امریکا پاکستان کی قیمت پر اپنے مفادات حاصل کرلگا

امریکہ نے دو قوموں کو مشترکہ طور پر ” ایف پاک“ (Afpak)کی حیثیت دی ہے ایک ایٹمی قوت ہے تو دوسرا پسماندہ ‘ ایک کی آبادی 175 ملین اور مجموعی قومی پیداوار 166 ارب ڈالر ہے تو دوسرے کی آبادی صرف 28 ملین اور خواندگی کی شرح 30 فیصد ہے‘ جہاں تک اس کی اقتصادیات کا تعلق ہے تو افیون کی تجارت سے حاصل ہونے والی رقم شامل نہ کی جائے تو 13 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں‘ایک اسامہ بن لادن اور ان بچے کھچے دہشت گردوں کا نیٹ ورک ہے جس پر 9/11 کے حملوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ دوسرے ملک میں 100,000 امریکی فوجی القاعدہ کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

اس وقت یہ تصور ختم ہوگیا ہے کہ پاکستان افغان جنگ میں حقیقی” انعام“ ( کشش کا اسٹرٹیجک مرکز) ہے‘ باب ووڈ ورڈ نے اپنی کتاب” اوباماز وار“ (Obama,s War) میں بیان کیا ہے کہ جب قومی سلامتی کے مشیر جم جونز نے گزشتہ برس اس خطہ کو ” پاک ایف“ (Pak Af) کی حیثیت سے حوالہ دینے کی تجویز دی تو پاکستانیوں نے فوری طور پر اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ پاکستان اصل مسئلہ ہے‘ کوئی بھی اپنے پاکستانی حلیفوں کو اپ سیٹ نہیں کرنا چاہتا۔

پاکستان سے امریکی تعلقات میں امداد کو اہمیت حاصل رہی ہے‘ شاید اس لئے کہ ہمارے پاس وافر ڈالرز موجود ہیں‘ پاکستانی آمر جنرل پرویز مشرف کو ہماری غیر مشروط حمایت کے باوجود طالبان کے خلاف قابل ذکر تعاون نہیں ملا‘ ہم نے آمرانہ حکومت کی جگہ لینے والی جمہوری حکومت پر ڈالر نچھاور کردیئے جسے 7.5 ارب ڈالر کی خطیر امداد فراہم کی گئی‘ امریکی جنرلوں نے پاک فوج کی بہت تعریفیں کیں جس نے سوات اور جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی میں بڑے پیمانے پر قربانیاں دیں‘ انہیں عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کا دائرہ جنوبی وزیرستان تک وسیع کرنے کے لئے کیا گیا جو کہ افغانستان کے خطرناک ترین باغی گروپوں میں سے ایک حقانی نیٹ ورک کی پناہ گاہ ہے تاہم اس درخواست کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا‘ امریکی اور پاکستانی سفارتکار اپنے مشترکہ دشمن کےخلاف کاروائی کا عزم ظاہر کرتے ہیں‘ دوسری جانب پاکستان کے صدر آصف علی زرداری متعدد مرتبہ اپنی مقتول اہلیہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں انتہا پسندوں کو ملوث قرار دے چکے ہیں تاہم وہ اپنے انتہا پسندوں پر انحصار کررہے ہیں۔

رواں ماہ پیش آنے والے واقعے نے یہ واضح کردیا کہ امریکہ آنے کا مشتاق کیوں تھا‘ ایک امریکی ہیلی کاپٹر کے سرحد پار اتحادی فضائی حدود میں گھس کر حملہ کرنے سے سرحدی آؤٹ پوسٹ کے 2 سیکورٹی ارکان کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد نے افغانستان جانے والی مرکزی کراسنگ بطور احتجاج بند کردی‘ افغانستان میں اتحادی فوجوں کے لئے تین چوتھائی غیر ملک سپلائی پاکستان کے راستے پہنچتی ہے‘ کراسنگ پوائنٹ بند ہونے کے باعث وہاں ایسے ٹرکوں کا ہجوم جمع ہوگیا جوسرحد پار نہیں کرسکے اور آسان ٹارگٹ بن گئے‘ عسکریت پسندوں نے 100 سے زائد فیول ٹینکروں کو نذر آتش کرکے تباہ کردیا جبکہ پاکستانی حکام بڑی تعداد میں خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔

سپلائی روٹس میں رکاوٹ ڈالنا حصول مقصد کا اتنا مضبوط ذریعہ نہیں جسے پاکستان برداشت کرسکے‘ ہائی ٹیک ڈرون کی جنگ جس کے نتیجے میں گزشتہ 9 ماہ کے دوران القاعدہ کے 17 اعلیٰ کمانڈروں کو ہلاک کیا جاچکا ہے‘ ٹارگٹنگ کے لئے اس کا بیشتر انحصار پاکستانی انٹیلی جنس پر ہے‘ تاہم اسلام آباد عوامی سطح پر ڈرون حملوں میں اپنا کردار تسلیم نہیں کرتا اور شہریوں کی ہلاکت پر زیادہ بلند آواز میں احتجاج کرتا ہے‘ تاہم اس کے نتیجے میں سی آئی اے کے ڈرون حملے بند نہیں ہوسکتے۔

