی اور بھارتی مسلح افواج کو صرف اگنی I اور اگنی II دیے جانے کے باوجود نئی دہلی نے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا کہ وہ جلد درمیانہ فاصلہ تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل اگنی IV کا پہلا تجربہ کررہا ہے۔ اگر تمام معاملات معمول کے مطابق مکمل ہوجائیں تو 5000 کلومیٹر رینج کے حامل ہتھیار کا تجربہ کیا جاسکے گا۔ تاہم شاید بھارت وزیرِ دفاع اے کے انتھونی اسلام کو اپنی فوجی قوت سے متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اگنی V تیسرے مرحلہ تک بھی نہیں پہنچ سکا ہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ یہ میزائل مارچ 2011ءتک تیار ہوجائے۔ اس امر کی رپورٹس موجود ہیں کہ میزائل کی ہیٹ شیلڈ (Heat-Shield) کو جوڑنے میں سنجیدہ مسائل درپیش تھے۔ انڈین وزارتِ دفاع کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ نئی دہلی کی جانب سے اگنی III کے معمول کے شیٹ مکمل ہونے اور اس کو بھارت کے نیوکلیئر فورس اسٹرکچر میں شامل کرنے کے دعوے کے باوجود حقیقتاً اس کی مستقبل قریب میں شمولیت ممکن نہیں ہے۔

حال ہی میں انڈین اسٹرٹیجک فورسز کمانڈ (ایس ایف سی) نے جنگجو طیاروں کے دو مخصوص اسکواڈرنز کے قیام کے لیے وزارتِ دفاع کو ایک تجویز بھجوائی ہے۔ تجویز میں ان اسکواڈرنز کو ”منی ایئرفورس“ کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ مسلم اکثریتی اندمان نکوبار جس پر پاکستان کا دعویٰ ہے اس تجویز پر خاموش نہ رہ سکی۔ دوسرے الفاظ میں انڈین اسٹرٹیجک فورسز کمانڈ (ایس ایف سی) کو ایسے طیاروں سے لیس کیا جائے گا جو ایٹمی میزائل پھینکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، ان طیاروں کے اسکواڈرنز کے قیام کا مقصد ایٹمی ہتھیار پھینکنے کی صلاحیت مضبوط کرنا ہے جو کہ فی الوقت زمین سے مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں تک محدود ہے۔ اس میں اگنی اور پرتھوی میزائلز اور ایٹمی صلاحیت کے طیاروں جیسے میراج 2000، ایس یو 30، ایم کے آئی اور جیگوارز تک محدود ہے۔

یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ بھارت امریکی دباؤ پر ایس ایف سی کا قیام عمل میں لایا جو کہ نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کا حصہ اور ملک کے ٹیکٹیکل اور اسٹرٹیجک ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرہ کی مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کی ذمہ دار ہے۔ بحریہ کے لیے بھارت اری ہنت کلاس ایٹمی آبدوز اور موجودہ بیلسٹک میزائل سسٹم زیرِ آب چلائے جانے والا ورژن تیار کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ان اقدامات کے باوجود ایس ایف سی کی سربراہی کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل بی ایس ناگل انتہائی خوش نہیں ہیں کیوں کہ یہ ترقیات صرف کاغذ تک محدود ہیں، انہیں عملی شکل دینے میں کئی برس درکار ہوں گے۔ اسرائیل نے پاکستان، ایران اور افغانستان کے خلاف استعمال کے لیے بھارت کو بغیر پائلٹ والے حملہ آور طیارے فراہم کردیے ہیں۔ تاہم ڈی آر ڈی او نے ایک نیا پروجیکٹ شروع کردیا ہے۔ ایروناٹیکل ڈیولپمنٹ ایجنسی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر پی ایس سبرامنیانن نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ریورس انجینئرنگ ابتدائی مراحل میں ہے۔

پاکستان بھارت کی ان کوششوں کو کس رخ سے دیکھے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پاکستان پہلے ہی ایک ایٹمی طاقت ہے اور کسی بھی بھارتی حملے کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہرکیف، بھارت کے ایٹمی ہتھیار اتنے مؤثر نہیں ہیں جتنے کہ پاکستانی۔ بھارت کی جانب سے کسی حملے کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے ملک پر کم از کم ایک حملہ ضروری ہوگا۔ پچھلے ہفتہ ایک پاکستانی تجزیہ کار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند مضبوط ہورہے ہیں۔ خدا نہ کرے اگر ان انتہا پسندوں نے بھارتی ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول سنبھال لیا تو پورا خطہ ایسی تباہ کن صورتِ حال کا سامنا کرسکتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حال ہی میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کیس پر ہونے والے فیصلے نے بھی انتہا پسند ہندوؤں کو مضبوط کیا ہے۔ کئی ہندو انتہا پسند تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں سے ایسی تمام متنازع مساجد اور مذہبی مقامات کو واپس کرنے کا مطالبہ کردیا ہے جس پر طویل عرصہ سے اختلافات چل رہے تھے۔

یہ واشنگٹن اور تل ابیب ہیں جو بھارت کو اپنے سے بڑے سائز والے ملک چین سے برابری کی بنیاد پر بات کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ نئی دہلی پاکستان کے خلاف بھی طویل جنگ کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی ایٹمی استعداد نے نئی دہلی کو مجبور کیا کہ وہ مہذب طریقے سے گفتگو کرے، حالاں کہ مغربی قومیں دونوں ممالک کے درمیان طاقت کا توازن خراب کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے لیڈروں کو بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے کسی جال میں پھنس کر جنوبی ایشیائی خطے کو دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک مقام بنانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔.
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77871 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More