مضمون کا عنوان "ہماری سڑکیں" غلط ہے۔ جناب والا ، ہمارے
اورآپ کے شہر کراچی میں سڑکیں ہیں کہاں۔ شہر میں صرف راستے ہیں اور ہر
راستہ کسی چھوٹے یا بڑے حادثے کی طرف لے جاتا ہے۔ جب کوئی اجنبی کسی شہری
سے دریافت کرتا ہے
"یہ سڑک کہاں جاتی ہے؟" اسے جواب ملتا ہے:
" یہ سڑک کہیں نہیں جاتی۔ یہیں پڑی رہتی ہے لیکن اس پر سفر کرنے والے عالم
بالا کو پہنچ جاتے ہیں۔ "
ہمارے مضمون کا عنوان "کراچی کے (خطرناک) راستے" ہونا چاہئیے تھا۔ ہماری
سادگی کا اندازہ لگائیے کہ ہم ان خطرناک راستوں کو سڑکیں کہتے ہوئے کئی برس
سے دھوکہ کھاتے اور حادثوں سے گزرتے چلے آ رہے ہیں۔
مسافروں کی سہولت کے لئے سڑکیں بنوائی جاتی ہیں۔ یہ سڑکیں کئی قسم کی ہوتی
ہیں۔ مٹی کی سڑک، پتھروں کی سڑک ، تارکول کی سڑک، سیمنٹ کی سڑک وغیرہ۔
ہمارے شہر میں مختلف راستوں پر ایک ہی قسم کی سڑکیں بنوائی گئی ہیں یعنی
تارکول سے بنی لیکن ان سڑکوں کی انفرادیت یہ ہے کہ راہ گیروں سے زیادہ
سڑکیں بنانے اور مرمت کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
سڑکوں پر ٹھوکریں کھائے بغیر چل نہیں سکتے۔ یوں بھی شہر کی سڑکوں پر پیدل
چلنا ایک آرٹ ہے۔ کبھی ٹھوکر کھا کر سنبھلنا پڑتا ہے تو کبھی گر کر اٹھنا
پڑتا ہے۔ کبھی چھلانگ لگانی پڑتی ہے تو کبھی اچھلنا اور کودنا پڑتا ہے۔
کبھی ایک ٹانگ سے لنگڑانا پڑتا ہے تو کبھی پیروں اور ہاتھوں کی مدد سے
جانوروں کی طرح پھدکنا پڑتا ہے۔
کہتے ہیں پیدل چلنے سے بہتر کوئی ورزش نہیں ہے، اگر آپ اس مقولے کی حقیقت
جانچنا چاہیں تو شہر کی سڑکوں پر پیدل چلا کیجیے۔ ورزش کے علاوہ بعض مرتبہ
آپ کی مرمت بھی ہو جائے گی۔ گھٹنے اور کہنیاں چھل جاتی ہیں۔ پنڈلیوں پر ورم
آ جاتا ہے۔ اعضاء شکنی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ سواری استعمال کرنے والوں کے
لئے ٹائر ٹیوب ایک مستقل مسئلہ بنے رہتے ہیں۔ مضبوط سے مضبوط ٹائر ٹیوب بار
بار پنکچر ہو کر بہت جلد داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔ سیکل اور اسکوٹر پنکچر ہو
کر سوار پر سواری کرنے لگتے ہیں۔
موٹرسائیکل والے بطور حفظ ماتقدم بمیشہ ٹیوب ساتھ رکھتے ہیں۔ پتہ نہیں کب
اور کہاں گاڑی پنکچر ہو جائے۔ ٹائر اور ٹیوب کے بعد فارگ، شاک ابضاربر،
سسپن سر اور دوسرے پرزے خراب ہونے لگتے ہیں۔ میکانک حضرات گاڑیوں کی ہر
خرابی کی ذمہ داری شہر کی سڑکوں پر ڈالتے ہیں۔ ہم وکالت کرتے ہیں کہ گاڑیوں
کے فاضل پرزے تیار کرنے والی کمپنیاں ہماری سڑکوں کی نگہداشت کرنے والوں کو
کمیشن دیں۔ کیا پتہ دے بھی رہی ہوں
ہمارے شہر کی سڑکیں حساس اور نازک طبیعت کی مالک ہیں۔ گرمی ان سے برداشت ہو
نہیں پاتی انہیں پسینہ آتا ہے۔ پھیل جاتی ہیں اور سواری سے چمٹ جانے کی
کوشش کرتی ہیں۔ بارش کا موسم سڑکوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔ ذرا سی بارش
سڑکوں کو بہا لے جاتی ہے۔ بعض سڑکیں بارش کے موسم میں سڑکیں نہیں رہتیں۔
اپنا وجود گنوا کر تالاب بلکہ ندیاں بن جاتی ہیں۔ سرما کے موسم میں سڑکیں
سردی میں پڑی پڑی ٹھٹھر جاتی ہیں۔ سڑکیں حساس ہونے کے علاوہ نحیف ، کمزور
اور ناتواں بھی ہیں۔ آخر بیچاری سڑکیں کہاں تک اپنے سینے پر بوجھ برداشت
کریں گی۔ زائد بوجھ سے سڑکیں جگہ جگہ سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ ہر دن سڑکوں کے دامن
سے کئی گڑھے تولد ہوتے ہیں، جن کا درد زہ مسافرین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اگر ہماری بات کا یقین نہ آئے تو رکشہ میں چند فرلانگ سفر کر لیجیے۔
کچھ علاقوں میں تو سڑکیں عجیب و غریب اور بے ہنگم ہیں۔ عقل حیران رہ جاتی
ہے۔ ایک کشادہ سڑک چلتے چلتے پتلی گلی بن جاتی ہے اور کبھی تنگ اور تاریک
گلی میں سے ایک میدان نکل آتا ہے۔چاینہ کٹنگ اور قبضہ مافیا کی وجہ سے شہر