امریکی کانگریس کو 4 اکتوبر 2010 کو بھیجی گئی رپورٹ میں اوبامہ انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے کہ پاک فوج مسلسل ایسی فوجی کاروائی سے گریز کررہی ہے جس کے نتیجے میں اس کا جنوبی وزیرستان میں افغان طالبان یا القاعدہ فورسز سے براہ راست ٹکراؤ ہوسکتا ہے‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کا ایک سبب ”سیاسی پسند“ (Political Choice) ہوسکتی ہے‘ پاک فوج طویل عرصہ سے حقانیز جیسے افغان باغیوں کو برداشت کررہی ہے جو براہ راست صرف افغانستان میں حملے کررہے ہیں‘ دوسرے گروپ جس میں ملا محمد عمر کی قیادت میں ” کوئٹہ شوریٰ“ شامل ہے وہ اسلام آباد کی انشورنس پالیسی ایجنٹس ہیں‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امریکہ اپنی فوجوں کی بڑی تعداد افغانستان سے واپس بلوا لے گا تو وہ پاکستانی مفادات کا تحفظ کریں گے‘ نیوز ویک کی اس رپورٹ کے باوجود پاکستان شدت کے ساتھ اس امر کو مسترد کرتا ہے کہ وہ کسی بھی عسکریت پسند گروپ کی حمایت کررہا ہے۔

جنرل ڈیوڈ پیٹریاس جنہیں افغان جنگ کا نقشہ تبدیل کرنے کا ہدف دیا گیا تھا انہوں نے اپنی توجہ جنوب میں طالبان کے مضبوط گڑھ میں امریکی فوجوں کو جمع کرنے پر مرکوز کر لی ہے‘ اس کے نتیجے میں مشرقی حصہ کمزور ہوگیا ہے‘ ایک امریکی افسر نے انٹیلی جنس امور پر گفتگو کرتے ہوئے رازداری کی شرط پر بتایا کہ باغی آزادانہ طور پر سرحد پار آجارہے ہیں جس کے نتیجے میں امریکی فوجی حملوں کی زد میں ہیں‘ پیٹریاس کو ان فوجیوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے‘ انہیں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ دسمبر تک اپنی کامیابیوں کا اظہار کریں جب امریکی انتظامیہ جنگ کی صورتحال کا جائزہ لے کر اگلے موسم بہار تک فوجوں کی واپسی پر غور کرے گی۔

پاکستانی حدود میں امریکی ہیلی کاپٹروں کا حملہ پاکستان کے لئے سرخ لکیر تھا جو کہ امریکی بے صبری کی ایک علامت بھی ہے‘ اسی لئے سی آئی اے نے ڈرون حملوں میں تیزی پیدا کردی ہے‘ پچھلے ماہ ریکارڈ 22 ڈرون حملے کئے گئے‘ بعض حملوں کے نتیجے میں یورپ میں دہشت گردی کی سازش ناکام بنادی گئی‘ دوسرے حملوں میں حقانی کمانڈروں اور جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔

اسلام آباد کی دلیل یہ ہے کہ حقانی جیسے پشتون باغیوں کی جنگ کے خاتمے کےلئے مذاکرات میں ضرورت پیش آئے گی‘ امریکی نقطہ نظر اس سے مختلف ہے‘ پیٹریاس نے عراق میں سنی باغیوں سے مذاکرات سے قبل ان کے ٹھکانوں پر زبردست بمباری کی‘ نکتہ اب بھی وہی ہے کہ دشمن کو مذاکرات کی میز پر لانے سے قبل انتہائی کمزور کردیا جائے‘ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مفادات نہ تو آج اور نہ ہی مستقبل میں پاکستانی مفادات کے تحت ہوں گے‘ ہمارا سامنا ایک مشترکہ دشمن سے نہیں ہے‘ پاکستان ہمیشہ ہی انڈیا کو دشمن سمجھتا ہے‘ افغان حکومت نئی دہلی سے قریبی روابط رکھتے ہوئے غیر پشتونوں پر مشتمل حکومت چاہتی ہے‘ پاکستان دنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے اپنی 1,40,000 فوج قبائلی علاقوں میں تعینات کی ہے‘ یہاں تین برسوں کے دوران پاکستان کے 2000 سے زائد پاکستانی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں‘ تاہم اس کے برخلاف انڈیا کی سرحد پر 300,000 فوجی تعینات ہیں‘ امریکہ کے دشمن پاکستان کے اثاثے ہیں‘ پاکستان نے طالبان سے ڈیل کے حوالے سے کبھی بھی اپنے ضمیر پر چھبن محسوس نہیں کی‘ اس نے 1990 کی دہائی میں اسلامی ملیشیا کی تخلیق میں مدد کی پاکستان ان تین ممالک میں شامل تھا جس نے سب سے پہلے ملا عمر کی حکومت تسلیم کی‘ پاکستان اب کابل میں اپنی حکومت کی تشکیل چاہتا ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو اپنے مفادات بے رحمانہ طور پر یقینی بنانے چاہیں خواہ اس کے نتیجے میں پاکستانی مفادات تباہ ہوجائیں۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 72297 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More