معیار انسانیت

قرآن پاک کے اولین مخاطب،اسلام اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سب سے پہلے محافظ و خادم ،اولٰئک ہم الراشدون ،اولٰئک ہم الفائزون ،اولٰئک ہم المومنون حقا،اولٰئک کتب فی قلوب ہم الایمان،رضی اﷲ عنھم ورضوعنہ،محمد رسول اﷲ والذین معہ اشداء علی الکفار رحمابینھم جیسی سینکڑوں آیات کے حقیقی مصداق،امت کے سب سے پہلے محسنین،امت اور نبوت کا درمیانی واسطہ ،دین اسلام کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے لیکرباقی امت تک پہنچانے والے سچے اور ایماندار لوگ،عشق رسالت کی معراج،وفا اور صدق و صفا کے پیکر یعنی قدسی صفات جماعت صحابہ کرام رضی اﷲ تعالی عنھم اجمعین کو اﷲ تعالی نے پوری امت کے لیے کامل نمونہ بنادیا ۔

نماز کیسے پڑھیں جیسے صحابہ کرام نے پڑھ کر دکھلائی ،حج کیسے کریں جیسے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق صحابہ کرام نے کیا،عشق رسالت کا معیار کیا ہے ؟صحابہ کرام کا طرز عمل ،مسلمانوں کے آپسی تعلقات کیسے ہونے چاہیں جیسے صحابہ کرام کے آپسی تعلقات تھے ،کفار سے برتاؤ کیسے کریں ؟جیسے صحابہ کرام نے حکم نبوی کے مطابق برتاؤ کیا،دین کی حفاظت کیسے کی جائے؟جیسے صحابہ کرام نے کی ،اسلام کا تعلیمی و تدریسی منہج کیا ہے ؟جو صحابہ کرام کا تھا ،حکومت اور حکمرانی کا طرز کیا ہونا چاہئے؟جو صحابہ کرام کا تھا ،جہاد کب کہاں اور کیسے کیا جائے؟جب جہاں اور جیسے صحابہ کرام نے کیا یعنی وہ نور جو نبی کریمﷺکے قلب اقدس پر اتارا گیا اس نور کو صحابہ کرام ؓ کے ذریعے پوری کائنات پر صدقہ کردیا گیا ،علم کی خیرات صحابہ کرام ؓ کے ہاتھوں پوری امت میں بانٹی گئی،محبت و مودت کے زمزمے انہی ہاتھوں سے لٹائے گئے،انہی کے سینوں نے تیر کھاکرنبوت کا دفاع کیا ،وہ نبوت کی آنکھیں جو دیدار الہی سے منور ہویں تو ان مطہر آنکھوں کا دیدار انہی کے حصہ میں آیا ،نبوت سے لمعانیت لیکر پوری کائنات کو منور کرنا انہی کا خاصہ تھا ،یہ تو ستارے تھے جنہوں نے اپنے چاند سے روشنی لیکر ظلمت کدہ عالم میں ہدایت کی روشنیاں بکھیر دیں اور ان کے حصے میں نبوت کی گواہی آئی،نبوت کے چلنے سے لیکر انداز تکلم طرز تخاطب تک ،عدالتی فیصلوں سے لیکر محبت کی ضیاء پاشیوں تک ،عبادات اور معاشرت سے لیکر معاملات کی باریکیوں تک ،جہاد سے لیکر حکومت کی دقیقہ سنجیوں تک ،علم کی شناوری سے لیکر عمل کی گہرایوں تک ہر چیز کی چشم دید گواہی بھی انہی کے حصے آئی۔

میں ،میرے ماں باپ ،میری آل اولاد قربان ان مقدس ہستیوں پر کے جنہوں نے میری زباں اور میرے دل کو کلمے سے بہرہ ور کرنے کیلئے اپنی جوانی کی حسین راتیں گھوڑوں کی پیٹھوں پر گزاردیں ،اپنے حسین دن جون جولائی کی سخت دوپہروں کی نظر کردیئے،اپنی خواہشات کو تج دیا ،اپنی دولت کو نبوت کے قدموں میں ڈھیر کرکے اپنے گھروں کو خدا کے سپرد کردیا ،پاؤں میں جوتی نہیں پیٹ میں کھانا نہیں ہاتھ میں سواری نہیں لیکن نبوت کے حکم کی تعمیل میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر برداشت نہیں کی ،اپنے کاروبار اپنی آل اولاد قربان کردی ،پھر کیوں نہ ان کے قدموں کا کھٹکا جنت میں سنائی دے ،ان کی مدحت کے ترانے سات آسمانوں پر گائے جائیں ،قانون قدرت سے جنت کی بشارتیں ملیں ،نبوت کی مطہر زبان ان کی تعظیم کے پروانے جاری کرے اور پھر کیوں نہ قرآن ان کی مدحت سرائی کرے ۔
قدسی صفات جماعت کے اوصاف حمیدہ کو قرآن پاک نے کچھ یوں بیان کیا ہے ۔
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسَ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہ
(سو ر ۃ آ ل عمرا ن )
’’مومنو (اے صحا بہ کرام ؓ)جتنی امتیں لو گو ں میں ہو ئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کا م کرنے کا حکم دیتے ہو اور برا ئی سے رو کتے ہو اور خدا پر ایما ن رکھتے ہو‘‘ ۔
وَکَذَالِک جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا (سو ر ۃ البقر ۃ ع۱۷)
’’ اس طر ح ہم نے تم کو امت معتد ل بنایا ۔تا کہ تم
( رو ز قیا مت )اور لو گو ں پر گو اہ بنو ۔اور پیغمبر (آ خر الزما ن )تم پر گو اہ بنیں‘‘ ۔
وَاعْلَمُوْا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ ۲ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃ ۲وَاللّٰہُ عَلِیْم حَکِیْم (سورۃحجرات )
’’اور جا ن ر کھوکہ تم میں اﷲ کے پیغمبر ہیں ۔اگر بہت سی با تو ں میں تمہا را کہا مان لیا کر یں ۔تو تم مشکل میں پڑ جا ؤ لیکن خدا نے تمہا ر ے لئے ایما ن کو عزیز بنا د یا اور اس کو تمہا ر ے دلو ں میں سجا دیا ۔کفر ،گنا ہ اور نافرمانی سے تم کو بیزا ر کر دیا ۔یہی لو گ را ہ ہدا یت پر ہیں ۔یعنی خدا کے فضل اور احسا ن سے اور اﷲ تعا لیٰ بہت جا ننے وا لے ہیں اور حکمت وا لے ہیں ۔‘‘
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آوَوا وَّنَصَرُووا اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقَّا لَہُمْ مَغْفِرَۃُ وَرِزْقٌ کَرِیْم ٌ (سورۃالانفال ع ۱۰)
’’اور جو لو گ ایما ن لا ئے اور و طن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی را ہ میں لڑائیاں کرتے رہے ۔اور جنہو ں نے (ہجرت کر نے وا لو ں کو )جگہ دی اور ان کی مدد کی یہی لو گ سچے مسلما ن ہیں ۔ان کے لئے (خدا کے ہا ں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔‘‘
اَلَا تَجِدُوْا قَومًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَومِ الاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہِ وَرَسُوْلَہُ وَلَو کَانُوا آبَاؤُہُمْ اَوْ اَبْنَاءَ ہُمْ اَوْ عَشِیْرَتَہُمْ اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلْہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلَا اِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
(سورۃمجا دلہ آ خر ی آ یت)
’’جو لو گ خدا پر اور رو ز قیا مت پر ایما ن ر کھتے ہیں تم ان کو خدا اور رسو ل کے دشمنوں سے دو ستی کرتے ہو ئے نہ دیکھو گے یہی وہ لو گ ہیں ۔جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر کی لکیر کی طر ح ) تحر یر کر دیا ہے اور فیض بخشی سے ان کی مدد کی ہے اور اﷲ ان کوایسی بہشتو ں میں جن کے نیچے نہر یں بہہ رہی ہیں‘دا خل کر ے گا ۔ یہ ہمیشہ ان میں ر ہیں گے خدا ان سے خو ش ہے اور وہ خدا سے خو ش ہیں یہی گرو ہ خدا کا لشکر ہے ‘(اور ) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مرا د
حا صل کر نے وا لا ہے ۔‘‘
مُُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ (سورۃفتح آ خر ی آ یت )
’’محمد خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لو گ ان کے سا تھ ہیں وہ کا فرو ں کے حق میں تو سخت ہیں ‘اور آ پس میں ر حمد ل ۔‘‘
اَلصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالقَانِتِیْنَ وَالمُنَافِقِینَ وَالمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالاَسْحَارِ ۲ (سورۃاٰل عمرا ن ۲)
’’یہ (صحا بہؓ)صبر کرنے وا لے ہیں اور را ست با ز ہیں اور فر وتنی کرنے وا لے ہیں اور خر چ کر نے وا لے ہیں اور پچھلی را ت میں گنا ہو ں سے بخشش چا ہنے وا لے ہیں ۔‘‘
فَاِنْ اٰمَنُوا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِاہْتَدَوا اِنْ تَوَلَّو فَاِنَّمَا ہُم فِیْ شِقَاق ۲
(سورۃ بقرہآیت نمبر۱۳۷ ع۱۶)
’’تو اگر یہ لو گ بھی اسی طر ح ایما ن لے آ ئے جس طر ح تم ایما ن لے آ ئے تو ہدایت یا ب ہو جا ئیں گے اور اگر منہ پھیر لیں اور نہ ما نیں تو وہ (گمرا ہی ) میں ہیں ۔‘‘

آج کے اس نازک دور میں کہ جب ان عظیم ہستیوں کو منتازع بناکر پوری اسلام کی عمارت گرانے کی ناکام اور مزموم سازشیں کی جارہی ہیں ایسے وقت میں نہایت ضروری ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو پڑھاجائے ،ان کی قربانیوں سے عوام کو آگاہ کیا جائے ،ان روشن ستاروں سے روشنی لیکر اپنی زندگی کو سنوارہ جائے،اپنے معاملات اور معاشرت کو بہتر کیا جائے،اپنا طرز حکمرانی درست کیا جائے اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جو عہد نبوی کا پرتو ہو کیونکہ وہ ایسا کامیاب اور کامران معاشرہ تھا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ،تاریخ انسانیت میں یہ بہت بڑا انقلاب تھا جو برپا ہوچکا تھا اور دنیا ششدر و حیراں تھی یہ سب کیسے ممکن ہوا ؟اورآج بھی ہمیں اپنے مذہبی و سیاسی ،سماجی و معاشرتی مسائل کے حل کے لئے شاگردان رسالتؐ کی لمعہ افروزیوں سے اپنے چمن پاکستان کو سجانا اور منور کرنا ہوگا تا کہ ہمارا پیارا وطن عزیز پاکستان ناصرف اپنے مسائل سے نکلے بلکہ پوری دنیا کی قیادت و سعادت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو جو کہ اس کی بنا ء کا اصل مقصد اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کا حقیقی خواب تھا ۔

 

Sufian Ali Farooqi
About the Author: Sufian Ali Farooqi Read More Articles by Sufian Ali Farooqi: 28 Articles with 27168 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.