اشرف الاولیا: حیات وخدمات

کتاب : اشرف الاولیا: حیات وخدمات
مولف : مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی
صفحات : ۲۷۲
سن اشاعت : چوتھا ایڈیشن ۱۴۴۱ھ/۲۰۲۰ء
ناشر : تاج الاصفیا دارالمطالعہ مخدوم اشرف
مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال
مبصر : محمد ساجدرضا مصباحی

خانوادۂ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ ہندوستان کا عظیم علمی وروحانی خانوادہ ہے ، اس خانوادے میں علم وادب اور معرفت وروحانیت کی بڑی عظیم اور عبقری شخصیتیں جلوہ گر ہوئیں ، جنہوں نے خلق خدا کی رشد وہدایت کے ساتھ علم وادب کے فروغ میں بھی اہم کار نامے انجام دیے ۔ خانوادۂ اشرفیہ کی انھیں ممتاز، عہد ساز اور نابغۂ روزگار شخصیات میں ایک چمکتا دمکتا نام شیخ طریقت ، اشرف الاولیا علامہ الشاہ سید مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ کا ہے،آپ اپنے عہد کے عبقری عالم وفاضل ،بےمثال شیخ طریقت، باکمال واعظ وخطیب، کام یاب مناظر ومتکلم اور دین وسنیت کے سچے داعی ومبلغ تھے ۔
زیر تبصرہ کتاب’’اشرف الاولیا:حیات وخدمات‘‘خانقاہِ اشرفیہ کچھوچھہ مقدسہ کے اسی بطل جلیل کی حیات وکار نامے پر مشتمل ہے ، آپ کی حیات وخدمات پر یہ اولین کاوش ہے،اس سےقبل تحریری شکل میں آپ کے نقوش حیات محفوظ نہیں تھے،اس کتاب کے مؤلف جواں سال عالم ومحقق، کئی کتابوں کے مصنف ، اتر پردیش کی اہم دینی درس گاہ ادارۂ شرعیہ اتر پردیش راے بریلی کے استاذ ومفتی اور شیخ الحدیث،جامعہ اشرفیہ مبارک پور کےممتاز فاضل حضرت مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی ہیں،مولف محترم نے حضرت اشرف الاولیاکی حیات وخدمات کی جمع تدوین میں کس قدر عرق ریزی فرمائی ہے،اس کاصحیح اندازہ کتاب کے مطالعے کے بعد ہی لگایا جاسکتا ہے ، کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب تک اس کے تین ایڈیشن ختم ہو چکے ہیں،چوتھا ایڈیشن منظر عام پر ہے۔بنگلہ سمیت کئی زبانوں میں اس کے ترجمے بھی ہو چکے ہیں ۔

۲۷۲؍ صفحات پر مشتمل اس گراں قدر تالیف میں بارہ ابواب ہیں ،باب اول ابتدائیہ کے نا م سے ہے، جس میں شرف انتساب، نذر عقیدت، سخن ہائے گفتنی،اظہار تشکر اور عرض ناشر وغیرہ شامل ہیں ۔
دوسراباب عہدِ حاضر کے جلیل القدر علما ومشائخ ، اصحاب فکر وقلم اور اہل علم ودانش کی گراں قدر تقریظات پر مشتمل ہے، کسی ایک تالیف میں اس قدر کثیر تعداد میں ملک بھر کےمستند علما ومشائخ کی تقریظات کا شامل ہو نا یقینا نادرہے،یہ تقریظات جہاں کتاب کی عظمت وافادیت میں چار چاند لگاتے ہیں،وہیں مؤلف کی سعادت مندی،اخلاص ووفا اور علما مشائخ کے مابین بے پناہ مقبولیت کی بھی دلیل ہیں۔اس باب میں شہزادہ ٔ گرامی حضرت مولانا سید جلال الدین اشرف اشرفی جیلانی مصباحی سربراہ اعلیٰ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف، بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی مصباحی مبارک پوری [ ]،محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکور مصباحی مدظلہ العالی، سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور،خیر الاذکیا حضرت علامہ محمد احمد اعظمی مصباحی سابق صدرالمدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور، سراج الفقہا حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی مصباحی صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبارک پور،نصیر ملت حضرت علامہ نصیر الدین عزیزی مصباحی استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور،ماہر لسانیات ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی،مولانا آزاد یونی ورسٹی حید ر آباد ،عالم ربانی حضرت مفتی آل مصطفیٰ مصباحی ، جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو کی گراں قدر تقریظات شامل ہیں ، یہ دل پذیر تقریظات ۳۳؍ صفحات پر پھیلی ہو ئی ہیں۔

