دنیا میں امن لانے کے لئے امریکہ بہادر نے خبر دی ہے کہ
متحدہ عرب امارات کے بعد اب بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور
وائٹ ہاؤس میں تاریخی معاہدے پر دستخط بھی ہو چکے۔واضح رہے کہ یہ دونوں
خلیجی ممالک سعودی عرب کے قریب ترین اتحادی ہیں اور بعض مبصرین کے مطابق
سعودی عرب کی مکمل حمایت کے بغیر وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے۔(ہونڑ
دسو کی کراں) اس سے قبل اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان معاہدے کے
بعد ابوظہبی اور تل ابیب کے درمیان پروازوں کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ اب
اسرائیلی طیارے سعودی عرب، کویت اور بحرین کی فصائی حدود سے گزر کر امارات
پہنچیں گے۔متحدہ عرب امارات نے گزشتہ دنوں ایک فرمان کے ذریعے اسرائیل کے
اقتصادی بائیکاٹ کی قرار داد کو ختم کر کے اقتصادی تعلقات کے آغاز کی راہ
ہموار کر دی تھی۔اب تاریخ کے سوالات میں یہ بھی پوچھا جائے گا کہ اسرائیل
کو تسلیم کرنے والے ممالک میں بحرین کا کتنا نمبر ہے تو جواب ملے گا۔۔
بحرین اسرائیل کو تسلیم کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔مصر، اردن اور عرب
امارات کے بعد بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں دیکھتے
ہیں پانچویں نمبر کے لیے مسقط عمان کب جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتا ہے اگر
یہ سلسلہ نہ رکا تو ’’عرب لیگ ‘‘ کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔سماجی روابط کے
ایک ذریعہ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم اس لائحہِ عمل پر یقین رکھتے ہیں جسے
1920 کی دہائی میں’آئرن وال‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے تحت اسرائیل کو اس
قدر مضبوط بنا نا تھا کہ عربوں کے پاس کوئی اور چارہ نہ ہو سوائے اس کے کہ
وہ اسرائیل کو تسلیم کر کے تعلقات قائم کریں۔ امریکہ میں طے پانے والے ـ’’ابراہم
معاہدہ ‘‘کے بارے میں سعودی امور کے ماہر برنارڈ ہیکل کے مطابق یہ ایک سلسے
کا آغاز ہے اور اس طرح کے اشارے مل رہے ہیں کہ سعودی عرب اسی جانب گامزن ہے
حالانکہ سعودی فرمانروا کے لیے یہ راستہ مشکلوں سے بھرا ہوا ہو گا۔تاریخ
چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ سعودی عرب ہی وہ ملک تھا جس نے عرب امن معاہدہ
تحریر کیا تھا اور فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور یہ سب بھی سعودی
عرب کی توثیق کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید
النیہان کے مطابق اس معاہدے کے عوض اسرائیل نے مغربی کنارے کو اسرائیل میں
ضم کرنے کے عمل کو روکنے کا وعدہ کیا ہے۔
امریکی انتخاب میں ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدارجو بائیڈ ن کے مطابق اگر
یہودی اکثریت والی اسرائیلی ریاست کو پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک
تسلیم کرتے ہیں تو یہ قیام امن کے لیے بہتر ہو گا لیکن اس صورت میں اسرائیل
کو بھی دو مملکت کے سیاسی حل یعنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد فلسطینی
مملکت کے قیام پر بھی عمل کرنا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان اپنی حکومتی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے متعدد بار کہہ
چکے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کو تب تک تسلیم نہیں کر سکتا جب تک کہ
فلسطینیوں کے مسئلے کو منصفانہ طریقے سے حل نہیں کیا جاتا۔ماضی کا ایک ثبوت
بتاتا ہے کہ پرویز مشرف نے امریکہ میں جیوز کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ انھوں
نے اپنے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کو اسرائیلی نمائندوں سے بات چیت کے
لیے ترکی بھیجا تھا لیکن بات چیت ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی تھی۔
’اگر اس وقت پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے یا اس کی طرف دوستی کا ہاتھ
بڑھاتا ہے تو عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان نے فلسطینیوں کا ساتھ
چھوڑ دیا۔ حکومت کے لیے اپنی پوزیشن کا جواز پیش کرنا مشکل ہو جائیگا۔جس
طرح کے اشارے مل رہے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں دوسرے عرب
ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ٹوٹے پھوٹے فلسطین
کا دیرینہ مسئلہ بھی کسی شکل میں حل ہو ہی جائے۔ 1948 میں اسرائیل کے وجود
کے آنے کے بعد سے اب تک کا برسوں کا عرصہ تنازعات میں الجھا رہا ہے، اب کہا
جا رہا ہے کہ نئے مشرق وسطیٰ کا آغاز ہونے والا ہے۔تاریخ تبدیل ہونے کو
ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن
فلسطینی بضد ہیں کہ باقی ممالک ایسا نہ کریں اب بھلا امریکہ بہادر کی سنی
جائے گی یا نہتے بے بس فلسطینیوں کی۔ طرفہ یہ کہ اسرائیل میں دنیا کا جدید
ترین ٹیکنالوجی سیکٹر موجود ہے۔جس سے عرب ممالک مستفید ہو سکتے ہیں۔اور کون
سا ملک نہیں چاہتا کہ وہ دفاعی اور اقتصادی طور پر مضبوط نہ ہو۔متحدہ عرب
امارات اور بحرین نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی اپنی سر زمین کے لیے
،اپنی اپنی بقا کے لیے واشنگٹن یاترا کی اور معاہدہ پر دستخط کیے۔ لیکن
فلسطینی رہنما محمود عباس کے مطابق مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی انخلا ہی
مشرق وسطی ٰ میں امن قائم کر سکتا ہے۔متحدہ عرب امارات نے رسک لیا اس امید
اور یقین کے ساتھ کہ اسرائیل اب مذید قبضہ روک دے گا امریکہ اسکا ضامن ہے ۔میرے
مطابق فلسطینی عوام کے لیے یہ معاہدہ نہتے لڑائی لڑنے سے بہتر ہے ۔بستیوں
کا قیام روک کر اسرائیل نے فی الوقت وعدہ پورا کیا ہے اب وقت بتائے گا کہ
نئے مشرق وسطیٰ میں آزاد فلسطینی ریاست کہاں کھڑی ہے ۔معاہدہ میں کہیں نہیں
لکھا کہ فلسطینی اپنی جدوجہد ترک کر دیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ متحدہ عرب
امارات نے اسرائیل کو ایک راستہ تجویز کیا جو اسے سیاسی بند گلی سے نکال
سکتا ہے۔اور یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ امن کے لیے ایک دوسرے سے تعلقات
بحال ہو رہے ہیں۔ نئے اتحاد کی تشکیل ہوتی نظر آتی ہے،افغانستان اور بھارت
بھی قریبی اتحادی کا اشارہ دے چکے ہیں۔ بھارت ایران سے بھی بغلگیر ہے اب
یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایران جانے اور اس کا مقدر جانے۔۔۔فی الوقت یہی
حقیقت اور سچ ہے کہ محمد بن زید النہیان نے متحدہ عرب امارات کی سلامتی ،ترقی
اور خوشحالی کو مقدم جانتے ہوئے قدم اٹھایا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ
قدم فلسطین سمیت عربوں کے لیے بھی بہتری کا سبب ہو۔
|