کچھ لوگ روٹھ کر ”ہی“ لگتے ہیں کِتنے پیارے

جس طرح لتا منگیشتر کو گانے، دلیپ کمار کو اداکاری کے نام پر لیکچر بازی، ”دانشوروں“ کو سوچے سمجھے بغیر بولنے، چوہدری شجاعت حسین کو بولنے کی آڑ میں نہ بولنے، محترم انور ”شدید“ کو ڈاکٹر وزیر آغا کا دفاع کرنے اور بعض ادیبوں کو صرف کتابوں پر تبصرے یا کتابوں کی رونمائی کی تقریبات سے خطاب کے لئے پیدا کیا گیا ہے بالکل اُسی طرح بہت سے لوگ اِس دنیا میں صرف اِس لیے بھیجے گئے ہیں کہ بات بے بات بُرا مانیں اور مینڈک کی طرح مُنہ پُھلائے پھریں! ہم حیران ہیں کہ نیشنل جیوگرافک والوں نے اِنہیں ڈاکومینٹری کا موضوع بنانے پر اب تک توجہ کیوں نہیں دی!

بات بات پر ناراض ہونے والے دراصل فلموں کی روایتی محبوبہ کا سا مزاج لیکر اِس دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ جس طرح فلموں میں محبوبہ کے رُوٹھنے کی کوئی حد نہیں ہوتی بالکل اُسی طرح اِن رُوٹھنے والوں کے لئے کوئی آخری حد مقرر نہیں ہوتی۔ سمندری طوفان کو کسی نہ کسی طور روکنا ممکن ہوسکتا ہے، بات بات پر مُنہ پُھلانے والوں کو اِس عمل سے باز رکھنا ممکن نہیں۔

ہماری فلموں نے یہ فارمولا بھی دیا ہے کہ کم کم ملیے تو محبت پروان چڑھتی ہے۔ مگر مرزا تنقید بیگ اپنے مفاد اور مزاج کے خلاف جانے والے کسی بھی فلمی فارمولے پر یقین نہیں رکھتے۔ اُن کا فلسفہ یہ ہے کہ محبت کی مثال خرگوشوں کی سی ہے، یعنی مِلنے سے محبت بڑھتی ہے! ہم نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ملنے اور ”ے“ کے بغیر ملنے میں واضح فرق ہے! زیادہ ملنے سے محبت کے بڑھنے کو مرزا محبت کی خاصیت گردانتے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک یہ محبت کے مُتَعدّی ہونے کی بَیّن دلیل ہے!

کچھ لوگ بُرا ماننے کے ایسے عادی ہوتے ہیں کہ کسی تقریب میں مزاج کے خلاف کوئی بات نہ ہو رہی ہو اور بُرا ماننے کا موقع ہی نہ مل رہا ہو تو زیادہ بُرا مان جاتے ہیں! جنہیں بُرا ماننے کا ”ہَوکا“ ہوتا ہے اُن کے لئے خوشی اور غم کی کوئی قید نہیں ہوتی! ایسے لوگ ہر موقع کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر طبع آزمائی کرتے اور شکار کھیلتے ہیں! خوشی کا موقع ہو تو اِن کا مزاج خاصا ”کِھلا“ ہوا ملتا ہے۔ اگر کارڈ تاخیر سے ملے تو مُنہ بن جاتا ہے، تقریب میں کُرسی مرضی کی نہ ملے تو طبع نازک پر گراں گزرتا ہے، بریانی میں بوٹیاں کم ہوں تو خاصے بھرم کے ساتھ برہم ہو جاتے ہیں، قورمے میں مسالا تیز ہو تو اِن کا ”ٹُھنکنا“ قابل دید ہوتا ہے، پانی ٹھنڈا نہ ہو تو یہ فوراً گرم ہو جاتے ہیں اور فوٹو سیشن میں بروقت نہ بلایا جائے تو سمجھ لیجیے قیامت نے تقریب میں قدم رنجہ فرمالیا!

بُرا ماننے کے عادی فنکار میت کے موقع پر بھی صاف پہچانے جاتے ہیں۔ شامیانے میں دریاں اور چاندنیاں اِن کی مرضی کے مطابق بچھائی جانی چاہئیں، میت کا گہوارہ اِن کے تجویز کردہ مقام پر رکھا جانا چاہیے۔ تدفین کے موقع پر بھی یہ لوگ مجلس قائمہ کی صورت سفارشات پیش کرتے رہتے ہیں! اِس موقع پر ان کا لہجہ یہ تاثر دے رہا ہوتا ہے کہ اِن کی ہدایات کے مطابق دفن نہ کئے جانے کی صورت میں مُردہ بخشا نہ جائے گا!

