مخبری دلالی اور ٹپپری نے قوم کو تباہ کردیا

یہ قوم کے غدار ہیں مر کیوں نہیں جاتے: دلالوں کا بائیکاٹ وقت کی اہم ترین ضرورت

 محترم قارئین کرام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوںگے۔ اللہ آپ تمام کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی جان مال عزت وآبرو کی حفاظت فرمائے۔اور ہمیشہ خوش وخرم رکھے۔ اور تنگدستی سے آپ تمام کی حفاظت فرمائے۔

قارئین کرام میں جس عنوان کے تحت آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ دراصل کافی تاریخی عنوان ہے۔ اور وہ کام جب سے دنیا بنی ہے تب سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ اور اس کام میں ہماری قوم کے کچھ لوگ بہت آگے پہنچ چکے ہیں۔ اور اس طرح کے کام کرنے والے ہر شعبہ میں آپ کو مل جائیں گے،سیاست میں اور پولس والوں کے ہاں یہ آپ کو بڑی تعداد میں مل جائیں گے۔ خصوصاً ان لوگوں کا خیمہ دونوں طرف ہوتا ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوںگےآخرفاروق بھائی اتنی پہیلیاں کیو ںبجھا رہے ہیں۔۔۔۔تو میں آپ کی پریشانی دور کئے دیتا ہوں ۔۔۔دراصل میں جس عنوان کی بات کررہا ہوں وہ مخبری ،دلالی اور ٹپری ہے۔ جس نے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔

اور جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ یہ کام ہردور میں ہوتا آیا ہے۔ اور ایک بات میں آپ کو ہمیشہ سے کہتے آیا ہوں کہ یہ جو دلالی اور مخبری والا کام ہے اسی کی وجہ سے ہماری قوم تباہ وبرباد ہوئی ہے کیونکہ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ہمیں تباہ وبرباد کرسکے۔۔ہمیشہ آستین کے سانپوں نے ہی ہمیں ڈسا ہے۔تھوڑے سے پیسوں کے لئے۔۔۔۔تھوڑی سی زمین کے لئے۔۔۔۔دنیاوی مالداروں اور حکومت چلانے والوں کی نظر میں بڑا بننے کے لئے ہر دور میں ہمارے اپنوں نے ہی ایمان بیچا ہے۔ سستی شہرت کے لئے دوغلے بنے ہیں۔ ادھر کی بات ادھر کی۔۔۔۔اندر کے راز دشمنوں کو بتادئے۔۔۔دلالی کرکے۔۔۔۔مخبری کرکے ہمارے اپنوں ہی کے ہاتھوں سے ملک کے ملک تباہ ہوئے برباد ہوئے ۔۔۔تختہ پلٹ گئے۔ ۔۔۔۔بادشاہت چلی گئی ۔۔۔۔غرض دوستو ۔۔۔یہ کہ ہم نے بہت نقصانات اٹھائے ہیں۔ اور اٹھارہے ہیں۔ بس طریقے کار بدل گئے لیکن کام وہی کررہے ہیں۔
ابھی جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ملک میں کرونا کے باعث لاک ڈائون کردیاگیا۔ شروع شروع میں کافی سخت لاک ڈائون لگایا گیا تھا تاکہ کرونا پر سختی سے قابو پایا جاسکے۔اس لئے مسجدیں ،مندریں، چرچ ،اسکول، دکانیں، کمپنیاں غرض ہر چیز بند کی جاچکی تھی۔

اور تواور ایک دوسرے سے ملنے پر بھی پابندی لگ چکی تھی۔ ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ ایسے میں ہر کوئی اپنے اعتبار سے اپنی اور اپنوں کی جان بچانے کی خاطر کچھ نہ کچھ مدد کرنے میں لگا ہوا تھا۔ جس کا جیسا اثر ورسوخ تھا اس نے اپنے اعتبار سے مارکیٹ میں نکل کر لوگوں کی مدد کرنی چاہی۔اور پھر مسجدیں بند ہونے کی وجہ سے لوگوں نے گھروں میں ہی نمازیں پڑھنے کو ترجیح دیں۔

