فتاویٰ رضویہ کی تدوین واشاعت:فر زندان اشرفیہ کا عظیم کار نامہ

مفتی محمد ساجدرضا مصباحی : استاذ ومفتی دارالعلوم غریب نواز داہوگنج کشی نگر یوپی
اعلیٰ حضرت امام احمدر ضا بریلوی قدس سرہ[۱۳۴۰-۱۲۷۲ھ]مکمل چون سال تک فتاویٰ تحریر فر ماتے رہے ۔ آپ کی بار گاہ میں ملک وبیرون ملک کے مختلف علاقوں سے بے شمار سوالات آتے ، اور آپ حسب ضرورت ان کے تفصیلی و اجمالی جوابات تحریر فر ماتے ،آپ کے فتاویٰ کی مجموعی تعداد کیا ہے اس کا اندازہ لگاپانا بہت مشکل ہے ، کیوں کہ ابتدائی بارہ سال کے فتاویٰ کی نقل محفوظ نہیں رکھی جاسکی اور بعد کے فتاویٰ میں بھی مکررات نقل کر کے عموما ایک جواب نقل ہو تا ۔یہ فتاویٰ’’العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ ‘‘ کے نام سے بارہ جلدوں تک پہنچ گئے ۔ان فتاوی کی ترتیب وتدوین اور طباعت و اشا عت میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑا، اور تر تیب وتصحیح، تبییض ومقابلہ میں کن کن علما نے حصہ لیا ، اس حوالے سےذیل کی سطروں میں ہم ہر جلد کی اجمالی روداد پیش کریں گے۔

جلد اول:
امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ[۱۳۴۰-۱۲۷۲ھ]کے فتا ویٰ کی اشاعت کا سلسلہ۱۳۲۷ھ سے شروع ہوا، پہلی جلد آپ کی حیات مبارکہ ہی میں مطبع اہل سنت بریلی شریف سے چھپ کر منظر عام پر آئی ، پہلی بار تعداد اشاعت ایک ہزار تھی۔اس جلد کی خصوصیت یہ ہے کہ کتابت کی تصحیح اور اصلاح سنگ کا کام صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ[۱۳۶۷-۱۲۹۶ھ]نے کیا ہے، اور پھر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے بھی اس کو ملاحظہ فر مایا ہے، فہرست بھی آپ ہی کی تیار کی ہوئی ہے ، اور حاشیہ بھی آپ نے خود ہی رقم فر مایا ہے ۔ اس جلد میں کتاب الطہارۃ سے متعلق فتاوے ہیں ۔۸۸۰؍صفحات پر مشتمل اس جلد میں ہزاروں مسائل کے علاوہ ۲۸؍رسائل بھی شامل ہیں ۔[ مقدمہ فتاوی رضویہ جلد نہم ]

جلد دوم:
پہلی جلد کی اشاعت کے تقریبا نو سال بعد۱۳۴۴ھ میں حضرت صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ[۱۳۶۷-۱۲۹۶ھ]نے دوسری جلد مطبع اہل سنت بریلی شریف سے شائع کی ، اس جلد کی کتابت کاتب فیض الحسن لوح نویس نے کی ہے ، بقیہ امور صدر الشریعہ نے خود انجام دیے، اہتمام میں مولانا ابراہیم رضا خاں کا نام مرقوم ہے، اشا عت اول میں اس جلد میں فہرست نہیں تھی، دوسری بار امام النحو علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ نے مکتبہ سمنانی اندر کورٹ میرٹھ سے شائع کی ہے جس میں فہرست بھی موجود ہے ،جو انھوں نے ہی تر تیب دی ہو گی۔ اس جلد میں کتاب الطہارۃ کے مابقی ابواب اور کتاب الصلاۃ کے باب الاذان تک کا حصہ شامل کیا گیا ہے، اس میں ۷؍رسائل بھی شامل ہیں۔[مصدر سابق]

