20 ستمبر کو پیپلزپارٹی کی دعوت پر 11 اپوزیشن جماعتوں
کی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی۔اِس کانفرنس میں میاں نوازشریف نے لندن سے
ویڈیولنک پر طویل خطاب کیا۔ میاں صاحب کا یہ خطاب اُس نام نہاد جمہوریت کے
خلاف تھا جو عشروں سے پاکستان پر مسلط ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عمران خاں
ہمارا ہدف نہیں، نہ ہمارا مقابلہ اُن سے ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خاں کو
لانے والوں کے خلاف ہے اور اُن کے خلاف ہے جنہوں نے نااہل بندے کو لا کر
بٹھایا۔ اُنہوں نے کہا ’’آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے
ہے۔ جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتاہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتاہے۔
انتخابی عمل سے پہلے یہ طے کر لیا جاتاہے کہ کس کو ہرانا ہے ، کس کو
جتاناہے۔ کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتاہے، مینڈیٹ چوری کیا
جاتاہے‘‘۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیرِاعظم کو حقائق سے
یوں پردہ اُٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ نوازشریف کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے
معروف صحافی حامدمیر نے کہا کہ اے پی سی میں نوازشریف نے وہ باتیں کہہ
ڈالیں جو صرف ڈرائینگ روموں، چوکوں اور چوراہوں میں ہو رہی تھیں۔ اُنہوں نے
یہ بھی کہا ’’اے پی سی پیچھے رہ گئی، نوازشریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی‘‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ نوازشریف کی تقریر بچوں کے نصاب میں پڑھائے جانے کے
لائق ہے تاکہ اِس ملک کی تاریخ آئندہ کے لیے درست ہو سکے۔
میاں صاحب کے اے پی سی میں خطاب کی گونج سے ابھی تک اونچے ایوان لرز رہے
ہیں۔ وزیروں مشیروں کی زبانیں آگ اُگل رہی ہیں اور اپوزیشن کی (بذریعہ نیب)
پکڑ دھکڑ کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس اپنے علامیے پر عمل
درآمد کر سکتی ہے یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن حقیقت یہی
کہ حکومتی ایوانوں میں ایک ہلچل بپاہے۔ شیخ رشید، شہبازگِل، شہزاداکبر اور
فیاض چوہان بقدرِہمت غیرپارلیمانی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ
میاں نوازشریف نے کون سی غلط بات کہی ہے؟۔ کیا جمہوریت کا مطلب عوام کی
حکومت، عوام کے لیے اور عوام پر نہیں ہوتا؟۔ کیا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ جیسا
نعرہ لگانے والا ملک دشمن ہو سکتاہے؟۔ کیا پاکستان میں کسی بھی دَورِحکومت
میں جمہور کی حکومت قائم ہوئی ہے؟۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان کی عمر کا
آدھا حصہ آمریتوں کے سائے تلے گزرا اور باقی آدھا آمریتوں کے خوف تلے۔ اگر
تاریخِ پاکستان اِس پر مہرِتصدیق ثبت کرتی ہے تو پھر میاں نوازشریف نے کیا
غلط کہا جس پر شورِقیامت برپاہے؟۔
یہ بھی عین حقیقت کہ افواجِ پاکستان ہمارے دلوں کی دھڑکن اور سروں کا تاج۔
قابلِ فخر جری جوانوں کی قربانیاں لازوال لیکن چند طالع آزماؤں کی وجہ سے
عوام میں افواجِ پاکستان کی توقیر کسی صورت کم نہیں کی جا سکتی۔ اِس سے بھی
مفر ممکن نہیں کہ ہمیشہ سیاستدانوں کی غلطیوں کی وجہ سے ہی آمریتوں کے دَر
کھلے۔ ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم ایوب خاں کو ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ ایوب خاں
کی 19 رکنی کابینہ میں بھٹو واحد سویلین وزیر تھے باقی سب فوجی۔ ضیاء الحق
مرحوم میاں نوازشریف کو اپنی عمر لگ جانے کی دعائیں دیا کرتے تھے۔ عمران
خاں آمر پرویزمشرف کے جلسوں میں تحریکِ انصاف کا جھنڈا تھامے پہنچ جاتے
تھے۔ پرویزمشرف کے ریفرنڈم کے حق میں گلی گلی تقریریں کرنے والے عمران خاں
ُج وزیرِاعظم ہیں۔ اُسی پرویزمشرف کو دَس با وردی میں منتخب کروانے کے دعوے