ایسے میں جب ہر کوئی پریشان پریشان نظر آرہا تھا ایسے وقت میں ہماری قوم کے کچھ دلال اور مخبروں نے چند کوڑیوں کے عوض اپنے ایمان کو بیچنےکا کام کیا۔گھروں میں عبادت کرتے لوگوں کی تصویریں کھینچ کھینچ کر پولس تھانوں اور پولس انتظامیہ کو پہنچانے کا کام کرتے رہے۔ دلالی کی حد تو دیکھئے کہ پولس کا سپورٹ لے کر غریب دکانداروں،دودھ والوں اور ترکاری والوں کے ساتھ کرانہ دکان والوں کو ڈرا دھماکر ان سے سامان مفت میں لیتے رہے۔ اور انہی دلالوں اور مخبروں نے موقع پر غریب کاروبار کرنے والوں کو زبردستی قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں مجرم ٹہراکر ان سے جبراً وصولی بھی کی۔

ان ٹپروں اور مخبروں کو ذرا سا بھی یہ خیال نہیں آیا کہ وہ جس کے خلاف کاروائی کررہے ہیں یا جس کے بارے میں شکایت کررہے ہیںجس کی مخبری اور ٹپری کررہے ہیں وہ ان کے اپنے ایمانی بھائی ہے۔
مگران حرام کے کھانے والوں بھلا کسی سے کیا لینا دینا ۔۔۔۔بس انتظامیہ کے تلوے چاٹ کر لوگوں کو یہ بتانے کی غرض سے کہ دیکھو ہمارے پولس اور قانون والوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے۔ ۔دوستویہیپولس تھانوں کی مخبری،ٹپری اور دلالی نے مسلمانوں کو تباہ کر کے رکھ دیاہے!

دنیا کی تمام قوموں نے جس کام کو گندگی اور غلاظت سمجھ کر کوڑے دان میں پھینک دیاتھا آج اسی کام کو ہماری قوم نے اپنے لیے عزت کا تاج سمجھ کر کوڑے دان سے اٹھا کر اپنے سر اور ماتھے پر سجا لیا؟
ہم نے اکثر دیکھا اور سنا ہے کہ مسلمانوں میں جوجتنا بڑا نیتاہوتا ہے وہ اتنا ہی بڑا مخبر ہوتاہے اور مسلم قوم نے بھی اسی کو اپنا لیڈر مانا ہے جسکی پولس میں مضبوط پکڑ ہو؟میں ہر لیڈر اور نیتا کی بات نہیں کررہا ہوں لیکن ہم سے اکثر مخبری ہی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ۔۔۔

قارئین جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ پولیس چوکی اور تھانوں کی دلالی نے ہماری قوم کو برباد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ جیلوں میں کورٹ کچہریوں میں 70 فیصد سے 80 فیصد مسلم عوام ہی الجھی ہوئی ہے ان کی گاڑھی کمائی کا بیشتر حصہ پولیس کی رشوت وکیلوں کی فیس اور کورٹ کچہریوں میں صرف ہو رہے ہیں

ہمارے سماج کے مخبروں کی مہربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں جرائم اور اپرادھ کی فیصدی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلم علاقوں میں سرکاری ہسپتال ڈسپنسریاں اور اسکول و کالج کھلنے کے بجائے پولیس چوکیاں اور تھانہ کھل رہے ہیں اور انہیں دلالوں اور مخبروں کی مہربانیوں سے مسلم علاقوں میں ناجائز گانجہ چرس شراب سٹہ اور جوا کے اڈے کھل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے نوجوان منشیات جوا،سٹہ،اسمیک، کے عادی بن کر اپنی زندگی اور مستقبل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں نشہ جوا اور سٹہ کی لت نے ہمارے نوجوانوں کو ہر جرم کرنے پر مجبور کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں جرائم کا اضافہ ہورہا ہے مسلم علاقوں میں واقع پولیس چوکی اور تھانوں کو کمائی کا اڈہ تصور کیا جاتا ہے اس کا چارج لینے کے لیے بڑی بڑی بولیاں لگتی ہیں موٹی موٹی رقمیں رشوت دے کر ہمارے علاقے کے تھانوں اور چوکیوں کے انچارج صا حبان ہمارے علاقوں میں جرائم اور اپرادھ پر کنٹرول کرنے لگانے کی غرض سے نہیں آتے بلکہ وہ بھی کمائی کرنے کے مقصد سے آتے ہیں مسلمانوں کی ہر گلی میں مخبروں اور دلالوں کا جال بچھا رکھا ہے مسلمانوں کے برتن میں کیا پکا ہے کس کے پاس کون آیا ہے۔ کون چھپ کر آرہا ہے کون نڈر انداز میں آرہا ہے اس کا داروغہ جی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا وہ تو ہمارے ایمانی بھائیوں کی مہربانی سے انہیں پل پل کی خبر ملتی رہتی ہے۔

