نواز شریف کی تقریر اے پی سی پر ہاوی آگئی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
نواز شریف کی تقریر اے پی سی پر ہاوی آگئی
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
مولانا صاحب حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کے ساتھ اے پی سی منعقد کرانے میں کامیاب ہوہی گئے اور بلاول بڑے میاں صاحب کوجوش دلانے میں کامیاب ہوئے، اس جوش کے نتیجے میں میاں صاحب نے اپنے اندر کا غبار جی بھر کے نکالا ۔ عمران خان نے میاں نواز شریف کی تقریر کو میڈیا پر لائیو دکھانے کی اجازت دے کر یہ ضرور ثابت کردیا کہ کپتان اب ایک سیاست داں بن چکا ہے ۔ تحریک انصاف کے کئی اہم لوگ اس کے حق میں نہ تھے لیکن کپتان نے یہ فیصلہ کر کے میاں صاحب کے لیے از خود مشکلات پیدا کرنے کا سامان کردیا ۔ میاں صاحب کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی، کوئی نیا پلان، نئی حکمت عملی، نیا بیانیہ، کچھ نہیں تھا ، انہوں نے اپنی پختہ سوچ جس پر وہ اپنے سابقہ تینوں ادوار میں عمل کرتے رہے ہیں اب بھی انہوں نے وہی کچھ کہا ، گویا ان کے اندر کا نواز شریف مشکل دور کی چکی سے گزرجانے کے باوجود بھی اپنی وہی سوچ رکھتا ہے، یعنی اسٹیبلشمنٹ سے محاز آرائی ۔ ایک جانب انہوں نے اپنے دل میں چھپی باتوں کو کھول کر رکھ دیا، عمران خان یہی تو چاہتا تھا کہ نواز شریف کی تقریر کو میڈیا پر دکھا یا جائے تاکہ نواز شریف ایکسپوز ہو، جو باتیں باہر جانے کے حوالے سے کہی جارہی ہیں انہیں تقویت ملے ۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو میاں صاحب نے بہادری کا ثبوت بھی دیا ، ان کی صحت کی جو صورت حال ہے، جس طریقے سے وہ ملک سے علاج کرانے گئے، علاج ہوا یا نہیں وہ اللہ جانتا ہے یا پھر وہ خود جانتے ہوں گے ۔ انہوں نے اپنے اس بیانیہ سے جو ان کا ہمیشہ سے رہا ہے سے کمپرومائز کرنے سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ اعلان بغاوت بلند کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس صورت حال میں بھی طاقت کے سامنے کھڑے ہیں ۔ سیاست دیکھئے میاں صاحب نے کہا کہ ’’ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ، انہیں لانے والوں سے ہے‘‘ ۔ کاش میاں صاحب لانے والوں کی وضاحت صاف صاف الفاظ میں کردیتے لیکن سیاست دان اتنے بہادر نہیں ، اشاروں ، کناروں میں ، دھکے چھپے الفاظ میں ، تشبہات دیتے ہوئے اشارہ جس جانب کررہے ہوتے ہیں وہ سب کو معلوم ہوتا ہے لیکن کھلے الفاظ میں کہنے کی جرت کسی سیاست داں میں نہیں ۔ عمران خان کو اگر کوئی لایا ہے تو اس سے پہلے بھی جو حکمراں آئے انہیں بھی کوئی یقینا کوئی لایا ہوگا ۔ ہماری بد قسمتی یہی رہی ہے کہ ہم نے کبھی انتخابات کے نتاءج کو قبول ہی نہیں کیا، ہمارا طرز عمل تو یہی رہا کہ خود جیتے تو درست ، دوسرا جیت گیا تو اسے کوئی لایا ۔ سیاست دانوں کے اس گورکھ دھندے ، دوغلی حکمت عملی نے ملک کو تباہی کے کنارہ پر لا کھڑا کیا ۔ کسی سیاست داں کا کچھ نہیں بگڑا ، حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر سیاست دان خوش حال ہی رہتا ہے، یہاں تک کہ جیل میں بھی اسے جو آسائشیں میسر ہوتی ہیں وہ ہمارے ہاں اپر مڈل کلاس کو بھی میسر نہیں ہوتیں ۔ غریب کو تو دور کی بات ہے ۔