باب سوم تاثرات کے عنوان سے ہے ، جس میں ہندوستان کے مرکزی اداروں کے چوٹی کے اساتذہ اورمقدس خانقاہوں کےذی علم مشائخ عظام کے تاثرات شامل ہیں،ان تاثرات سے حضرت اشرف الاولیا کی حیات وخدمات کے اہم گوشوں پر روشنی پڑتی ہے اور آپ کی تہ دار شخصیت کےکئی پہلو سامنے آتے ہیں ، اس باب میں حضرت علامہ سید مقصود اشرف اشرفی جیلانی جائسی ، مولاناسید محمد احمد اشرفی جیلانی جائسی، مولانا عبد الودود فقیہ راے بریلوی،علامہ عبد المبین نعمانی مصباحی چریا کوٹ، مفتی بد ر عالم مصباحی،مولانا نفیس احمد مصباحی ،مولانا ناظم علی مصباحی اساتذۂ جامعہ اشرفیہ مبارک پور ، مولانا طاہر مصباحی کولکاتا،مولانا ممتاز عالم مصباحی شمس العلوم گھوسی مئو یوپی، مولانا داکٹر عاصم اعظمی گھوسی ،مولانا رضوان احمد نوری شمس العلوم گھوسی ،مفتی رضاءالحق اشرفی مصباحی ،مولانا مفتی شہاب الدین اشرفی جامعی جامع اشرف کے تاثرات شامل ہیں ۔

باب چہارم حیات وخدمات کی شہ سُرخی کے ساتھ ۱۲؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے، جس میں پیش لفظ ، کلمات تقدیم اور حرف آغاز شامل ہیں ،پیش لفظ میں معروف صحافی حضرت مولانا مبارک حسین مصباحی چیف ایڈیٹر ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور نے تذکرہ نگاری کے حوالے سے بیسویں صدی عیسوی کی سرگرمیوں اور اس عہد میں ہونے والے کاموں کی نوعیت بیان کرتے ہوئے حضرت اشرف الاولیا کی علمی وروحانی عظمتوں کو اجاگر فر مایا ہے۔ صاحب تذکرہ حضرت اشرف الاولیا نے دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں اس وقت کے جلیل القدر اساتذہ حافظ ملت علامہ عبد العزیز محدث مراد آبادی،مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی ، مولانا عبد المصطفیٰ ازہری،مولانا عبد الرؤف بلیاوی،مولانا سلیمان اشرف بھاگل پوری،مولانا شمس الحق گجہڑویوغیرہ سے اکتساب علم کرکے ۱۳۶۶ھ مطابق ۱۹۷۴ء میں فراغت حاصل کی،اس حوالے سےحضرت مولانا مبارک حسین مصباحی پیش لفظ میں رقم طراز ہیں :
’’ کچھوچھہ مقدسہ کے موجودہ علما ومشائخ میں ایک بڑی تعداد فارغین اشرفیہ کی ہے ،جنھوں نے دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں تعلیم حاصل کی اور جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی وبانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی آغوش تر بیت میں آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ کو یہ جان کر مسرت ہوگی کہ پورے قافلۂ شوق کے میر کارواں ابولفتح اشرف الاولیا حضرت سید مجتبیٰ اشرف اشرفی جیلانی نور اللہ مرقدہ تھے ، اس سلسلے کی آخری کڑی شہزادۂ اشرف الاولیا پیر طریقت حضرت سید جلال الدین اشرف اشرفی جیلانی دامت برکاتہم القدسیہ ہیں ، خدا کرے یہ علمی اکتساب اور روحانی فیض رسانی کا سلسلہ قائم ودائم رہے۔ ‘‘[اشرف الاولیا : حیات وخدمات، پیش لفظ ،ص: ۹۲]

