جون کی سخت گرمی میں کڑکڑاتی دھوپ کی وجہ سےسبھی چھوٹے
'بڑے حتی کہ جانور بھی برگد کے درختوں تلے پناہ لینے پر مجبور تھے۔کوٸ تاش
کے پتے کھیل رہا تھا تو کوٸ حقہ سلگاۓ بیٹھا تھا۔ندیم گاٶں کے جوانوں کو
اپنی سریلی آواز میں ہیر سنا رہا تھا۔اسی دوران حقے کا دھواں نکالتے ہوۓ
چاچے اللہ یار نے آواز دی۔اوۓ دیمےپتر!تو شہر نہیں گیا جاکر شناختی کارڈ تو
بنوا لیتا۔الیکشن قریب ہے چوہدری ساجد کو ووٹ دینا ہے۔اوہ بابا جی اس گرمی
میں شہر جاکر مرنا ہے کیا?مجھے نہیں چاہیے شناختی کارڈ۔ندیم یہ جواب دے کر
ہیر کی دھنوں میں مگن ہوگیا۔چاچا اللہ یار لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کر ندیم
کے پاس آیا اور اس کے ساتھ بیٹھے جوان کے کندھے پر تھپکی دیتے ہوۓ کہا نوید
پتر!تو سمجھا دے دیمے کو شناختی کا کیا فاٸدہ ہے۔بلکہ تو کالج پڑھنے کے لیے
روزانہ شہر تو جاتا ہی ہے کل اس کو بھی لے جا اور اس کاشناختی کارڈ بنوا کے
لے آ۔نوید نے چاچے اللہ یار یقین دہانی کراٸ کہ کل میں اسے اپنے ساتھ شہر
لے جاٶں گا۔
اگلے دن صبح صبح ندیم کھیتوں میں کام کےلیے نکلا۔دراصل یہ گاٶں کا مصلی تھا
اور چاچا اللہ یار اس کا دادا تھا۔اس کا باپ فوت ہو گیا تھا تو یہ اپنے
دادا(اللہ یار) اور اپنی اماں کے ساتھ رہتا تھا اور گاٶں میں کسی کا مزارع
تھا۔کھیتوں میں کام کرکے اپنا'دادا اور اماں کا پیٹ پالتا تھا اور فارغ
اوقات میں اپنی مسحور کن آواز سے گاٶں کے جوانوں کو خوش کرتا تھا۔آج بھی
حسب معمول کھیتوں میں کام کےلیے جارہا تھاکہ راستے میں نوید جو نۓ مگربغیر
استری کالج یونیفارم میں ملبوس تھا۔دور سے آواز دی۔
اوۓ دیمے!تو نےشناختی کارڈ بنوانے شہر نہیں جانا کیا?دیکھ جب تیرا شناختی
کارڈ بن جاۓگاتو تو باقاعدہ ملک کا معزز شہری بن جاۓ گا۔تجھے تیرے حقوق
ملیں گے۔تو آسانی کے ساتھ چوہدری صاحب کو ووٹ دے سکے گا۔
یہ باتیں سن کرندیم کےدل میں شناختی کارڈ بنوانے کا شوق پیدا ہوا۔آخرکار وہ
نویدکےساتھ شہرجانےکےلیےتیارہوگیا۔وہ آج پہلی مرتبہ شناختی کارڈ کے خوبصورت
ایٸر کنڈیشنڈ دفترمیں گیاتھا۔آج پہلی مرتبہ صوفےپربیٹھا تھا۔دفتر کا عملہ
اس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا تھا۔آج پہلی مرتبہ اسے دیمے کی بجاۓندیم
کہہ کر پکارا جا رہا تھا۔وہ اپنےآپ کو یہ بات سمجھا چکا تھا کہ اب شناختی
کارڈ کی بدولت وہ معاشرےکا معزز شہری بن گیا ہے۔اسے یہ سب عزت شناختی کارڈ
کی وجہ سے ہی مل رہی ہے۔
شناختی کارڈ بن کر آگیا۔چند دنوں بعد الیکشن بھی آ پہنچا۔ندیم کی اماں اور
چاچا اللہ رکھا نے صبح سے ہی صاف ستھرے کپڑے پہنے اور اپنااپنا شناختی کارڈ
سنبھال کر بیٹھ گۓ۔گرمی پڑنے سے پہلےہی صحن میں آواز گونجی۔چاچا اللہ
رکھا!کہاں رہ گۓ آپ?گاڑی آپ کے انتظار میں ہے۔یہ آواز دینے والا چوہدری
ساجد کا بھاٸ چوہدری ماجد تھا۔ندیم اپنی اماں اور چاچے اللہ رکھا کے ہمراہ
چوہدری ماجد کی لاٸ ہوٸ ہاٸ ایس پر پولنگ اسٹیشن پہنچا۔پولنگ اسٹیشن کے
باہر لگے پولنگ کیمپ پر چوہدری ساجد نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ووٹ ڈالنے
کے بعد کیمپ پربیٹھے ندیم اور اس کا دادا بریانی کھارہے تھے اور ساتھ ساتھ