جلد سوم:
تیسری جلد کی اشاعت کا سبب یہ ہوا کہ غالبا ۱۳۷۸ھ میں شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خاں بریلوی قدس سرہ[۱۴۰۲-۱۳۱۰ھ]دارلعلوم اشرفیہ مبارک پور تشریف لائے ، حضرت علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمۃ[متوفیء۱۹۷۱/ ۱۳۹۱ھ]ان دنوں یہاں کے نائب شیخ الحدیث تھے ، انھوں نے حضور مفتی اعظم ہندعلیہ الرحمۃ والرضوان سے عرض کیا:حضور! فتاوی رضویہ کی اشاعت کا کوئی انتطام ہوا یا نھیں؟ حضور مفتی اعظم ہند نے ارشاد فر مایا:تم لوگوں کے سوا کس سے اس کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ بس حضور مفتی اعظم کا یہی جملہ علامہ عبد الرؤف صاحب کے لیے مہمیز ثابت ہوا، آپ بلند عزائم اور حکمت وتدبر والے شخص تھے، آپ نے فتاوی رضویہ کی غیر مطبوعہ جلدوں کی اشاعت کے لیے دار العلوم اشرفیہ کی رہنمائی میں سُنی دارالاشاعت مبا رک پور کی بنیاد ڈالی ، اور اس ادارے کے نظم وضبط کے لیے قاضی شریعت مولانا محمد شفیع اعظمی نائب ناظم دارالعلوم اشرفیہ، قاری محمدیحیی صاحب ناظم اعلیٰ دارالعلوم اشرفیہ مبار ک پور اوربحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی کو اپنا ہم دم و ہم قدم بنایا ۔

دو جلدیں پہلے ہی شائع ہو چکی تھیں ، علامہ عبد الرؤف صاحب بلیاوی علیہ الرحمۃ [متوفیء۱۹۷۱/ ۱۳۹۱ھ]نے جلد سوم تا جلد ہشتم کا مسودہ حضرت مفتی اعظم ہند سے حاصل کیا، جلد سوم کو مبیضہ کے لیے مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی رحمہ اللہ کو دیا گیا، انھوں نے مبیضہ کے ساتھ پوری جلد کو مبوب ومفصل بھی کر دیا۔ کتابت کے لیے لکھنؤ کے ایک مشہور کا تب کی خدمات حاصل کی گئیں، پروف کی تصحیح کے بعد اصل سے مقابلہ کا کام علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ[متوفی۱۹۷۱ء/ ۱۳۹۱ھ]نے بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے تعاون سے کیا۔فہرست بھی خود ہی مرتب فر مائی ، طباعت سر فراز پریس لکھنؤ میں ہو ئی محرم ۱۳۷۹ھ میں تیسری جلد پر کام شروع ہوا تھا ،۱۳۸۱ھ میں کتاب منظر عام پر آگئی۔یہ جلد ۵۱۸؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں کتاب الصلاۃ کے باب شروط الصلاۃتا باب الکسوف والاستسقا کے فتاوے شامل کیے گئے ہیں ، اس جلد میں ۱۶؍رسالے بھی شامل ہیں ، دس رسالے اور بھی تھے جنھیں اس جلد میں شامل کر نا تھا، لیکن بر وقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے شامل اشاعت نھیں کیا جا سکا ۔ اس ایڈیشن کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں ساری جلدیں ختم ہو گئیں۔[مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد دوازدہم]