تدفین کے وقت لوگ مرنے والے کی ایسی خوبیاں بھی گِنوا رہے ہوتے ہیں جو اُس میں بھول کر بھی نہیں پائی نہ گئی ہوں! مگر کچھ دیر بعد میت والے گھر واپس پہنچنے پر یہی لوگ کھانے میں چھانٹ چھانٹ کر کیڑے نکال رہے ہوتے ہیں! اگر کوئی یاد دلائے کہ بھائی صاحب! جو آپ ٹھونسے جارہے ہیں وہ میت کا کھانا ہے تو منکر نکیر کی طرح گھُور کر دیکھتے ہیں! ایسے موقع پر اِن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے کچھ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ مُردوں پر عذاب کی کیا صورت ہوتی ہوگی!

ہماری حسرت ہی رہ گئی کہ بات بات پر رُوٹھنے والوں میں سے دو چار ہمارے نصیب میں بھی لکھ دیئے گئے ہوتے۔ اب مرزا ہی کی مثال لیجیے۔ جس طرح طوفان تھوڑے تھوڑے وقفے سے امریکی ساحلوں سے آٹکراتے ہیں بالکل اُسی طرح مرزا ہم سے روز آملتے ہیں مگر ہمارا حوصلہ، سادگی اور استقامت دیکھیے کہ ہم بے مزا نہیں ہوتے! مرزا کہتے ہیں کہ زندگی چار دن کی ہے اِس لیے ناراض واراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا جوابی استدلال یہ ہے کہ بھائی! زندگی چار دن کی ہے اِسی لیے ناراض بھی ہونا چاہیے تاکہ کسی کو سُکون کا سانس لینے کا موقع ملے اور وہ اپنے آپ پر بھی توجہ دے سکے! مرزا ہمارے دوست ہیں اِس لیے عقل سے عاری تو ہو نہیں سکتے، یعنی ہمارے استدلال کی باریکی سمجھتے ہیں مگر ذرا اُن کا ”خلوص“، ”بھولپن“ اور ”ابوالہول العزمی“ تو دیکھیے کہ ذرا بھی بُرا نہیں مانتے! مرزا جانتے ہیں کہ اگر وہ ناراض ہوئے تو ہم موقع غنیمت جان کر اُنہیں منانے کی رسمی سی کوشش بھی نہیں کریں گے! اِس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کم از کم ہماری نفسیات کے تو ماہر ہیں!

لوگ اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی کو کوئی بات بُری نہ لگ جائے اور ہم یہ سوچ کر پریشان رہتے ہیں کہ احباب کو ہماری تمام باتیں اچھی ہی لگتی رہیں تو کیا ہوگا! ہمارے عہد کے بچے ہی نہیں، بڑے بھی اب اِس قدر چالاک ہوگئے ہیں کہ سپاٹ لہجے میں بات کیجیے تو اِسے لکھاریوں کی خاصیت قرار دیکر ہنستے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں!

کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو رُوٹھنے سے صرف گریز ہی نہیں کرتے بلکہ ملتے رہنے کا باضابطہ اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں! آپ اِن کی آمد کا بُرا مانتے ہیں تو مانتے رہیں اور اگر آپ کا وقت ضائع ہوتا ہے تو ہوتا رہے۔ ایسی ”معمولی“ باتوں کو یہ توجہ کے قابل نہیں سمجھتے! اِن کی نظر بہت سے ”ارفع و اعلی“ٰ موضوعات پر رہتی ہے، مثلاً گلی میں کِس کا مکان بن رہا ہے یا کِتنا بن چکا ہے، کِس کا بیٹا آج کل کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کئے ہوئے ہے، کون زیادہ کما رہا ہے اور کیوں، کون کم کما رہا ہے اور کیوں، کِس کے گھر میں پَھڈّا چل رہا ہے اور کس کے گھر میں صُلح کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ اِن ”کام کی باتوں“ میں اُلجھاکر لوگ ہمیں کالم نویسی جیسے سطحی کام سے باز رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر ہماری ڈھٹائی دیکھیے کہ ہم غُچّہ دیکر بچ نکلتے ہیں اور اُن کا دل توڑتے ہوئے کچھ نہ کچھ لکھ ہی لیتے ہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486441 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More