اگرہم طالبعلم کی حیثیت سے سلطنت عثمانیہ کی تاریخ کے
اوراق پلٹیں تو ہرایک ورق پرہمیں اُس عہد کے مورخ کے قلم سے ترُک قوم کی
اِسلام پراستقامت کے ساتھ ساتھ دشمنان اِسلام کیخلاف بھرپورمزاحمت اور
شجاعت کی ناقابل تردیدشہادت ملے گی،اُس دور کے'' مصنف ''کسی ''منصف ''کی
طرح اپنے موضوعات کے ساتھ انصاف کیا کرتے تھے جبکہ ان کا اپنے علم اورقلم
سے سچائی تک رسائی کاعزم قابل قدر تھا۔نڈرتُرک قوم دوستی اوردشمنی میں
اپناثانی نہیں رکھتی ،ترُـک قبائل کو کئی دہائیوں تک ہجرت کاسامنا رہااوروہ
مسلسل کفار کے ساتھ حالت جنگ میں رہے۔انہوں نے محدود وسائل جبکہ شوق شہادت
سے سرشار جانباز''جنگجوؤں'' اپنے سرفروش اورکفن پوش'' جگنوؤں ''کی مختصر
تعداد کے باوجوداپنے عہد کی طاقتورترین افواج سے مقابلہ کرتے ہوئے انہیں
شکست فاش دی۔چنگیزخان کی باقیات میں سے بدمست نویان کی صورت میں شیطان بھی
ان کے مدمقابل آیاتو پسپاہوگیا اور جہنم واصل ہواکیونکہ ترک میدان میں
اترتے وقت کشتیاں آگ میں جھونک دیاکرتے ہیں۔کفار کیخلاف مزاحمت کے دوران
ہرایک '' تُرکش'' کا '' تَرکش ''ہمیشہ دشمن کیلئے تیروں سے بھرا رہتاتھا۔اس
وقت دشمن کامقابلہ،محاصرہ اورمحاسبہ کرنے کیلئے'' وزیروں'' سے زیادہ "تیروں
"پرانحصار کیاجاتا تھا۔صلیبی اورصیہو نی اپنے بدترین ہتھکنڈوں کے باوجود
ترُک قوم کویرغمال یااپناغلام بنانے میں ناکام رہے۔سلطنت عثمانیہ کی دوررس
اِصلاحات اوربینظیرفتوحات سے اِسلام کو عزت ،عظمت اورہیبت نصیب ہوئی۔دبنگ
تُرک قوم کوزندگی بھر خطرناک چیلنجز کاسامنا رہا لیکن اُس نے آج تک سرنڈر
نہیں کیااورہردورمیں سربلند رہی،رجب طیب ایردوان کی صورت میں مخلص قیادت کے
معاملے میں خودکفیل'' ترکی'' آج شاہراہ'' ترقی ''پرگامزن ہے۔تُرکش قیادت
اپنے وطن کے روشن مستقبل کیلئے پرجوش جبکہ عوام پرامیداورپرعزم ہیں۔ ہمارے
ترُک بھائی اپنے کامل جذبہ ایمان اور زوربازو سے ہرمعرکے میں کامیابی
وکامرانی اورنیک نامی اپنے نام کرتے ہیں۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان پائیداراورباوقاردوستی کے فروغ کیلئے لاہورمیں
قیام کے دوران مختلف مثبت سرگرمیوں کااہتمام کرنیوالے پروفیسر ڈاکٹرخلیل
طوقار نے پاکستانیوں کے قلوب پر اپنے تعمیری کردار،جذبہ ایثاراوراخلا ص کے
انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ پاکستان میں ادب کے سرخیل آج بھی پروفیسرڈاکٹرخلیل
طوقارکی اردوکیلئے گرانقدر خدمات کویادکرتے ہیں۔کئی کتب کے مصنف اوردانشور
پروفیسرڈاکٹرخلیل طوقاران دنوں استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ
ہیں ۔اِسلام آبادمیں ترکی کے باصلاحیت اورباکمال سفیراحسان مصطفی یرداکل
کامزاج معتدل ہے،وہ اس اہم منصب کیلئے انتہائی معقول اور پاکستانیوں میں
بیحد مقبول ہیں،انہیں منتخب تُرک قیادت کابھی بھرپوراعتماد حاصل ہے۔احسان
مصطفی یرداکل بھرپورکمٹمنٹ اورپیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ پاکستان اورترکی