جلد چہارم:
جلد سوم کی شان دار مقبو لیت کے بعد چوتھی جلد کا کام بھی سُنی دارالاشاعت مبا رک پور ہی کے زیر اہتمام شروع ہوا، مبیضہ اس بار بھی مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی ادروی نے تیار کیا، کتابت میں عمدگی لا نے کے لیے اس بار کانپور کے مشہور کا تب صحبائی کان پوری سے معاملہ طے ہوااور مسودہ ربیع الاول ۱۳۸۳ھ کو کاتب کے سپرد کر دیا گیا، لیکن امید کے بر عکس دوسال بعد۱۸؍صفر۱۳۸۵ھ کو تقریبا تین سو صفحات کی کتابت کر کے کاتب نے مسودہ واپس کر دیا ، پھر بقیہ حصے کی کتابت لکھنو کے ایک کاتب نے کی ، تصحیح کے کام میں اس دفعہ علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ[متوفی1971/ھ1391ئ] اور بحرالعلوم مفتی عبد المنان اعظمی کے ساتھ دارلعلوم اشرفیہ کے کچھ منتہی در جات کے طلبہ بھی شریک رہے، فہرست علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ[متوفی۱۹۷۱ء/ ۱۳۹۱ھ]نے تیار کی ، اس طرح چوتھی جلد بھی زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آگئی، یہ جلد کتاب الجنائز، کتاب الزکاۃ، کتاب الصوم اور کتاب الحج کے فتاوی پر مشتمل ہے ، ۲۷؍رسالے بھی شامل ہیں ، دو رسالے نقاء النیرۃ فی شرح الجوہرۃ اور معدالزلال فی اثبات الھلال دستیاب نہ ہو نے کے سبب شامل اشا عت نہیں ہو سکے۔[مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم]

جلد پنجم:
پانچویں جلد کے کتاب النکاح کا ایک حصہ تین قسطوں میں حضور مفتی اعظم نے اپنی حیات ہی میں مطبع حسنی واقع آستانہ عالیہ رضویہ بریلی شریف سے شائع کیا تھا، جس کی کتابت فیض الحسن خوش رقم لوح نویس نے کی تھی، آپ نے اس جلد پر حاشیہ بھی رقم فر مایا تھااور فہرست بھی خودہی تیار کی تھی۔ سنی دارالاشاعت مبا رک پورکے ایڈیشن میں جلد پنجم کے مطبوعہ حصے کو غیر مطبوعہ حصے کتاب الطلاق کے ساتھ ملاکر شائع کیا گیا، حسب سابق اس جلد کا مبیضہ بھی مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی صاحب نے تیار کیا، ۱۳۸۸ھ میں یہ جلد نامی پریس لکھنو کے حوالے کی گئی، پریس والوں نے ۹۶؍صفحات کی طباعت کے بعد کسی وجہ سے کام روک دیا، اسی درمیان نامی پریس کے مالک خواجہ شمس الدین صاحب کا انتقال ہو گیا، ادھر شوال۱۳۹۱ھ میں علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ بھی مالک حقیقی سے جاملے، عجب اتفاق کہ انہی دنوں اس کتاب کے تیسرے کاتب بھی فوت ہوگئے،علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ[متوفی۱۹۷۱ء/ ۱۳۹۱ھ]کی وفات کے بعد کچھ دنوں سنی دارالاشاعت تعطل کا شکار رہا ، بقیہ جلدوں کی اشاعت سے مایوسی ہو نے لگی، پھر ڈھائی تین مہینے بعد سنی دارالاشاعت کی ذمے داریاں بحرا لعلوم مفتی عبد المان اعظمی کے سپرد کی گئیں، انھوں نے کتاب نامی پریس سے واپس لے کر سرفراز پریس لکھنؤ کے حوالے کر دی، یہاں کتابت کے لیے کاتب عبد المجید صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں، مبیضہ سے اصل کا مقابلہ حضرت علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ[متوفی۱۹۷۱ء/ ۱۳۹۱ھ]اپنی حیات ہی میں کر چکے تھے، جس میں چوتھی جلد کی طرح حضرت مفتی عبد المنا ن صاحب کے ساتھ دارالعلوم اشرفیہ کے کچھ منتہی در جات کے طلبہ نے بھی حصہ لیا تھا، پروف کی تصحیح اور مقابلے میں مفتی صاحب کا تعاون ان کے منجھلے صاحب زادے مولانا شکیب ارسلان مصباحی نے کیا، اس جلد کی کتاب الطلاق کی فہرست علامہ عبد الرؤف بلیا وی علیہ الرحمہ[متوفی۱۹۷۱ء/ ۱۳۹۱ھ]تیار کر چکے تھے، کتاب الطلاق اور مابعد کی فہرست حضرت مفتی عبد المنان صاحب نے تیار کی، یہ جلد۹۹۷؍صفحات پر مشتمل ہے ۔۹؍رسالے بھی شامل ہیں۔[ مصدر سابق]