انہی ٹپروں اور مخبروں کے اشاروں پر روزآنہ مسلم محلوں سے دس بیس کو مختلف معاملات میں پکڑ کر حوالات میں ڈال کر رات بھر توڑائی کرتے ہیں اور اپنے مطلب کا جرم قبول کرالیتے ہیں صبح کو وہی مخبری کرنے والےلیڈر تھانہ اور چوکیون میں جاتے ہیںاورپھر داروغہ جی سے کہہ کر کسی کو بیس ہزار کسی کو 30 ہزار اور کسی کو 50 ہزار روپے میں چھوڑ وا لاتے ہیں جو روپیہ یا رشوت نہیں دیتا ہے اس کوکسی بھی جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے داروغہ جی اور انکے مخبروں کاتقریبا روزآنہ کا یہی معمول ہے!

داروغہ جی بھی خوش ہیں کہ موٹی رقم دے کر یہ چوکی حاصل کی ہےکچھ تو وصول ہوا وہ لیڈر نما مخبر بھی خوش ہو جاتا ہے کہ چوکی سے دلالی ( کمیشن) آگیا اور مفت مین پورے محلے میں ہماری نیتآ گیری بھی چمک گئی ملزم بھی خوش ہو جاتا ہے کہ پچیس پچاس ہزار روپیہ رشوت دیا تو کیا ہوا جیل جانے سے بچ گئے مقدمہ نہیں لگا محلے میں واہ واہ ہوگئی کہ اسکی اوپر تک رسائی ہے جلدی چھوٹ گیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہماری سرکاریں بھی خوش ہو جاتی ہیں کہ جرائم پر کنٹرول ہوگیا مجرموں کو جیل بھیج دیا گیا مسلمانوں کے ساتھ لگ بھگ آزادی کے بعد پچھلے ستر سالوں سے یہی سب ہو رہا ہے؟

آج ہمارے ملک میں جرائم پر جو کنٹرول نہیں ہورہا ہے اس کی خاص وجہ یہی ہے کہ بے گناہوں کو بلی کا بکرا بنا کر علاقے میں ہورہے کرائم کو ان پر تھوپ کر جیل بھیج دیا جاتا ہے اور گناہگار آج بھی آزاد کھلےعام گھوم رہے ہیں مسلمانوں میں پولیس کی مخبری اور دلالی کا پیشہ زور پکڑتا جارہاہے ہمارا نوجوان طبقہ اس دلدل میں دن بدن ملوث ہو رہا ہے آج کل پولیس نے بھی اپنی آمدنی میں اضافہ کے لئے ایک اسکیم نکالی ہے وہ روزآنہ کسی نہ کسی موبائل چور کو گرفتار کر لاتی ہے اور اس سے بیس تیس ہزار روپیہ رشوت لینے کے ساتھ ساتھ تین چوروں کا نام بھی اگلواتی ہے اپنی رہائی کے لیئے ملزم کو تین چوروں کا نام بتانا پڑتا ہے خواہ وہ نام فرضی ہی کیوں نہ ہوپولس کی اس اسکیم سے اس کی آمدنی اور مسلم چوروں کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے اور پھر انہی چوروں سے پولس اپنے علاقوں میں جھوٹی سچی مخبری کراتی ہے پولس کی مخبری نہ کرنے پر ان سابق چوروں پر علاقے میں ہوئی نئی چوری کا تازہ مقدمہ لگا کر جیل بھیج دیا جاتا ہے اس لئے ہمارے مسلم نوجوان بھی پولس کی کمائی کے لیئے جھوٹی سچی مخبری کرنے پر مجبور ہیں اور ان نوجوانوں کی مخبری اور پولس کی کمائی کے لئے زیادہ تر بے گناہ افراد انکے گرفت میں آتے ہیں!

حد تو یہ ہے دوستو کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان آج کل مخبری اور دلالی کا کام کررہے ہیں۔ آخر وہ کرے بھی تو کیا کریں۔ ملک میں بیروزگاری جو اتنی بڑھ گئی ہے۔ کام مل نہیں رہا ہے اور گھر کے تقاضے جینے نہیں دیرے ایسے میں سب سے اچھا کام ان نوجوانو ںکے پاس ایک ہی بچ جاتا ہے وہ ہے پولس کی مخبری ۔۔۔مسلمانوںکی پل پل کی خبر پولس انتظامیہ کو پہنچا کر روز کا ۱۰۰ اور ۲۰۰ روپیہ مل جانے سے ٹپر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ بہت بڑا کام کررہے ہیں۔ جبکہ وہ یہ نہیں سمجھ رہے ہیں وہ اپنی ہی قوم کو دلدل میں ڈھکیل رہے ہیں اور اپنی ہی قوم کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ انہیںتباہ وبرباد کرنے کا کام کررہے ہیں۔

ابھی دہلی فسادات کے سلسلہ میں ایک گرائونڈ رپورٹ یہ آئی تھی کہ اپنے ہی قوم کے کچھ دلالوں نے ان فسادات برپا کرنے والوں کو سی اے اے اور کالے قانون کی مخالفت کرنے والوں کے گھر بتائے تھے۔ افسوس ہے دوستو کل قیامت میں کیا منہ دکھائوگے۔

ہم مسلمانوں کے پاس اب ہوش نہیں رہا اور ہم ایک طرح کے دلال بن چکے ہیں ۔ کوئی سیاسی دلال تو کوئی مذہبی دلال، کوئی مسلک کا دلال تو کوئی قوم کا دلال ۔۔ بس اب دلالی ہی ہماری پہچان ہے اور ہم یوں ہی کٹتے مرتے رہینگے ۔جاگو مسلمانوں جاگو ، حالات کو دیکھو اور اپنے آپ کو مسلمان بنائو نہ کہ دلالی کرو اور مخبری کرو۔

آج تھانوں اور پولس کی دلالی کی وجہ سے مسلم قوم تباہ و برباد ہو رہی ہے مسلم سماج کو اس جانب توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے؟ہم مسجدوں کے اندر بھی بڑے بجھے دل کے ساتھ ایک قائد کی تقلید کرتے ہیں لیکن مسجد سے باہر بھی ایک قائد کی تقلید کریں۔اپنے اسلامی کردا ر کو اجاگر کریں۔مسلم محلوں کو ایسا مثالی محلہ پیش کرکے دکھائیں کہ جس محلے سے اسلامی تعلیمات کی جھلک نظر آئے۔کیا ہم ہزاروں ، لاکھوں، مسلم محلوں میں سے ایک بھی ایسا مثالی او رماڈل اسلامی محلہ پیش نہیں کرسکتے؟جہاں گندگی نہ ہوجہاں صاف صفائی مثالی ہوجہاں محلے والے خود صاف صفائی کا خیال رکھیںجہاں سے گزرنے والی کسی بھی لڑکی یا خاتون کو کوئی چھیڑنے، گھورنے، یا ان سے بدتمیزی کرنے کی ہمت نہ کرے۔جہاں کوئی گالی گلوچ نہیں کرے۔جہاں ہر شخص میٹھے لہجے اور الفاظ میں گفتگو کرے۔جہاں لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔جہاں دکاندار، ہاکرس واجبی داموں پر اشیا فروخت کریں او رناپ تول میں بھی کوئی فرق نہیں کریں۔جہاں لوگ ایک دوسرے کی مدد کریں۔جہاں کوئی غریب بھوکا نہیں رہے۔جہاں کوئی بیمار لاعلاج نہیں رہے۔

یہ سوال پچھلے کئی دہائیو ںسے ہمارے سامنے آتا ہے کہ کیا ہم پورے ملک میں ایک بھی ایسا ماڈل مسلم محلہ قائم نہیں کرسکتے؟ (یا کم از کم۔ قائم کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟)باتوں اور تقریروں سے اغیار کو تو کیا ہم اپنے لوگوں کو بھی قائل نہیں کرسکتے۔