کے درمیان سماجی اور معاشی تعلقات کوفروغ دینے کیلئے اپناکلیدی
کرداراداکررہے ہیں۔جوکوئی احسان مصطفی یرداکل کواپنے مخصوص انداز سے کام
کرتے ہوئے دیکھتا ہے وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔احسان مصطفی
یرداکل اپنے کاز کے ساتھ مخلص ہیں،ان کی گرانقدر خدمات کوترکی اورپاکستان
میں قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ پاکستان اورترکی کے درمیان دیرینہ دوستی
فطری ہے ،اِن شاء اﷲ دونوں برادراسلامی ملک ایک دوسرے کاہاتھ تھام کر اسلام
اوراہل اسلام کودرپیش شدیدخطرات کامقابلہ اورسدباب کریں گے۔تُرک زندگی بھر
باطل کیخلاف سربکف رہے جبکہ وہ آج بھی اسلامیت و انسانیت کیخلاف سرگرم
شیطانیت اورحیوانیت کی نابودی کیلئے سینہ سپر ہیں۔ جوتاریخ شہیدوں نے اپنے
مقدس خون جبکہ غازیوں نے اپنی تلواروں اوراپنے نیزوں کی نوک سے لکھی ہواس
کی روشنائی کوئی نہیں مٹا سکتا ،اس روشنائی کی روشنی کبھی ماند نہیں
پڑتی۔آج تک تُرک قوم کے'' قلوب'' کسی دشمن سے ''مغلوب'' یامرعوب نہیں
ہوئے،ان کے دل اِسلام کیلئے دھڑکتے اوروہ صرف اﷲ تعالیٰ کے روبروجھکتے
ہیں۔''تُرکش'' اپنے معبودبرحق کے ہر '' سرکش'' دشمن کوزیراورڈھیر کرتے رہے
ہیں۔اہل ترُک کی تابناک ،درخشاں اورتاباں تاریخ جبکہ وہاں فروغ اسلام کی
تحریک ناقابل فراموش ہے۔راقم نے2014ء میں دوران حج حجازمقدس میں مختلف
ملکوں سے آنیوالے حجاج کے رویوں کامشاہدہ کیاتومیں نے دیکھاسرخ وسپید
تُرکوں کی زندگی اﷲ تعالیٰ کی بندگی کی آئینہ دار ہے جبکہ وہ سرورکونین
حضرت محمدرسول اﷲ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کی اتباع
واطاعت کو بیش قیمت سعادت مانتے ہیں۔ ترُکش ایک منظم ، مہم جواوراسلامی
نظریات کے ساتھ مخلص قوم ہیں،ـ"تُرک" راہ حق" ترَک" نہیں کرتے خواہ انہیں
اس کی بھاری قیمت چکاناپڑے ۔تُرک قوم اوران کی قیادت ہمت اورحمیت کاخوبصورت
امتزاج ہے،وہ آبرومندانہ اورجرأتمندانہ انداز سے زندگی گزارنے کاہنرجانتے
ہیں۔تُرک عوام کی ''خودمختاری'' کارازان کی ''خودداری'' میں پنہاں ہے۔تُرک
عوام کوآج جوآسانیاں اورکامرانیاں حاصل ہیں وہ انہیں کسی نے پلیٹ میں رکھ
کرنہیں دیں یہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اوراس کی رضا کیلئے جہادکرتے
ہوئے اپنے زوربازوسے حاصل کی ہیں ۔
مسلمان قوم قیادت کے معاملے میں ابھی پوری طرح بانجھ نہیں ہوئی،میں جب
برادراسلامی ملک ترکی کے نڈر اورمدبرلیڈر رجب طیب ایردوان اوربرادراسلامی
ملک ملائشیا کے معمار مہاتیربن محمد کودیکھتا ہوں تومجھے قلبی اطمینان
ہوجاتا ہے۔کاش رجب طیب ایردوان کی طرح پاکستان سمیت اسلامی ملکوں کے دوسرے
حکمران بھی مومن مسلمان جبکہ ان کے اندر بھی مجاہدبیداراوروہ شوق شہادت سے
سرشار ہوتے ۔اسلام اوراہل اسلام کیلئے رجب طیب ایردوان کادم غنیمت
ہے۔مسلمانوں کی صفوں سے صدائے حق بلندکرنیوالے باوفا،باصفا اورباحیاء رجب
طیب ایردوان اورمہاتیربن محمد پورے قد سے کھڑے ہیں،موت برحق ہے جوان
کاوجودہم سے چھین لے گی مگران کے کرداراورافکار ہماری آنیوالی نسلوں کیلئے
مینارہ نوربنے رہیں گے۔رجب طیب ایردوان ایک مدبر اوربہترین مقرر ہیں،وہ جب
اپنے پرجوش انداز میں خطاب کرتے ہیں تودل دھڑکتا نہیں بلکہ آسمانی بجلی کی
طرح کڑکتا ہے،ان کاشاعرانہ ،فلسفیانہ اوردانشمندانہ خطاب سننے والے باضمیر
لوگ بیقراری اورسرشاری کی ملی جلی کیفیت محسوس کر تے ہیں۔دوران خطاب رجب
طیب ایردوان کی طرف سے بامعنی الفاظ کے ''چناؤ'' سے ان کا''جھکاؤ''صرف اﷲ
تعالیٰ اور دین فطرت اسلام کی طرف ظاہرہوتا ہے۔وہ اسلامی اقدارکی سیاست
کررہے ہیں اسلئے انہوں نے اقتدار کواپنی مجبوری یا کمزوری نہیں بنایا ۔ترکی
میں ہونیوالی گذشتہ ناکام فوجی بغاوت کے دوران تُرکش جمہوریت نہیں بلکہ
اپنی محبوب قیادت کی محبت کادم بھرتے ہوئے شاہراہوں پرنکل آئے تھے ،انہوں
نے اپنے جوش وجذبہ اورعزم واستقلال سے ٹینکوں کارخ واپس فوجی چھاؤنیوں کی
طرف موڑدیا تھا۔ طیب ایردوان ترکی کے صدر نہیں بلکہ تُرک قوم کے نجات دہندہ
،ان کی ترجمان اوران کیلئے شفیق ومہربان شخصیت ہیں۔ ایردوا ن کی شخصیت
کاسحربیشک طلوع سحر اورٹھنڈی ہواجیسا ہے۔ وہ بجاطورپرعالم اسلام
کومتحداوران کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ایردوان کے اوصاف حمیدہ
دیکھتے ہوئے دلی دعا ہے اﷲ تعالیٰ اسلامی ملکوں کومزید چھ سات رجب طیب
ایردوان عطاء فرمائے۔آمین
ان دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں تُرک سیریل ''ارطغرل غازی'' کی شہرت
اورکامیابی کاڈنکا بج رہا ہے،پاکستانیوں سمیت دوسرے ملکوں کے لوگ بھی اس کے
دیوانے بلکہ اس کے سحر کے اسیرہیں۔اسلامی معاشروں پراس کے مثبت اثرات سے
انکار نہیں کیا جاسکتا،مسلم معاشروں کو''فسادی'' کلچر سے نجات جبکہ مذہبی
وسیاسی آزادی کی حفاظت کیلئے ''جہادی'' سوچ کوبیدارکرناہوگاکیونکہ جہاد
اوراجتہاد اسلام کے اہم ستون ہیں۔ یہ تاریخی اہمیت کی حامل پلے سیریل محدود
سطح پرہونیوالے منفی ''پروپیگنڈے ''کے باوجود دنیا بھر میں کامیابی کے''
جھنڈے'' گاڑتی چلی جارہی ہے،اس میں کرداروں کیلئے اداکاروں کا انتخاب
کرنیوالی شخصیت کے ویژن کوداددیناہوگی۔اس سیریل کوانتہائی پیشہ ورانہ مہارت
،انتھک محنت اورکمٹمنٹ کے ساتھ بنایاگیا،مجھے اس کاکوئی بھی شعبہ کمزور
نہیں لگا۔اس میں ہرادکاراوراداکارہ نے اپنے اپنے کردارکے ساتھ خوب انصاف
کیا ہے ۔ارطغرل غاز ی پرتنقیدکرنیوالے " بونوں ـ" اورحاسدوں کی کوئی حیثیت
نہیں ہے۔پاکستان میں فلم اورپلے کے نام پرہمارے قابل رشک''
کلچر''کا''کچرا''بنانے والے اسلئے ارطغرل غازی کیخلاف شورمچا رہے ہیں
کیونکہ ان کی دکانیں بندہوگئی ہیں۔ارطغرل غازی منظرعام پرآنے سے ابھی تو ان
کی دکانیں بندہوئی ہیں عنقریب زبانیں بھی بندہوجائیں گی۔حقیقت تویہ ہے ایک
شریف خاندان پاکستان کی شوبزانڈسٹری کی کوئی فلم یااس کا کوئی پلے تودرکنار
کمرشل اشتہاربھی ایک ساتھ بیٹھ کرنہیں دیکھ سکتا۔ہماری پنجابی فلم کے
مقابلے میں بھارتی پنجاب کے سردار ہزارگنااچھی اورسلجھی ہوئی فلم بنارہے
ہیں ۔پاکستان میں شوبزانڈسٹری کے بڑوں کاکہنا ہے ہم وہ بناتے ہیں جو لوگ
دیکھنا پسندکرتے ہیں جبکہ راقم کے نزدیک وہ بنایاجائے جوشہریوں کیلئے
دیکھنا ناگزیر اورمفیدہے۔ترکی نے اسلامی روایات کی آبیاری کیلئے ارطغرل
غازی بنایااورمسلمانوں کوبیدارکردیا ۔ارطغرل غازی کے باوقار ہیرو Engin
Altan Duzyatan،ان کی اہلیہ حلیمہ سلطان کاکرداراداکرنے والی باصلاحیت
اداکارہ Esra Bilgic،کائی قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کاکردارنبھانے والے
Serdar Gokhan،حائمہ خاتون کاکردار اداکرنیوالی Hulya Darcan ،محی الدین
ابن العربی کااسلامیت وروحانیت سے بھرپوراورپرُنورکرداراداکرنیوالے Ozman
Sirgood ،دلی دمیر کا شاندار اورجاندار کرداراداکرنیوالے Mehmet Cevikجبکہ
زورآوراورقدآور ترگت کاکرداراداکرنیوالے Gengiz Coskun سمیت متعدد مثبت
کرداروں کوپاکستان سمیت متعدد معاشروں میں ہیروزکی حیثیت مل گئی ہے۔ Engin
Altan Duzyatanاور Esra Bilgic اب تُر کوں سے زیادہ پاکستانیوں کی محبوب
شخصیات ہیں۔ترکی نے جس بڑے کاز کیلئے ارطغرل غازی بنایا وہ اس میں پوری طرح
کامیاب رہا ۔ عنقریب پاکستان میں لوگ اپنے نوزائیدہ بچو ں کے نام ان تُرک
شخصیات کے نام پررکھیں گے۔ میراسلطان اورارطغرل غازی سمیت دوسرے تُرک پلے
پاکستان اورترکی کے درمیان برادرانہ اوردوستانہ تعلقات کومزید پختہ
اورگہراکرنے کیلئے پل کاکرداراداکررہے ہیں۔منتشراسلامی معاشروں کوآپس میں
جوڑنے کیلئے ترکی کو اس قسم کے مزید ''پلے ''یعنی ''پل ''بنانے کی اشد
ضرورت ہے۔
اِسلام کی بقاء اورکشمیریوں وفلسطینیوں سمیت دنیا بھرکے مغلوب مسلمانوں کی
آزادی وبہبودی کیلئے اہل اسلام کو اﷲ تعالیٰ کی رسی مضبوطی سے تھامنا
ہوگی۔مسلما ن اپنے اور اسلام کے روشن مستقبل کیلئے اقتدار کی باگ ڈور''
مقبول'' نہیں'' معقول'' قیادت کے سپردکریں ۔بیشک دورِخلافت اِسلام اوراہل
اِسلام کیلئے مجموعی طورپراستقامت،اخوت ،عافیت اور راحت کادور تھا۔اس کی
بحالی سے یقینا اسلامی معاشروں میں امن وآشتی، خوشحالی اورزیرک وعادل قیادت
کادورواپس آئے گا۔جمہوریت درحقیقت اسلامیت سے متصادم ہے،اس ناقص نظام نے
مسلمان ملکوں سے خودمختاری اورخودداری چھین لی اورانہیں اسلام دشمن قوتوں
کے تنخواہ داروں اوروفاداروں کاغلام بنادیا۔اس طرزحکومت نے مسلمانوں کوزندہ
ضمیرقیادت کے کال، زوال ،جمود،جہالت اور عشرت پسند ''بچے جموروں''کے سواکچھ
نہیں دیا۔عہدجمہوریت میں'' بردبار''نہیں ''بزدار''راج کرتے ہیں۔ جمہوریت نے
پاکستان کومدبرومخلص قیادت سے محروم کردیا جبکہ سیاسی بونوں نے اقتدار
کویرغمال بنالیا ۔یہ جمہوریت کسی اسلامی ملک میں جمہورکوراس آئی نہ آئندہ
ان کے ہاتھ کچھ آئے گا۔انسان کابنایاہوا نظام اورآئین بیشک اﷲ رب العزت کے
کلام،احکام اوراس کے پسندیدہ نظام کامتبادل نہیں ہوسکتا ۔
|