نام کتاب:مشایخ نقش بندیہ
مؤلف : حضرت مولانا نفیس احمد مصباحی
صفحات : ۸۱۶
سن اشاعت : ۱۴۳۱ھٍ؍۲۰۱۰ء
ناشر : المجمع القادری مبارک پور عظم گڑھ یوپی
مبصر : محمد ساجدرضا مصباحی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
’’مشایخ نقشبندیہ‘‘جامعہ اشرفیہ کے موقر استاذ، علوم عربیہ کے شناور، صاحب
طرز ادیب حضرت مولا نانفیس احمد مصباحی حفظہ اللہ کی تازہ ترین تالیف ہے۔
مولانانفیس احمد مصباحی نے الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے منتہی درجات کی
گراں بار تدریسی فرائض اور اپنی بے پناہ علمی، تحقیقی اور تصنیفی مصروفیات
کے باوجود محسن قوم وملت حضرت قاری محمد احمد بقائی سجادہ نشین خانقاہ نقش
بندیہ کشنی سلطان پور کی فرمائش پر محض چار ماہ کی قلیل مدت میں یہ ضخیم
تذکرہ مرتب فر مایا ہے۔
۸۱۶؍ صفحات پر مشتمل اس ضخیم تذکرے کے ابتدائی صفحات میں عرض ناشر اور
مؤلف کے عرض حال کے علاوہ سراج الفقہا مفتی محمد نظام الدین رضوی صدر شعبہ
افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پورکا ایک وقیع اور معلوماتی مقدمہ شامل ہے جس میں
اولیاے امت کے چند معروف سلاسل کا شمار کراتے ہوئے سلاسل اربعہ قادریہ،
چشتیہ سہروردیہ اور نقشبندیہ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ چاروں سلاسل کے
معمولات اور خصوصیات وامتیازات کو بھی ا جاگر کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔اپنے
اس مقدمے میں انہوں نے خصوصاً سلسلہ نقش بندیہ کے تعلق سے قیمتی معلومات
جمع کر دی ہیں۔ ذیل کا اقتباس نقش بندی سلسلے کے تعلق سے قیمتی اور بنیادی
معلومات فراہم کرتا ہے۔
’’اس سلسلہ کے بانی حضرت خواجہ بہا ء الدین نقش بند علیہ الرحمۃ والرضوان
ہیں اس سلسلہ کی نسبت حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔
یہ سلسلئہ طریقت مختلف ناموں سے موسوم رہا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ سے حضرت شیخ با یزید بسطامی علیہ الرحمہ تک صدیقیہ کہلایا۔ حضرت
بایزید بسطامی سے حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی تک طیفوریہ اورخواجہ عبد
الخالق غجدوانی سے خو ا جہ بہاء ا لدین نقش بند تک خواجگانیہ اورحضرت خواجہ
نقش بند سے حضرت شیخ احمد سر ہند ی تک نقش بندیہ کے نام سے موسوم
رہااورہندوستاں میںحضرت مجدد الف ثانی سے موسوم ہوکرمجددہ کہلا یا۔ اس
سلسلہ میں شریعت کی پابندی اور اتباع شریعت پر کافی زور دیا گیا ہے‘‘[مقدمہ
ص:۱۶]
اصل کتاب کا آغاز ص: ۲۸ ؍ پر شجرہ طیبہ نقش بندیہ مجددیہ سے ہوتا ہے۔
مؤلف نے سر ور کائنات، سید المر سلین سیدناو مولانامحمد مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم خلیفۂ رسول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی
رسول حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے تفصیلی تذکرے کے بعد سلسلہ نقش
بندیہ کے کل۳۵؍مشایخ کے اجمالی و تفصیلی احوال رقم فر مائے ہیں جس کی آخری
کڑی حضرت قاری محمد احمد بقائی سجادہ نشیں خانقاہ نقش بندیہ کِشنی سلطان