[الحمد للہ یہ مبارک سلسلہ جاری ہے ،ابھی گزشتہ سال [۱۴۴۱ھ/۲۰۲۰ء میں] حضرت سید جلال الدین اشرف اشرفی دام ظلہ العالی کے صاحب زادے حضرت مولاناسید اوحد الدین معاذ اشرف اشرفی جیلانی مصباحی قبلہ نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فراغت حاصل کی ہے۔ تبصرہ نگار]

ص: ۱۰۳ سے سوانحی گفتگو کا آغاز ہو تا ہے، مولف محترم نے حزم واحتیاط کے دائرے میں رہتے ہوئے سوانحی مواد کو سلیقے سے جمع فرمایا ہے ، باب چہارم وپنجم میں میں حضرت اشرف الاولیا کے پدر بزگوار حضرت مولانا سید شاہ مصطفیٰ اشرف کے مختصر حالات، حضرت اشرف الاولیا کی ولادت باسعادت ، سلسلۂ نسب، بسم اللہ خوانی وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے ۔

باب ششم میں اعلیٰ تعلیم وتر بیت اور علمی خدمات، باب ہفتم میں تبلیغی ودعوتی خدمات، باب ہشتم میں محاسن وکمالات، باب نہم میں دینی وملی خدمات ،باب دہم میں سفر آخرت اور اولاد امجاد،باب یازدہم میں تصرفات وکرامات کو موضوع سخن بنایا گیا ہے، جب کہ کتاب کا آخری باب منظومات کے لیے مختص ہے ۔
حضرت اشرف اولالیاء نے جہاں بیعت وارادت کے ذریعہ خلق خداکی ہدایت ورہنمائی کا فریضہ انجام دیا وہیں آپ نے اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے فروغ علم وادب کے لیے متعدتعلیمی د ادارے بھی قائم فر مائے اور درجنوں اداروں کی سر پرستی فر مائی ، آپ کا ایک عظیم اور تاریخی کار نامہ پنڈودہ شریف کی روحانی سرزمین پر مخدوم اشرف مشن کا قیام ہے، مالدہ اور اس کے قریبی اضلاع میں غیر مقلدین اور وہا بیہ و دیا بنہ نے جس طرح مکروفریب کا جال بچھا یا اور اس علاقے کےسیدھے سادے مسلمانو ں کے ایمان وعقیدے پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی،اس کا مستحکم جواب ایک عظیم الشان تعلیمی ادارے کے قیام سے ہی ممکن تھا ، آپ نے مکمل بصیرت کے ساتھ مخدوم اشرف مشن کی بنیاد ڈالی اور اس کے فروغ وارتقا کے لیے اپنا خون جگر پیش کیا، آج سے اس علاقے میں یہ ادارہ اہل سنت کا ترجمان اور مینارۂ نور وہدایت ہے ، جو آپ کے لائق وفائق خلف وجاں نشین حضرت مولانا شاہ سید جلا ل الدین اشرف اشرفی دام ظلہ کی سر براہی وقیادت میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ اشرف الاولیا: حیات وخدمات میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے اور آپ کی گراں قدر علمی، دینی اور تبلیغی خدمات کو شایان شان خراج پیش کیا گیا ہے۔

