کہتے ہیں کہ قوموں کا سرمایہ بنک
بیلنس،ایوان، محلات،فیکٹریاں،کھیت کھلیان ،دفاتر،گاڑیاں اور ادارے نہیں
ہوتے بلکہ اپنے ملک سے محبت کرنے والے اسے تعمیر کرنے والے ہنرمند لوگ ہوتے
ہیں،جو قوم اپنے محسنوں کا احترام نہیں کرتی وہ قوم کلاش کہلاتی ہے،خواہ اس
کے درختوں سے اشرفیاں اگنے لگیں، اس کے سارے پہاڑ سونا بن جائیں، اس کے
سارے دریا،ڈیم اور بیراج تیل بن جائیں وہ قوم پھر بھی کلاش ہی کہلاتی ہے،
یہ 3336 µ﴾3ہزار3سو ،36چھتیس ﴿سال قبل مسیح کی بات ہے کہ جب خداوند اقدس نے
تخلیق کائنات کے لیے ”جناب آدم “کو سری لنکا کی حسین وادیوں میں اُتارا،
پھر چند دنوں کے بعد ”جناب حوا“ بھی اس فانی دنیا کی ذینت بن گئیں،یوں
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ کائنات انسانی گروتھ کی آماجگاہ بن گئی،آج
7آسمانوں کے درمیان خلا میں ”زمین،عطارد،مریخ،گینی میڈ، سیاہ مشتری جیسے
لاکھوں سیارے موجود ہیں، لیکن جو ترقی خدا نے انسانی گروتھ کی بنا پرزمین
کودی ہے وہ آج تک کسی اور سیارے کو نہیں ملی ،آج انسانی نشو نما کا سبب بنے
والی اس کائنات پر تقریباً 6ارب 90کروڑ لوگ بستے ہیں،جن میں سے ایک ارب 57
کروڑ مسلمان ہیں اورباقی مختلف مذاہب کا بے دریغ مجموعہ ہیں،یہ سرزمینِ
کائنات آج 246ممالک کی مختلف باﺅڈیرزBondries میں بٹی ہوئی ہے،ایک دیشی کا
دوسرے دیش میں جانا محال ہے،لیکن 1400سال قبل جناب محمد ﷺ کی طرف دی گئی
ایک اَداءجیسے آج بھی لوگ ہجرت کہتے ہیں باقی بھی ہے اور رائج الو قت بھی
ہے، بلکہ گزرتے اَیام کے ساتھ اس کی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے، کہتے ہیں
2050ءتک دنیا کی آدھی آبادی ایک دوسرے کے ممالک میں مہمان بن کر زندگی گزار
رہی ہوگی، یہی وجہ ہے کہ انسانی ترقی ، انسانی نشو نما ، انسانی تربیت ،
اچھی زندگی اور اچھی تعلیم کے حصول کے لیے کی جانے والی ہجرت آج بھی رائج
ہے لوگ تعلیمی قابلیت اور کاروباری ترقی کے لیے آج بھی ہجرت کرتے ہیں، اگر
میری زبان غلطی سے لرز نہ جائے تو میں اسلام کی ایک ادنیٰ سا طالب علم ہونے
کی حیثیت سے یہ بات کہوں گا کہ آج کے دور میں دنیا میں وہ لوگ ترقی کی
منازل طے کر رہے ہیں جو مختلف شہر وں ، مختلف ملکوں اور مختلف خطوں کی طر ف
ہجرت کر رہے ہیں کیوں کہ اس سے ان کے فطرتی کلچر ،فطرتی عادات اور جدید دور
میں روزگار کے لیے مواقع کی تلاش میں نظریاتی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
آج اس دنیا میں کل 62اسلامی ممالک ہیں ،آج دنیا کی 53فیصد آبادی صرف پندرہ
بڑے ممالک میں رہائش پزیر ہے،آج پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں
بڑا ملک ہے،اسلامی شعائر کے لحاظ سے دنیا میں سب سے زیادہ حافظ قرآن
پاکستان میں پائے جاتے ہیں،یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان اسلامی دنیا
کا ایک مضبوط ایٹمی طاقت ملک ہے،ورنہ بھارت کا جو رویہ ہمارے ساتھ ہے ہم