پور ہیں۔اس طرح جہاں قدیم مشایخ نقش بندیہ کے حالات نئے اسلوب میں مرتب ہو
کر سامنے آگئے ہیں وہیں سلسلہ کے متأخرین مشائخ کے حالات بھی قلم بند ہو
کر تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ہیں۔
فا ضل مؤ لف نے زیر تذ کرہ شخصیت کے تعلق سے دستیاب معلو ما ت کو اکٹھا کر
کے حسن ِترتیب کے ساتھ ،مرتب کیا ہے ۔زبان و بیان میں حتی الامکا ن سادگی
کا خیا ل رکھا گیا ؛لیکن اس کے با وجود قاری اکتاہت اور بے کیفی کا احساس
نہیں کرتا،موصوف اردو زبان کی طرح چوں کہ عربی و فارسی زبا ن و ادب پربھی
کا مل دست رس رکھتے ہیں اس لیے انھوں نے تینو ں زبانو ں کی کتابوں سے
کامیاب استفادہ کیا ہے ۔
شخصیات کے فضائل و مناقب میں غلو ،بے جا اور غیرضروری عبارت آرائی اور غیر
مستند واقعات سے احتراز کرتے ہوئے معتمد کتابوں کے حوالے ہی نقل کیے گئے
ہیں۔ حوالہ جات ہر صفحہ پر حاشیہ میں نقل کر دیے گئے ہیں اور ہر شخصیت کے
تذکرے کے اختتام پر جدید اسلوب میں مصادرومراجع کی تفصیلی فہرست، کتاب ،مطبع،
سن اشاعت، مقام اشاعت، اورزبان وغیرہ امور کی صراحت کردی گئی ہے۔حسب ضرورت
حواشی بھی رقم کر دیے گئے ہیں جن کی وجہ سے حوالوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔
مصروفیت کے اس دور میں ہر شخص کو عدم فرصت کا شکوہ ہے۔ رفتار زندگی تیز ہو
گئی ہے۔ ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ کم وقت میں بہت سارے کام کر لیے جائیں۔ ان
تقاضوں کا لحاظ تحریرو تصنیف کے میدان میں بھی ضروری ہے۔ درجنوں تذکرے میری
نظر سے ایسے گزرے جن میں محض ضخامت میں اضافے کے لیے ایسی عبارت آرائیاں
کی گئی ہیں کہ خداکی پناہ! فضائل ومناقب کا باب آیا تو زمین وآسمان کے
قلابے ملا دیے گئے۔ مؤلف گرامی نے مشایخ نقش بندیہ کے احوال کو افراط و
تفریط سے بچاتے ہوئے حسب ضرورت اجمال و تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے انہوں نے
صرف مشائخ کی کرامات ہی قلم بند نہیں کیے ہیں بلکہ ان نفوس قدسیہ کے علمی
کار ناموں کو بھی اجا گر کر نے کی کوشش کی ہے۔ صاحب تصانیف شیوخ کے تصنیفی
کار ناموں پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔شعر وشاعری سے شغف رکھنے والے شیوخ کے
اشعار کو نقل کر کے ان کے شاعرانہ فکرو مزاج پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے
ہے۔ فار سی اور عربی اشعار کا سلیس اور با محاورہ تر جمہ بھی نقل کر دیا
گیاہے۔حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے تذکرے میں آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کو
بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت مرزا مظہر اردو شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیںجو اصلاح کا دور
کہلاتا ہے یہ وہ زمانہ ہے جب اردو شاعری میں’’صنعت ایہام‘‘ کابہت زیا دہ
رواج تھاشا عری واردات قلب کی عکاسی اور معنوی حسن و جمال سے آراستہ ہو نے
کی بجائے الفاظ کا کھیل بن کر رہ گئی تھی آپ وہ پہلے شاعر ہیں جس نے اردو
شاعری کو ایہام سے پاک کر نے کی کوشش کی اور اسے با مقصد اور با معنیٰ بنا
یا۔[مشائخ نقش بندیہ ص:۶۵۷]