محاسن وکمالات کے باب میں بھی مولف کے قلم کی جولانی پورے جوبن پر نظر آتی ہے ، گوکہ مولف صاحب تذکرہ کے مرید با صفا ہیں ، لیکن انہوں نے کہیں بھی حقیقت پر عقیدت کو غالب ہو نے نہیں دیا ہے ، بلکہ ایک منصف مزاج سوانح نگار کی حیثیت سے قرار واقعی اوصاف وکمالات اور فضائل ومناقب کو پوری دیانت داری کے ساتھ سپر د قرطاس کیا ہے ، ور نہ آج سوانح نگاری کے نام پر کس قدر ملمع سازی کی جاتی ہے اور فضائل ومناقب کے باب میں کس طرح زمین وآسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں یہ کسی سےپوشیدہ نہیں ہے ۔ اس باب میں آپ کا دینی تصلب ،تقویٰ وطہارت ، تواضع وانکساری ، توکل واستغنا،نرم گوئی ونرم خوئی ، پاکیزہ اخلاق وعادات، علم پروری وعلما نوازی جیسے ذیلی خاکوں میں پوری مہارت اور دیانت کے ساتھ رنگ بھرا گیا ہے ۔انداز بیان اس قدر صاف وشفاف اور سستہ ہے کہ کہیں اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ، جوں جوں اوراق پلٹتے ہیں دل ودماغ روحانی خوشبوؤں سے معطر ہو ئے جاتے ہیں اور جسم ورح میں ایک تاز گی محسوس ہو تی ہے۔یہ باکمال مولف کا انتہا ئی کمال ہے۔

ہر چندکہ ولایت کے لیے کرامات کا صدور ضروری نہیں، شریعت پر استقامت ہی ولایت کا اصل معیار ہے ، لیکن اولیاء اللہ کی ذات سے خارق عادات کا ظہور ہو تا رہاہے، جسے عام زبان میں کرامت سے تعبیر کیا جاتا ہے،حضرت اشرف الاولیا کی حیات مبارکہ اس حوالے سے بھی روشن نظرآتی ہے ،مختلف موقعوں پر آپ سےبے شمارخوارق عادات اور کشف وکرامات کا صدور ہوا ہے ، مولف گرامی نے اپنی اس کتاب میں آپ کے نصف درجن سے زائد کرامات اور محیر العقول واقعات کا ذکر کیا ہے۔

اولاد امجاد کے ضمن میں حضرت اشرف الالیا کے شہزادۂ گرامی حضرت مولانا سید جلال الدین اشرف اشرفی دام ظلہ کے مختصر حالات بھی شامل کر لیے گئے ہیں ، جو آئندہ آپ کی شخصیت پر خامہ فرسائی کر نے والوں کے مشعل راہ ثابت ہو گا ۔

اہل فکر وقلم کی نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ کسی شخصیت کی سیرت وسوانح پر ابتدائی کام کس قدر مشکل ہو تا ہے ،اور ان کی حیات مبارکہ کے بکھرے اوراق کو سمیٹنا کس قدر دماغ سوزی اور ذمے داری کا عمل ہو تا ہے،اسی لیےاکثر لوگ اس پُر خطر راہ سے دوررہنے ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں ،لیکن مولف محترم نے یہ جوکھم اٹھا یا ہے اور بحسن وخوبی اس کو نجام تک پہنچایا بھی ہے ،اگر چہ اب بھی آپ کی شخصیت کے بہت سے گوشے پردۂ خفا میں ہوں گے ، لیکن مولف محترم حضرت مفتی کمال الدین اشرفی مصباحی نے اپنی اس تالیف میں بنیادی معلومات جمع فر مادی ہے اور مستقبل کے محققین کے لیے بنیاد فراہم کردی ہے،آئندہ جب بھی حضرت اشرف الاولیا کی شخصیت پر کام ہو گا ، اس تالیف کو متن اور ماخذ کی حیثیت حاصل ہو گی ۔

مولف محتر م حضرت مفتی کمال الدین اشرفی مصباحی اہل عقیدت وارادت اور وابستگان سلسلہ کے ساتھ جملہ احباب اہل سنت کی جانب سے مبارک باد کے مستحق ہیں ۔موصوف ایک مستحکم قوت ارادی کے حامل جواں سال عالم وفاضل ہیں،ہر سال ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آکر قارئین کی نگاہوں کا مرکز بنتی ہیں ، وہ مسلسل لکھتے ہیں ، اُن کا قلم سے اور قلم کا اُن سے مضبوط اور اٹوٹ رشتہ ہے ، ہم رب تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ یہ رشتہ یوں ہی بحال رہے اور قارئین ان کی نگارشات کو یوں ہی سرمۂ نگاہ بناتے رہیں ۔
۰۰۰


 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 93603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.