ہمارے ایک دور کے رشتہ داروں کی بیٹی کی شادی تھی جو کہ
ان کی پہلی اولاد تھی ۔ مایوں اور مہندی کی رسومات و تقریبات انجام پا چکی
تھیں ، جہیز کا سامان بیٹی کی سسرال میں پہنچا دیا گیا تھا اور بری کا
سامان ان کے ہاں آ گیا تھا ۔ پھر عین بارات والے دن گیارہ بجے کے قریب لڑکے
یعنی دولہے کو پولیس پکڑ کر لے گئی کسی سیاسی تنظیم سے وابستگی اوراسی کی
سرپرستی میں کسی تخریبی کارروائی میں ملوث ہونے کے الزام میں ۔ اور اسے کسی
نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ۔
لڑکے والوں کے ہاں تو جو کہرام مچا ہی لڑکی کے گھر میں بھی صف ماتم بچھ گئی
۔ لڑکی واقعے کی اطلاع پا کر شدت صدمہ سے بیہوش ہو گئی ، لینے کے دینے پڑ
گئے ۔ پھر ان کے ایک قریبی رشتہ دار میاں بیوی نے آپس میں مشورہ کیا اور
اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر پہنچ گئے جو کہ ان کی بھی پہلی اولاد تھا اور ابھی
اس کی کہیں بات چیت طے نہیں ہوئی تھی ۔ اپنے والدین کے فیصلے میں اس کی
پوری رضامندی شامل تھی بلکہ ابھی وہ ان کے ساتھ ہی آیا تھا ۔ پنچایت بیٹھی
اور تھوڑے سے غور و خوض کے بعد یہ رشتہ منظور کر لیا گیا ۔ پھر جھٹ پٹ
بارات والے دن کے حساب سے دونوں دولہا اور دلہن کے لیے کچھ ضروری خریداری
بھی کر لی گئی ۔
پھر شام کو شادی اپنے مقررہ وقت پر طے شدہ پروگرام کے مطابق ہی انجام پائی
بس فرق صرف اتنا تھا کہ دولہا بدل گیا تھا ۔ قریبی رشتہ داروں کو تو اس
ناگہانی کی بر وقت اطلاع مل گئی تھی مگر دور پرے کے اور جاننے والے دوست
احباب جب تقریب میں شرکت کرنے کے لیے پہنچے اور انہیں معاملے کا علم ہؤا تو
سبھی دنگ رہ گئے تھے اور دولہے اور اس کے والدین کے اس اتنے عظیم فیصلے پر
اش اش کر اٹھے تھے ۔ بلاشبہ انہوں نے اعلا ظرفی اور رواداری کی ایک مثال
قائم کی تھی اور اپنی بارات کے انتظار میں مایوں بیٹھی ایک بےقصور لڑکی کو
اس بےرحم معاشرے میں رسوا ہونے سے بچا لیا تھا اسے کسی کے کیے کی سزا
بھگتنے سے بچا لیا تھا ۔
بعد میں اس پہلے والے لڑکے کا کیا بنا وہ ہمیں معلوم نہیں ہو سکا ورنہ ہم
ضرور لکھتے ۔
|