اگردنیا کی تیسری بڑی ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو کب کے بھارت کے کسی کونے میں
ہاتھ میں کٹورا لیے بھیک مانگ رہے ہوتے ،آج ہمارے پاس 4ایٹمی ری
ایکٹرزپلانٹ ہیں ،ان ری ایکٹرز میں ہمارے ایک لاکھ تیس ہزار ”سائنسدان “اور
باقی لوگ دن رات کام کر رہے ہیں،پاکستان دنیا کا دوسرا بڑا نمک پیدا کرنے
والا ملک ہے،سونا اور کوئلہ پیدا کرنے کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک
ہے،دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم ہمارے پاس ہے، دنیا کی چھٹی طاقور ترین آرمی
پاکستان کی ہے ،ہم چاول پیدا کرنے کے لحاظ سے دنیا میں ساتویں اور گندم
پیدا کرنے کے لحاظ سے آٹھویں نمبر ہیں،اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 46%حصہ
چین اور بھارت میں ہے،چین ہمارا بہترین دوست ہے اور بھارت ہمارا بہترین
دشمن ہے،گزشتہ دنوں کراچی میںPNS مہران پر جو حملہ ہوا وہ بھی کسی حد تک
بھارت کی طرف جاتا نظر آرہا ہے کیوں کہ کراچی کا سمندر گزشتہ دس سالوں سے
سکڑتا نظر آرہا ہے، اس کلفٹن بیچ پر وہ جگہ جہاں کبھی سمندر ہوا کرتا تھا
اب وہاں آبادی ہے وہاں پر سب سے زیادہ تیل نکلنے والا ہے،اس کی قبضہ گیری
کے لیے یہ سب تیاری ہو رہی ہے،PNSمہران پر حملہ اسی پلائننگ کی ایک کڑی ہے
تاکہ پاکستان بحریہ کوکمزورکیا جاسکے تاکہ بھارت ان وسائل سے مستفید ہو۔
کہتے ہیں کہ ”میدان جنگ میںجب کوئی فوج اتر جاتی ہے تو اس وقت دانشوروں
اورصحافیوں کی سرگرمیاں ختم ہو جاتی ہیں“امریکہ اوریورپ سے ایک غلطی ہوگئی
ہے کہ وہ میدان میں جنگ میں اترآئے ہیں،اس لیے جب کوئی فوج میدان جنگ میں
اتر آتی ہے تو پھر فیصلہ بھی میدان جنگ میں ہی ہوتا ہے،اس لیے کالم نگار
،صحافی اور دانشور وں کا آج امتحان ہے کہ وہ قوم اور حکمرانوں کا کس حد تک
ذہین چینج کرتے ہیں،ورنہ کل کلاں اگر پاکستان امریکہ یا پاکستان بھارت کی
جنگ چھڑگئی تو پھر فیصلہ بھی میدان جنگ میں ہی ہوگا، اس وقت دنیا کے
78%وسائل اسلامی ممالک یا قریب اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہیں،کراچی کی
بندر گاہ ،پاک افغان سر حد،خلیج فارس،سنٹرل ایشیا ئی ممالک ،رشیا اور
چائینہ کے کچھ علاقے یہ وہ مقامات ہیں جو وسائل کی آماج گاہ ہیں،جو ممالک
خلیج فارس کے آس پاس ہیں وہ ان وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں،پاک افغان سر حد
اور افغانستان کا اندرونی علاقہ ابھی تک وسائل سے لبریز پڑا ہے،سنٹرل
ایشیائی ممالک میں سے ازبکستان ،آزربائیجان ،کزاقستان کسی حد تک کوششیں کر
رہے ہیں،ان تمام وسائل کی ترسیل کے لیے” کراچی بوٹ،گوادر بوٹ،خلیج فارس
بوٹ“ بہترین ساحل ہیں،ان وسائل کے حصول کے لیے آج دنیا میدان جنگ میں سینہ
تان چکی ہے،ہر ملک اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کی مکمل کوشش کررہاہے، جبکہ جن
ممالک میں یہ وسائل پائے جاتے ہیں ان میں حکومتیں کمزور ہونے کی وجہ سے