چاچا اللہ رکھا سیاسی صورتحال پر تبصرے کر کے چوہدری ساجد سے خوب داد وصول
کر رہا تھا۔اس دوران ندیم اپنا ہاتھ جیب میں ڈال کر بار بار شناختی کارڈ کو
ٹٹول رہا تھا اور اس لمحےپر شکر کررہا تھا جس میں شناختی کارڈ بنوانے کا
فیصلہ کیا تھا۔
الیکشن گزر گۓ۔چوہدری ساجد ایم۔این۔اے بن کر وفاقی وزیر بن چکا تھا۔علاقے
کے تھانیدار,پٹواری وغیرہ چوہدری کی وساطت سے اپنے عہدوں پر مزید مظبوط ہو
کر جم چکے تھے۔ندیم پھر دیما بن چکا تھا۔اور اس کا کینوس پھر سے گھر اور
کھیتوں کے درمیان بند ہو چکا تھا۔شناختی کارڈ دفتر کا ایٸر کنڈیشنڈ ,چوہدری
کی باتیں سب قصہ پارینہ ہو چکی تھیں۔لیکن شناختی کارڈ پر لکھے وہ الفاظ
جنہیں وہ پڑھ بھی نہیں سکتا تھا اس کے دماغ پر نقش ہو چکے تھے۔گرمیاں گزر
گٸیں۔بھادوں کی حبس پسینے نکال رہی تھی۔
ندیم اب بھی کھیتوں پر کام سے فارغ ہونے کے بعد نلکے پر نہاتا اور پھر ڈیرے
پر بیٹھ کر ہیر کی دھنیں الاپتا۔
ایک دن وہ کھیتوں سے سیدھا گھر آیا تو دیکھا کہ گھر کے قریب عورتوں کا
مجمعہ لگا ہوا ہے اور چچا اللہ یار ہانپ رہا ہے اور اس کے سر سے خون بہہ
رہا ہے۔پوچھنے پر عورتوں نے بتایا کہ پولیس آٸ تھی کہ دیمے مصلی پر ڈکیتی
کا الزام ہے اس واسطے سے اس نے چاچے اللہ یار کو گرفتار کرنا چاہا تو دیمے
کی اماں نے ان کو گالیاں دیں تو تھانیدار نے چاچے اللہ یار کے سر پر بندوق
کا بٹ مارا اور دیمے کی ماں کو پکڑوا کر لے گیا۔یہ سن کر دیما تھانے پہنچا
اور جاکر تھانیدار کو اپنا تعارف کرایا۔نام سنتے ہی تھانیدار نے کہا کہ شکر
ہےدیمے مصلی تو آگیا خواہ مخواہ ماں کو اذیت میں ڈالا ہوا ہے۔چل اب تیری
ماں کو چھوڑ دیتے ہیں۔یہ سن کر ندیم بولا صاب میرا قصور کیا ہے۔میں نے تو
شناختی کارڈ بھی بنوایا ہوا ہےاور چوہدری ساجد کو ووٹ بھی دیا ہے۔میں تو
معاشرے کا ایک معزز فرد ہوں۔ یہ کہتے ہوۓ جیب سے شناختی کارڈ نکال کر بڑے
پراعتماد انداز میں تھانیدار کی میز پر رکھ دیا۔تھانیدار نے شناختی کارد کو
پھینکتے ہوۓ ندیم کا بازو پکڑ کر مکوں اور لاتوں کی برسات کردی۔میراثی کی
اولاد علاقے میں کوٸ بھی ڈکیتی ہو وہ کسی نہ کسی مصلی کی ہی کارواٸ ہوتی ہے
یہ ضرور تیرا ہی کام ہے۔یہ سن کر حوالات میں بند ندیم کی اماں چلاٸ"میرا
بیٹا ڈکیت نہیں ہے" ایک سپاہی نے اسے دھکا دیا تو وہ دور فرش پر جاگری۔یہ
دیکھ کر ندیم نے گالیوں کی بارش کردی۔پھر اس کے ساتھ وہی حشر ہوا جو عام
طور پر غریب حوالاتیوں کےساتھ تھانوں میں ہوتا ہے۔دن رات تھانے میں رکھنے
کے بعد ندیم کو چوہدری صاحب کےخفیہ ڈیرے میں منتقل کر دیا گیا۔
چند ماہ بعد ندیم کو چھوڑ دیا گیا۔چاچا اللہ یار تو اسی دن سسک سسک کے
مرگیا تھا جس دن اسے بندوق کا بٹ لگا تھا۔ندیم کی اماں بھی صدمے سے مر گٸ
تھی۔اس کے گھر کو گرا کر چوہدری ساجد مارکیٹ بنوا چکا تھا۔اب ندیم بولتا
نہیں تھا کیونکہ چوہدری صاحب کو گالی دینے کی وجہ سے اس کی زبان بلیڈ سے
کاٹ دی گٸ تھی۔اب وہ دیما مصلی کے بجاۓ گونگا مصلی بن گیا تھا۔
اس کے بعد اس کی زندگی کا اہم واقعہ یہی ہے اس نے اپنا شناختی کارڈ چولہے
میں جلا دیا دیا۔۔۔
|