اے پی سی میں جو کچھ ہوا ، وہ میڈیا نے خوب خو ب دکھایا، سوشل میڈیا مسلسل نمک مرچ لگا کر دکھاتا رہا ۔ اے پی سی میں مولانا صاحب حکومت کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے، بلاول بھی حکومت پر حملے کرتے رہے لیکن جمہوری عمل کو گرانے کے حق میں نظر نہیں آئے مولانا صاحب منتخب ایوانوں سے استعفےٰ دینے کے حق میں ہیں لیکن بڑی جماعتیں خاص طور پر نون لیگ اور نہ ہی پی پی اس کے حق میں ، شہباز شریف نے بلاول کی اس بات پر کہ فوجی قیادت سے ملاقاتیں نہیں ہوں گی کے جواب میں فوری ری ایکٹ کیا ، گویا شہباز شریف صاحب اتنے سخت موقف کے حق میں نہیں ، ان کا ماضی کا ریکارڈ بھی اسی قسم کا رہا ہے، وہ طاقت سے ٹکراوَ کسی صورت نہیں چاہتے ۔ یہ خبر بھی شیخ رشید کے حوالے سے آئی جو آج اخبارات کی شہ سرخی بنی کہ ’گزشتہ ہفتے آرمی چیف ،ڈی جی آئی ایس آئی سے شہباز ، بلاول، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن کے بیٹے کی ملاقات ہوئی، جس پر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ’ جنرل باجوہ نے کہا کہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے پابند ہیں ‘‘ ۔ ملاقات کسی بھی مسئلہ پر ہی کیوں نہ ہوئی ہو ملاقات تو ہوئی ، پھر ظاہر کچھ باطن کچھ، سیاست اسی کا نام ہے ۔ سپہ سالار جنرل باجوہ نے واضح الفاظ میں کہا ’’کہ فوج کو سیاست میں ہ گھسیٹیں ، حالیہ قانون سازی، انتخابی اصلاحات یا نیب معاملات میں ہماری کوئی مداخلت نہیں ‘‘ ۔ مولانا صاحب نے اے پی سی کے دوران پی پی سے احتجاج کر ڈالا، پرچے ادھر اُدھر ہوگئے، بلاول کا پرچہ مولانا صاحب نے پڑھنا شروع کردیا، پیچھے کھڑے لیڈروں کے کارندوں کی دوڑیں لگ گئیں ، مائیک پر آوازیں سنائی دیں ’’مولانا صاحب یہ آپ کا پرچہ نہیں ‘‘، بلاول ،مولانا صاحب کو اپنا پرچہ پڑھتے دیکھ کر کرسی پر بے چین اور خواتین کی کلاس بھی لی، مجموعی طور پر اے پی سی بڑے میاں صاحب کی تقریر جیسی بھی تھی کی وجہ سے کامیاب کہی جاسکتی ہے ۔ بلکہ اے پی سی پیچھے رہ گئی، میاں صاحب کی تقریر آگے چلی گئی ۔ میاں صاحب کی تقریر کے بعد میڈیا پر نواز شریف اور ان کی تقریر حکومتی حلقوں اور تجزیہ کاروں کے لیے موضوع بحث بنی رہی اور کچھ دن تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
پاکستان کی عوام باوجود اس کے کہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی سے کسی صورت مطمئن نہیں ، حکومت کے دوسال ایک تو کارکردگی کے باعث دوسرے بعض آفات کے باعث حکومت وہ اہداف حاصل نہ کرسکی، خاص طور پر مہنگائی پر عوام کے سخت تحفظات ہیں ۔ رہی سہی کثر کووڈ19نے پوری کردی ۔ ٹڈی دل کا حملہ، قرضوں کا بوجھ، اچھا اور قابل ٹیم کا نہ ہونا ایسے عوامل ہیں جن کے باعث حکومت کے لیے بہتر کارکردگی جیسے الفاظ بھی مناسب نہیں ۔ کورونا نے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ پاکستان کی معیشت تو پہلے ہی ڈاوَن تھی رہی سہی کثر کورونا نے پوری کردی ۔ ان سب باتوں کے باوجود حکومت کو ملک میں مہنگاہی کو ہر صورت میں کنٹرول کرنا چاہیے ۔ عوام کی اکثریت کا موڈ سڑکوں پر آنے والا دکھائی نہیں دیتا، جلسے ، جلوس ، ریلیاں ، ممکن ہے دھرنا بھی ہوجائے لیکن کوئی بہت بڑا سیٹ بیک حکومت کے خلاف ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ استعفوں کے حوالے سے تقسیم واضح دکھائی دی، منطق دیکھئے کہ نون لیگ اپنے استعفےٰ پیپلز پارٹی کو دے دے ، پیپلز پارٹ اپنے استعفےٰ نون لیگ کو دے دے پھر دونوں یہ استعفے مولانا صاحب کو دے دیں ۔ باقی جماعتیں کیا کریں گی ۔ بلکہ دیگر جماعتوں میں اکثریت ان چھوٹی جماعتوں کی ہے جن کے پاس کوئی ایک سیٹ ہے بھی نہیں ۔ یہاں استعفوں کے معاملے میں اے پی سی میں صرف گرما گرم بحث ہی ہوئی، اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔ پیپلز پارٹی کسی صورت سندھ میں اپنی حکومت قربان نہیں کرسکتی ۔ یہی صورت حال ان ہاوَس تبدیلی کے حوالے سے سامنے آئی مولانا صاحب نے ہی وہ تفصیل بیان فرمادی جب جب حکومت اور حزب اختلاف کا مقابلہ ایوانوں میں ہوا، یعنی وزیر اعظم کا انتخاب، قومی اسمبلی کے چیئر مین، سینٹ کے چیرَمین،پہلا اور اب دوسرابجٹ پاس کرنا اور حال ہی میں فیٹف اور دیگر انسداد منی لانڈرنگ سمیت اہم بلوں کی منظوری میں حزب اختلا ف کے 36اراکین کی غیر حاضری کیا معنی رکھتی ہے، اس سے قبل باغی سینیٹر ز کی تلاش کا بیان دے کر معاملے کو دبا دیا گیا، وہ باغی سینیٹر آج تک سامنے نہیں آئے ۔ حکومت کی اس کامیابی کو شہباز شریف نے جنہوری تاریخ کا سیا ہ دن قرار دیا ۔ حزب اختلاف سڑکوں پر ، میڈیا پر گولاباری کرتی نظر آتی ہے لیکن جب معاملا ایوانوں سے قانون پاس کرانے کا آیا ، حزب اختلاف ادھر اُدھر ہوتی رہی ہے ۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے خلاف بڑی احتجاجی تحریک چلانے کے مسئلہ پربڑی سیاسی جماعتوں میں یکسوئی کا فقدان دکھائی دے رہاہے ۔
میاں نواز شریف حکومت کو مارچ سے قبل رخصت کرنا چاہتے ہیں اس کی ایک خاص وجہ مارچ میں سینٹ کے ہونے والے انتخابات ہیں ، اگر مارچ میں حکومت قائم رہتی ہے جس کے آثار نمایاں دکھائی دے رہے ہیں تو حکومت کو سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی، میاں صاحب مارچ سے قبل مڈ ٹرم انتخابات کی بھی بات کرتے ہیں تاکہ انہیں سینٹ میں ان کی برتری برقرار رہے ۔ رپورٹ کے مطابق اے پی سی نو گھنٹے جاری رہی، مولانا صاحب بار بار اعلامیہ تبدیل کراتے رہے ۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ’’اکیلے نا جانا ہ میں چھوڑ کر ‘‘ ایک مزاق ہی تھا ۔ اے پی سی کے اختتام پر 26نکات پر مشتمل قراردد متفقہ طور پر تیارکی گی ۔ اے پی سی کے توسط سے میاں نواز شریف کی عملی سیاست میں واپسی اور ان کے اندر جو کچھ عرصہ دراز سے لاوا پک رہا تھا سے وہ باہر نکالنے میں کامیاب ہوگئے ۔ حکومتوں کے خلاف اتحاد ہم نے بنتے دیکھے، ان کا حشر برا ہوتا دیکھا، کارکن تمام جماعتوں کے اور عوام سرِ دست کورونا اور بے روزگاری جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہے اور کسی بھی قسم کی اسٹریٹ پاور دکھانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتے ۔ مولانا فضل الرحمن واحد لیڈر ہیں جو منتخب ایوانوں سے باہر ہیں ، وہ کسی بھی طرح حکومت کو رخصت کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن بڑی جماعتیں مولانا صاحب کی خواہش پر ہا ں ہاں تو کرتی دکھائی دے رہی ہیں لیکن اندر سے خاموشی اور غیر اعلانیہ طو ر پر وقت گزارنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں ۔ حکومت وقت نے حزب اختلاف کی اے پی سی کو یہ کہتے ہوئے رد کردیاکہ کسی کو کوئی رعایت نہیں ملے گی ۔ (22ستمبر2020)
|