جلد ششم:
چھٹی جلد کا مبیضہ مولانا سبحان ا للہ امجدی بنارسی نے تیار کیاجوحضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کے خادم خاص اور ان کی بار گاہ کے حاضر باش تھے ، کتابت مولانا شمس الحق بلیاوی مولانا عبد المنان بر کاتی، محبوب اعظمی اور قاری تبسم عزیزی نے کی ۔ تصحیح و مقابلہ میں مولانا شکیب ارسلان مصباحی اورمولانا عبد السلام گونڈوی نے حضرت مفتی عبدالمنان صاحب کا تعاون کیا، فہرست وغیرہ بقیہ امورکے کام حضرت مفتی صاحب نے خود انجا م دیے۔طباعت کے لیے نشاط پریس ٹانڈہ کا انتخاب کیا گیا۔۱۴۰۱ھ میں یہ جلد شائع ہو کرمنظر عام پر آگئی،یہ جلدکتاب السیر،کتاب اللقیط، کتاب اللقطہ،کتاب المفقود، کتاب الشرکہ، کتاب الوقف پر مشتمل ہے۔اس جلدمیں کل ۵۳۶؍صفحات ہیں ، اس جلد میں ۸؍رسائل شامل ہیں۔

جلد ہفتم:
ساتویں جلد کی تبییض مفتی مجیب الاسلام اعظمی اور مولانا سبحان اللہ امجدی بنارسی نے مل کر کی، کتابت عبد الر حمن اعظمی نے کی، کتاب کے آخری حصے یعنی رسالہ کفل الفقیہ الفاہم کی کتابت قاری محمد یحیی کے بڑے صاحب زادے مولانا نعیم اختر مصباحی نے کی، فہرست تصحیح اور مقابلہ کا سارا کام مفتی عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ نے انجام دیا۔ اس جلد کی طباعت آفسیٹ پریس دہلی میں ہوئی۱۴۰۷ھ میں یہ جلد بھی منظر عام پر آگئی، یہ جلد مندرجہ ذیل ابواب فقہ پر مشتمل ہے ۔کتاب البیوع، کتاب الکفالۃ،کتاب الحوالہ، کتاب الشھادۃ،کتاب القضا والدعاوی، اس جلد میں چار رسالے بھی شامل ہیں ، صفحات کی تعداد ۶۰۰؍ہے۔[مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد دہم]

جلد ہشتم:
آٹھویں جلد کی تبییض کتاب الکفالۃ تا کتاب الکراہیۃمولانا سبحان اللہ امجدی بنارسی اور کتاب الحجر سے کتاب العقیقہ تک مفتی مولانامجیب الاسلام نسیم اعظمی نے کی ہے۔کتابت نظام الدین مئوی، حسام الدین گھوسوی اورشمس الحق ادوری نے کی ہے، تصحیح بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی نے فر مائی ہے ، مولانا محمد اسلم گھو سوی اور مولانا محمد رفیع احمد صاحب کٹیہاری نے تصحیح و مقابلہ میں ان کا تعاون کیا ہے۔ یہ ۱۴۱۲ھ میں جے، اے آفسیٹ پریس دہلی سے شائع ہو ئی، یہ آخری مسودہ تھا جو سنی دارالاشاعت نے شائع کرنے کے لیے حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے حاصل کیا گیا تھا۔اس جلد میں کل ۵۲۱؍فتاوے اور۷؍رسائل شامل ہیں ، جو مندجہ ذیل ابواب سے متعلق ہیں۔ وکا لت، اقرار، صلح ، امانت، عاریت، ہبہ، اجارہ ،اکراہ وحجر، غصب ، شفعہ، قسمت، مضاربت، ذبائح، صید اضحیہ۔ صفحات کی تعداد۶۲۶؍ہے۔[مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد یازدہم]