اس لیے۔اسلام کیا ہے؟ اسلامی کردار کیا ہے؟مسلمان کون ہیں؟ کیسے ہیں؟ماڈل اسلامی محلے، اس سمت سنگ میل ثابت ہوسکتے ہیں۔اگرہم ایک ماڈل مسلم محلہ پیش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔تو اغیار بھی وہاں خریدوفروخت کے لیے آئیں گے۔مسلمانوں سے میل جول کریں گے۔مسلمان اور اسلام کیا ہے؟ اس کا خود تجربہ کریں گے؟تب کہیں اس جھوٹے پروپیگنڈہ کو جھوٹا تسلیم کرلیں گے۔جس کے ذریعے مسلمانوں، اسلام اور شریعت کی امیج مسخ کی گئی ہے۔اس جھوٹے پروپیگنڈہ کو سچ ثابت کرنے میں تھوڑا بہت قصور تو ہمارا ا پنا بھی ہے۔اس لیے۔حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان دلوں کو فتح کرنے کی جستجو کریں، یہ آج وقت کا تقاضہ ہے ۔

لہذا قارئین اپنے آس پاس ان خبریوں ،ٹپروں اور دلالی کرنے والوں پر کڑی نظر رکھیں۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کارپوریٹر کی شکل میں ،داڑھی ٹوپی پہنے سفید لباس میں ملبوس افراد کی شکل میں یا پھر نوجوان پڑھے لکھے افراد کی شکل میں ہوسکتے ہیں۔ یہ بڑی ہوشیاری کے ساتھ آپ پر نظر رکھتے ہیں اور آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ پولس والوں کے پاس ان دلالوں کے ذریعے آپ کی ساری رپورٹ پہنچ چکی ہوتی ہے۔ اس لئے ایسے ٹپروں دلالوں اور مخبروں کو دیکھیں سب مل کر ان کا بائیکاٹ کریں اور انہیں شہر بدر نہیں سہی کم از کم محلہ بدر تو کر ہی دیں۔

امید ہے کہ آپ تمام میری اس بات سے متفق ہوںگےکہ ان دلالوں کو مخبروں کو اور ٹپروں کو فوری ختم کیا جائے اور ایک اچھا اور صالح معاشرہ تشکیل دیا جائے تاکہ ہم اپنے اسلاف کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ایک بہترشبیہ مسلمانوں کی پیش کرسکے۔۔۔
منظر بھوپالی صاحب نے کیا خوب لکھا کہ
مقتل سے گزرنا ہے گزر کیوں نہیں جاتے اس خوف کے دریا سے اتر کیوں نہیں جاتے
یوں پوچھتے رہتے ہیں ہو کہ یہ زندگی کیا ہے میری طرح دریا میں اتر کیوں نہیں جاتے
آجائے گا جب وقت تو مہلت نہیں دے گا اے بگڑے ہوئے لوگوں سدھر کیوں نہیں جاتے
اللہ میرے ملک کو جو لوٹ رہے ہیں یہ قوم کے غدار ہیں مر کیوں نہیں جاتے
عزت کے بناجینا بھی کیا جینا ہے منظر ذلت سے بھی جینا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے
جی ہاںمیں بھی یہی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ قوم کے غدار ہیں مر کیوں نہیں جاتے۔۔۔۔

قارئین کرام اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں نے آپ کے دل کی بات کہہ دی ہوں تو اسے فوری دوسروں تک پہنچانے کی فکر کریں۔اور ان قوم کے ٹپروں اور مخبروں کو خاص طور پربھیجنے کی زحمت گوارا کریں تاکہ اگر تھوڑی بہت شرم وحیا بچی ہوگی تو وہ اپنا پرکھوں والا کام چھوڑدیں گے اور قوم کو مزید دلدل میں ڈھکیلنے سے پرہیز کریں گے اور توبہ کریں گے۔چلئے ناظرین کرام اپنا اور اپنو ںکا خیال رکھیں۔جھوٹ غیبت حسد کینہ اور بغض سے اللہ آپ تمام کو بچائے رکھے ۔اللہ آپ تمام کو اپنی حفظ وامان میں رکھیں اور آپ تمام کا خاتمہ بالخیر ہوں اور کل قیامت میں آپ کا نام مخبروں او رمنافقوں کی لسٹ میں نہ آئےاللہ آپ کو ایسا قوم کا معاون ومددگار بنائے۔اللہ حافظ ۔۔۔


 

syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 46014 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.