کی گلیاں تو وبال جان ہوگئی ہیں۔ اجنبی کو چھوڑیئے خود کراچی والے ان گلیوں
میں گم ہو کر رہ جاتے ہیں
بعض راستے پراسرار طریقے سے ختم ہوتے ہیں، کسی راستے کا اختتام کسی گھر کے
صحن میں ہوتا ہے۔ کوئی راستہ کسی کے بیت الخلاء میں پہنچا دیتا ہے۔
سڑکیں اپنے شکم میں بہت ساری فاضل اور فضول اشیا لئے ہوتی ہیں۔ کرنٹ اور
ٹیلیفون کےکیبلز، پانی کے کے پائپ اور ڈرینج کی لائنز اور بنا ڈھکن گہرے
گٹر سڑک کے نیچے موجود ہیں۔ مختلف محکمہ جات میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ وقت بے
وقت اور ضرورت بلا ضرورت سڑک کے شکم کو بے دردی سے چیر پھاڑ کر کرنٹ،
ٹیلیفون ،پانی اور ڈرینج کے نظام کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ چیر پھاڑ سے جو
زخم بنتے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوتے، ناسور بن جاتے ہیں، رستے رہتے ہیں۔
پانی اور غلاظت جوالا مکھی بن کر ابل پڑتے ہیں۔ سڑک ڈوب جاتی ہے۔ گندگی کا
راج ہوتا ہے۔ ہر طرف بدبو پھیل جاتی ہے۔ ایسے وقت ہمیں ان شہروں کی یاد آتی
ہے جہاں کی سڑکیں عطر ریز ہوتی ہیں۔
بارش کے دوران سڑکوں پر پانی کی نکاسی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بوندا
باندی سے ہی سڑک پانی میں ڈوب جاتی ہے۔ معمولی بارش سے گھٹنوں بلکہ بعض جگہ
کمر تک پانی جمع ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کا سفر رک جاتا ہے صرف پانی کا سفر
جاری رہتا ہے۔ سہ راہے اور چوراہے ندیوں کے سنگم کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ان
مشکلات کے پیش نظر ہمارے ایک دوست بارش میں بڑبڑاتے ہیں
" یا میرے مولا شہر میں نہ بارش کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی قدر ہوتی ہے
نا اسکی شدت سے بچاو ممکن ہے تو مالک ہمیں بس ۲ چار چھینٹے ہی دیا کر ذیادہ
کی ہماری اوقات نہیں۔۔۔۔۔
یہ الگ بات ہے کہ ۲ چار چھینٹے گرتے ہی بجلی ایسی جاتی ہے کہ جیسے بھی تھی
ہی نہیں
فی الوقت بارش اور بجلی ہمارا موضوع نہیں
سڑک پر سواریوں کی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لئے جگہ جگہ اسپیڈ بریکر
بنائے گئے ہیں۔ ہماری نظر میں اسپیڈ بریگر بنانا غیر دانشمندانہ قدم ہے
اسپیڈ بریکر یکدم سے نمودار ہوتے ہیں۔ راہ گیر بوکھلاہٹ میں ایکسیڈنٹ کر
بیٹھتا ہے۔ تب اسپیڈ بریکر ، گاڑی بریکر اور راہ گیر بریکر بلکہ بعض مرتبہ
لائف بریکر بن جاتے ہیں۔
ہمارے شہر کی سڑکیں کھمبوں اور کچرا کنڈیوں اور کچرے سے بھری پڑی ہیں سڑکوں
پر کئی کھمبے کھڑے رہتے ہیں۔ برقی اور ٹیلیفون کے کھمبے ، سڑک اور گلی کے
نام کی تختیوں کے کھمبے، اشتہارات کے کھمبے، ٹی وی اور ریڈیو کے کھمبے ،
پتنگ لوٹنے کے کھمبے اور بلا مقصد کھمبے۔ ہر طرف یا تو کچرا بکھرا نظر آتا
ہےیا سڑک پرتاحد نگاہ تاروں سے جھولتےکھمبے نظر آتے ہیں
ہماری سڑکوں کی طبی افادیت سے اطبا کو بھی انکار نہیں ہے۔ سڑکیں زود ہضم
اور قبض کشا ہوتی ہیں۔ جب ہم بدہضمی اور قبض کی شکایت لئے ڈاکٹر سے رجوع
ہوتے ہیں تو ہمیں شہر کی سڑکوں پر چند فرلانگ چہل قدمی کا پر خلوص مشورہ
دیا جاتا ہے۔
سڑکوں کی نگہداشت ایک سے بڑھ کر ایک نامور محکمہ کرتا ہے جسے عرف عام میں
"کھایا پیا اور چل دیا " کہتے ہیں۔ ان محکموں کی کارکردگی کے تعلق سے ہم
ایک واقعہ بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جس کی تشہیر لطیفہ کے طور پر ہو چکی
ہے۔
شہر کے ایک گڑھے کے پاس ایک شرابی کھڑا ہو کر گنتی کر رہا تھا:
"پچیس۔۔۔ پچیس۔۔۔۔ "
ایک صاحب کو تشویش ہوئی۔ انہوں نے قریب جا کر استفسار کیا۔ شرابی نے گڑھے
میں دھکا دے کر کہا:
"چھبیس ۔۔۔ چھبیس ۔۔۔"
ہم کراچی والے شہر کی سڑکوں سے حیران اور پریشان رہتے ہیں۔ جان ہتھیلی پر
لئے سر سے کفن باندھے گھر سے باہر نکلتے ہیں۔۔۔۔۔۔
|