کوئی پوچھتا ہی نہیں ،امریکہ کی پہلے کوشش تھی کہ ان کو کراچی بوٹ کے ذریعے
منتقل کیا جائے اس لیے اس نے پاکستان میں ریلوے کا کچھ حصہ بجلی پر بھی چلا
یا،لیکن گوادر بوٹ کے آغاز نے اس کواپنے اس منصوبے پر نظرثانی کرنے پر
مجبور کر دیا ہے۔
آج امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ کم از کم 21ویں صدی تک تو ان وسائل پر قبضہ
جمائے رکھے تاکہ امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک انتہائی ترقی یافتہ بن
جائیںتاکہ ان کوکوئی شکست نہ دے سکے،اس لیے اس نے نیٹو کو یورپ سے نکال کر
ان ممالک میں لگا رکھا ہے،اس کے علاوہ امریکہ اور یورپ کی کوشش ہے کہ دنیا
میں عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ کوئی اور نظام رائج نہ ہو ،اس لیے جہاں
کہیں کسی اور نظام کے رائج ہونے کی کوششیں نظر آئیں ان کو مٹادو،اس کے لیے
اس نے دہشت گردی کا مصنوعی پروپگنڈا شروع کیا ہوا ہے،اس وقت یہودیوں کو
اسلام کے دن بدن پھیلنے کے بہت زیادہ خطرات ہیں،اس لیے مسلمان دو وجوہات کی
بنا پر ان کا نشانہ ہیں 1اسلام کے پھیلاﺅ کی وجہ سے 2خدا کی طرف سے عطاکیے
گئے وسائل کی وجہ سے۔ انتہائی آخر ی کوشش کے طور پر امریکہ چاہتا ہے کہ
اسرائیل کوزیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے کیوں کہ یہ ایک ناجائز ریاست ہے
اور ناجائز ریاستوں یا غیر قانونی چیزوں کی عمر ہمیشہ بہت کم ہوتی ہے،اس
لیے جتنا زیادہ ہو سکے اسرائیل کو مضبوط کر و تاکہ کوئی اس کو مٹا نے کی
کوشش نہ کرے ۔
اس وقت امریکہ اپنے ناجائز عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان کو دن بدن کمزور
کرنے پر تلا ہوا ہے،اس کےلئے اس نے فوجی حکمران ، کمزور وزراءاور کرپٹ
اسمبلی ممبر ز کی مدد لی ہے، اس وقت پاکستان ڈرون حملوں اوربم دھماکوں سے
سرکاری اِملاک کی تباہی کی زد میں ہے گزشتہ دنوں کراچی میں نیول بیس کی
تباہی اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی شہادت کا جھوٹا ڈرامہ اسی مشن کا
ایک حصہ تھے،اس کے لیے امریکہ نے ”صدر ، وزیر اعظم ،چند وزاءاورچند میڈیا
کے لوگوں سے مدد لی تاکہ وہ اپنی قوم کو یہ باور کراسکے کہ وہ اپنے مشن میں
کامیاب ہو رہا ہے،اس وقت پاکستانی عوام بہت زیادہ پریشان ہے کہ ہمارے
حکمران ضمیر فروش کیوں بن گئے ہیں،اسی لیے تو بطورپاکستانی محب وطن ”احمد
رضا“کے پاکستانی عوام کو بڑی شدت کے ساتھ کراچی اور ایبٹ آباد کے واقعات
پر” صدر ،وزیر اعظم ،ISIکے چیف اور آرمی چیف “سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ
کردینا چاہے ، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ جب بلوچستان اور خیبر پختون خواہ
پاکستان سے الگ کر دئیے جائیں گے اور ہمارے صدر اور وزیر اعظم 2ہفتوں بعد
بیان دے دیں گے کہ یہ علاقے تو ہمارے ساتھ چلنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ |