معجزہ، لفظ عجز سے بنا ہے۔ معجزہ اس کام کو کہتے ہیں، جسے
کوئی نبی یا رسول اپنی نبوت یا رسالت کی بطور دلیل و ثبوت، عوام الناس کے
سامنے پیش کرتا ہے۔ جس کے کرنے سے لوگ بے بس، ناچار اور عاجز ہوجائیں اور
عوام الناس کو علم یقین، عین یقین بلکہ حق یقین ہوجائے کہ رب الناس، ملک
الناس الٰہ الناس ہی کا کلام ہوسکتا ہے۔ انسانی تفکر اور تدبر کے بس کی بات
نہیں۔ایک آسمانی پکار ہے ’’ہے کوئی ایسا شعلہ بیاں،گوہر افشاں، فخرِ زماں،
ترم خاں، مرد میدان شاعر یا ادیب، واعظ یا خطیب، مقرر یا محرر جو اسلوب
بیان قرآن کے میدان میں مد مقابل بن کر مقابلہ کے لیے آئے، لیکن زبان گنگ
اور ذہن سن ہوگئے، سر قلم تسلیم خم ہوگئے، مکہ میں کئی بار اعلان کیا گیا
کہ قرآن اول تا آخر اللہ کا کلام ہے۔ کسی انسان کا کلام اور اس کے ذہن کی
پیداوار نہیں۔
سورۂ ملک مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔( خازن، تفسیر سورۃ الملک، ۴/۲۸۹)
رکوع اور آیات کی تعداد:
اس سورت میں 2 رکوع، 30 آیتیں ہیں ۔
سورۂ ملک کے اَسماء اور ان کی وجہِ تَسْمِیَہ :
اس سورت کے متعددنام ہیں جیسے اس کی پہلی آیت میں ملک یعنی سلطنت اور
بادشاہت کا ذکر ہے ا س مناسبت سے اسے سورۂ ملک کہتے ہیں ۔اس کی پہلی آیت
کے شروع میں لفظ ’’تَبٰرَكَ‘‘ ہے ا س مناسبت سے اسے سورۂ تبارک کہتے ہیں
۔یہ سورت عذابِ قبر سے نجات دینے والی، عذاب سے بچانے والی اور عذاب کو
روکنے والی ہے اس لئے اسے سورۂ مُنْجِیَہْ،سورۂ وَاقِیَہْ اورسورۂ
مَانِعَہْکہتے ہیں ۔یہ سور ت اپنے پڑھنے والے کے بارے میں جھگڑا کرے گی ا س
لئے اسے سورۂ مُجَادِلَہْ کہتے ہیں اور یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی
شفاعت کرے گی اس لئے اسے سورۂ شَافِعَہْ کہتے ہیں ۔
سورۂ ملک کے فضائل:
اَحادیث میں سورۂ ملک کے بکثرت فضائل بیان ہوئے ہیں اوران میں سے 4فضائل
درج ذیل ہیں ۔
(1) …حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں
’’ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
کسی صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک جگہ خیمہ نَصب کیا ،وہاں
ایک قبر تھی اور انہیں معلوم نہ تھا کہ یہاں قبر ہے۔ اچانک انہیں پتا چلاکہ
یہ ایک قبر ہے اور اس میں ایک آدمی سورۂ ملک پڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اس نے
سورۂ ملک مکمل کر لی۔وہ صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (جب)نبی
کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں
حاضر ہوئے تو عرض کی: یا رسولَ اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نے نادانستہ ایک قبر پر خیمہ لگا لیا،اچانک مجھے
معلوم ہو اکہ یہ ایک قبر ہے اور اس میں ایک آدمی سورۂ ملک پڑھ رہا ہے
یہاں تک کہ اس نے سورت مکمل کر لی۔تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نے ارشاد فرمایا’’ یہ سورت عذابِ قبر کوروکنے
والی اور ا س سے نجات دینے والی ہے۔( ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما
جاء فی فضل سورۃ الملک، ۴/۴۰۷، الحدیث: ۲۸۹۹)
(2) …حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ
اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا: ’’قرآن پاک میں تیس آیتوں کی ایک سورت ہے،وہ اپنی تلاوت کرنے
والے کی شفاعت کرے گی یہاں تک کہ اسے بخش دیا جائے گا۔وہ سورت’’تَبٰرَكَ
الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ‘‘ ہے۔( ابوداود، کتاب شہر رمضان، باب فی عدد
الآی، ۲/۸۱، الحدیث: ۱۴۰۰)
(3) …حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں
’’ سورۂ تبارک اپنے پڑھنے والے کی طرف سے جھگڑا کرے گی یہاں تک کہ اسے جنت
میں داخل کر دے گی۔( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل
فی فضائل السور والآیات، ۲/۴۹۴، الحدیث: ۲۵۰۸)
(4) … حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت
ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا’’بے شک میں کتابُ اللّٰہ میں ایک ایسی سورت پاتا ہوں جس کی
تیس آیتیں ہیں ۔جو شخص سوتے وقت اس کی تلاوت کرے گا تو اس کے لئے تیس
نیکیاں لکھی جائیں گی،اس کے تیس گناہ مٹا دئیے جائیں گے اور اس کے تیس
درجات بلند کر دئیے جائیں گے اور اللّٰہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتوں میں سے
ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس پر اپنے پر پھیلا دیتا ہے اور وہ اس آدمی کے
بیدار ہونے تک ہر چیز سے ا س کی حفاظت کرتا ہے ،وہ سورت ’’مُجادلہ‘‘ (یعنی
بحث کرنے والی)ہے جو اپنی تلاوت کرنے والے کے لئے قبر میں بحث کرتی ہے اور
وہ سورت ’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ‘‘ ہے۔ (مسند الفردوس، باب
الالف، ۱/۶۲، الحدیث: ۱۷۹)
سورۂ ملک کے مضامین:
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد جیسے اللّٰہ
تعالیٰ کی وحدانیَّت،حضورپُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی رسالت،قرآن کی حقّانِیَّت،حشر و نشر اورقیامت کے دن
اعمال کی جزا ء و سزا کو انتہائی مُؤثّر
انداز میں بیان کیا گیا ہے۔نیز اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں ۔
(5) …اس سورت کی ابتداء میں اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت ،سلطنت اور قدرت کے بارے
میں بیان کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ زندگی اور موت کوپیدا کرنے سے مقصود
لوگوں کے اعمال کی جانچ کرنا ہے۔
(6) … اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے آثار بیان کئے گئے کہ اس نے کسی سابقہ
مثال کے بغیر ایک دوسرے کے اوپرسات آسمان بنائے اور ان آسمانوں میں کسی
طرح کا کوئی عیب نہیں ،انہیں ستاروں سے مُزَیَّن کیا اور ان ستاروں کے
ذریعے آسمان کی طرف چڑھنے والے شیطانوں کو مارا جاتا ہے۔نیز اس کی قدرت کے
آثار میں سے یہ ہے کہ اس نے کافروں کے لئے جہنم کا دردناک عذاب تیار کیا
ہے اور ایمان والوں کو مغفرت اور عظیم اجر کی بشارت دی ہے۔
(7) …یہ بتایاگیا کہ اللّٰہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ،کھلی ہوئی اور چھپی
ہوئی ہر ہر بات کو جانتا ہے ۔
(8) …ان نعمتوں کو بیان کیاگیاجو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عطا
فرمائی ہیں تاکہ وہ اس کی نعمت کو پہچان کر ا س کا شکر ادا کریں اور اللّٰہ
تعالیٰ کی وحدانیَّت کا اقرار کریں ۔
(9) …کفارِمکہ کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا اور نبی کریم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو تسلی دی گئی کہ آپ ان کے
جھٹلانے کی وجہ سے غمزدہ نہ ہوں کیونکہ ان سے پہلے کافر بھی اپنے اَنبیاء
عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتے تھے۔
(10) …اس سورت کے آخر میں مؤمن اور کافر کا حال واضح کرنے کے لئے الٹا
چلنے والے اور سیدھا چلنے والے کی ایک مثال بیان فرمائی گئی اور حضور پُر
نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو جھٹلانے والوں
کو اللّٰہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا۔(صراط الجنان)
اے ہمارے پیارے :ہمیں کلام مجید سے خوب خوب استفادہ کرنے کی توفیق
عطافرما۔آمین
|