تذکرہ نگا ری کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ زیر تذکرہ شخصیات کے ذاتی حا لات
،فضائل و مناقب اور دینی و مذہبی خدمات کے ساتھ ساتھ اس عہد کے سیاسی و
مذہبی ماحول اور تقاضوں کو بھی ذکر کر دیا جائے؛ تاکہ زمانے کے حالات اور
تقاضوں کے پس منظر میں متعلقہ شخصیت کے کار ناموں کی صحیح اہمیت کا اندازہ
ہو سکے اور قاری کے ذہن و دماغ میں اس عہد کے حالات کا ایک اجمالی خاکہ
بیٹھ جائے ۔فاضل مؤلف نے اپنی اس تا لیف میں سوانحی لٹریچر کے اس تقاضے کو
پورا کیا ہے خاص طور سے مجدد الف ثانی کے احوال میں اس کے نمو نے جا بجا
ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ۔
سوانح نگاری کے باب میں صاحب سوانح کے حالات جب تک تسلسل کے ساتھ بیان نہ
کیے جائیں قاری متعلقہ شخصیت کی عظمت و منزلت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا
بلکہ بسا اوقات تسلسل کا فقدان کئی طرح کی پیچیدگیوں کا بھی سبب بن جاتا ہے
۔اس لئے سیر ت وسوانح کے باب میں ربط و تسلسل کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے
،تذکرہ مشائخ نقش بندیہ اس لحاظ سے بھی قارئین کو متائثر کرتاہے ،بعض
بزرگوں کے حالات اختصار کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود حسن
ترتیب کے سبب مقام و مرتبے کا ایک اجمالی نقشہ ذہن میں مرتسم ہو جاتا ہے ۔
بزر گوں کے اقوال و فرمودات میں حکمت وموعظت کے بیش بہا خزانے پو شیدہ ہو
تے ہیں۔ بسا اوقات ولی کامل کی زبان فیض ترجمان سے نکلا ہوا ایک مختصر جملہ
ہزاروں گم گشتگان راہ کو ساحل مراد سے ہم کنار کر نے کے لیے کا فی ہوا کرتا
ہے۔مشائخ نقش بندیہ کے ایسے بے شمار فرمودات ہیں،جن میں عقائد کی اصلاح بھی
ہے اور تزکیہ نفس کا درس بھی۔ اعمال صالحہ کی تر غیب بھی ہے اورافعال قبیحہ
پر عذاب الہی کی وعید بھی۔مؤلف نے مشائخ نقش بندیہ کے احوال و مقامات کو
بیان کر نے کے ساتھ ان کے اقوال وفرمودات کو بھی ’’کلمات طیبات‘‘ کے بیان
کرنے کا التزام کیاہے۔
اردو زبان میں نقش بندی بزرگوں کے حالات پرغالباً یہ پہلی ضخیم کتاب ہے جو
عصری اسلوب اور سوانح نگاری کے تقاضوں کے مطابق منظر عام پر آئی ہے ۔کتاب
کا اجرا شیخ ربانی حضرت مولانا شاہ غلام عبدالقادر مچھلی شہری کے پچاسویں
عرس کے مو قع پر خانقاہ نقش بندیہ کشنی سلطانپور میں عمل میں آیا ہے ۔جشن
زریں اور صدسالہ کے نام پر لاکھوں روپےڈیکو ریشن کے نام پر خرچ کرنے والوں
کے لیے خانقاہ نقش بندیہ کشنی کے ارباب حل و عقد کا یہ اقدام نمو نہ عمل ہے
کاش ہماری دوسری خانقاہیں بھی اپنے بزرگوں کے حالات کو محفو ظ کر نے کے لیے
اسی طرح کے اقدامات کرتے۔مؤلف گرامی حضرت مو لانا نفیس احمد مصباحی دام
ظلہ اس عظیم کاوش پر خا نقاہ نقش بندیہ کِشنی کی جانب سے بجا طور پر ایوارڈ
کے مستحق ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے علم اور عمر میں بے پنا ہ بر کتیں عطا فر
مائے۔
کتاب کے ابتدائی صفحات میں فہرست اجمالی ہے جب کہ اخیر کے صفحات میں ہر
شخصیت کی تفصیلی فہرست مرتب کر دی گئی ہے۔ کتاب کی کتابت طباعت عمدہ اور
معیاری ہے۔
٭٭٭
|