کرنے والے چودھری پرویزالٰہی دَورِآمریت میں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ،
پیپلزپارٹی کے دَورِحکومت میں ڈپٹی وزیرِاعظم اور تحریکِ انصاف کی حکومت
میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر۔ ’’جماں جنج نال‘‘ کی تو بات ہی کیاہے۔ وہ کبھی
میاں نوازشریف کا چہیتا ہوا کرتاتھا، پھر پرویزمشرف کے تلوے چاٹنے لگا اور
آجکل پاکستان ریلوے کا وزیر بن کر ریلوے کی تباہی کے درپے ہے۔ ہمیں تو یہی
پتہ تھا کہ فوج کا ترجمان محکمہ آئی ایس پی آر ہے لیکن لال حویلی والا
کہتاہے کہ اُسے فوج کا ترجمان ہونے پر فخر ہے۔ بہرحال جس کا ساتھی شیخ رشید
جیسا شخص ہو اُسے کسی دشمن کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ہمیں تو اُس میں
اگر کوئی خوبی نظر آتی ہے تو صرف یہ کہ وہ بڑھک باز، بَدکلام اور بَدزبان
ہے لیکن کیا کیجئیے کہ ہمارے وزیرِاعظم کو ایسے لوگ ہی مرغوب ومطلوب ہیں۔
یہ سوال اپنی جگہ کہ آخر گیارہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد کیوں ہوا جبکہ(
سوائے مولانا فضل الرحمٰن کے) جتنی فرینڈلی اپوزیشن تحریکِ انصاف کو ملی
شاید پاکستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملی ہوگی۔ دونوں بڑی اپوزیشن
جماعتوں (نوازلیگ اور پیپلزپارٹی) نے تحریکِ انصاف کو حکومت کرنے کا بھرپور
موقع دیا۔ حکومت کوزورآوروں کی بھی بھرپور حمایت حاصل۔ تمام ادارے حکومت کی
پُشت پر اور نیب حکومت کی جیب میں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 8 جماعتی اتحاد کی
تحریکِ انصاف کی کمزورترین حکومت افہام وتفہیم سے کام لیتی لیکن جہاں ضِد،
انا اور نرگسیت کا جادو سَر چڑھ کے بولتاہو، وہاں بھلائی کی اُمید کیسے کی
جاسکتی ہے۔ جہاں یوٹرن پہ فخر کیا جائے وہاں اخلاقیات کا کیا کام۔ جہاں
سلیکٹڈ احتساب ہو وہاں ریاستِ مدینہ کا تصور بھی محال (سپریم کورٹ کے محترم
جسٹس قاضی امین نے فرمایا کہ سلیکٹڈ احتساب عدالتوں کے لیے پریشانی کا باعث
بنتاہے)۔ جہاں کارکردگی مفقود ہو وہاں عوام کی خوشحالی احمقوں کی جنت میں
بسنے کے مترادف۔ جہاں قوم کو ناقابلِ یقین اور ناقابلِ عمل سہانے سپنے
دکھاکر ’’گھبرانانہیں‘‘ جیسا درس دیا جائے وہاں سپنوں کی معکوس تعبیر لازم
اور جہاں ہمہ وقت چور چور، ڈاکو ڈاکو کی گردان ہو وہاں اپوزیشن ایک صفحے پر
نہ ہوتی تو کیا کرتی۔ یہ بہرحال طے کہ اگر اپوزیشن سڑکوں پر نکلی تو اُس کے
جلسے جلوسوں اور ریلیوں کو بھرپور کامیابی ملے گی جس کی وجہ اپوزیشن نہیں،
بھوکوں مرتی قوم ہوگی جسے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتاہے اور
روشنی کی ہلکی سی کرن بھی دکھائی دیتی ہے نہ سجھائی۔
آخر میں وزیرِاعظم کا اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ورچوئل خطاب جس میں
اُنہوں نے ایک دفعہ پھر مسلۂ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بھارت میں
گزشتہ بہتر سالوں میں کشمیر پر پر غیرقانونی قبضہ کیا ہواہے۔ مقبوضہ وادی
میں فوجی محاصرے کے دوران آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فوجی قبضے اور غیرقانونی توسیع پسندانہ اقدامات سے حقِ خودارادیت کو دبایا
جا رہاہے اور بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں۔ وزیرِاعظم
نے کہا ’’مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی جا رہی ہے۔ اِس
کے نتیجے میں عالمی سطح پر ایک نیا بڑا بحران جنم لے سکتاہے‘‘۔ حقیقت یہ کہ
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی رہنماؤں کاخطاب محض علامتی سا ہوکر
رہ گیاہے۔ اگر اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کروانے کی سکت
ہوتی تو مسلٔہ کشمیر بہت پہلے حل ہو چکا ہوتا لیکن جنرل اسمبلی کا ہر
سالانہ اجلاس محض نشستن، گفتن، برخاستن تک ہی محدود ہوتاہے۔ اگر ہم واقعی
کشمیر کی بیٹی کے ننگے سر پر ردا ڈالنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دینِ مبیں کے
عین مطابق اپنے گھوڑے تیار رکھنے ہوں گے۔
|