جلد نہم:
موجودہ نویں جلد کودو جلدوں میں تقسیم کر کے جلد دہم نصفٖ اول جلد دہم نصف اخیر کے نام سے مکتبہ ایوان رضا بیسلپورپیلی بھیت نے شائع کیا، مگر بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی کے مطابق مکتبہ ایوان رضا کے ذمے داران نے اپنی لا علمی کی وجہ نویں جلد کو دسویں جلد قرار دے دیا ہے۔انھوں نے فتاویٰ رضویہ کے مقدمہ محررہ۲۹؍جون ۱۹۹۴ء میں اس سلسلے میں نفیس گفتگو کی ہے ۔ رضا اکیڈمی ممبئی نے دونوں جلدوں کو جمع کر کے جلد نہم کے نام سے شایع کیا ہے ، اس جلد کی تبییض ڈاکٹر فیضان احمد نے کی ہے ،تصحیح و مقابلہ ڈاکٹر فیضان احمد نے کی ہے تصحیح و مقابلے میں جانشین مفتی اعظم ہند علامہ اختر رضا خاں ازہری ، مولانا قاضی عبد الرحیم بستوی، مولانا محمد صالح صاحب، مفتی محمد اعظم صاحب شریک ہیں ، نصف اول تاج آفسیٹ پریس الہ آباد سے شائع ہوا ہے ، نصف اخیر کی کتا بت وطباعت کے تعلق سے کوئی صراحت نھیں مل سکی۔اس جلد میں مجموعی طور پر کتاب الحظروالاباحۃکے ۵۴۴؍مسائل اور۱۲؍رسائل شامل ہیں ۔اس جلد کا ایک رسالہ المحجۃ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ[۱۳۳۹] ہے جو طبا عت میں شامل نہیں ہو سکا ہے ، یہ رسالہ علاحدہ مطبع حسنی پریس بریلی سے چھپ کر جما عت رضا ئے مصطفی بریلی سے شایع ہو چکا تھا، پھر بعد میں رضا فا ونڈیشن لاہور کے مترجم ایڈیشن میں بھی شامل کر لیا گیا ہے ، اس جلد کے صفحات کی تعداد۵۸۴ہے۔ [مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد نہم، از قربان علی]

جلد دہم :
جلد دہم کو حضرت مولانا منان رضا خاں صاحب نے ادارۂ تصنیفات رضابریلی شریف سے جلد یازدہم کے نام سے شائع کیا ہے، اس جلد کی تصحیح و تر تیب وفہرست سازی کے کام حضرت علامہ عبد المبین نعمانی مصباحی رکن المجمع الاسلامی مبار ک پور نے انجام دیے ہیں۔انھوں نے ایک مبسوط’ ’تقریب‘‘ بھی رقم فر مائی ہے۔ ۵۲۷؍صفحات پر مشتمل اس جلد میں کتا ب المداینات، کتاب الاشربۃ، کتاب الوصایا،اور کتاب الرہن سے متعلق فتا وے ہیں ، کچھ ابواب عدم دستیابی کے سبب شامل نہیں ہو سکے ہیں ۔ مسائل کی تعداد۱۷۵؍ہے جب کہ چارمستقل رسائل بھی شامل اشاعت ہیں۔[تقریب ، فتاویٰ رضویہ جلد دہم ، از علامہ عبد المبین نعمانی دام ظلہ]

جلد یازدہم:
اس جلد کی اشاعت سب سے پہلے مکتبہ ایوان رضا پیلی بھیت سے جلد نہم کے نام سے ہوئی ، اس جلد میں کتاب المواریث کے جزکے علاوہ کلام و عقائد کے مسائل ہیں، بعد میں جب یہ جلد ، گیارہویں جلد کے بطور رضا اکیڈ می نے شائع کی تو حضرت مفتی عبد المنا ن اعظمی کے مشورے سے اس کے حصہ مواریث کو جلد دہم میں شامل کر دیا گیا ہے۔

جلد دوازدہم:
یہ جلدغائب ہو گئی البتہ اس کا کچھ حصہ حضرت مولانا توصیف رضا خاں ابن مولانا ریحان رضاکے توسط سے دستیاب ہوااور اسے مرتب کر کے حضرت مولانا حنیف خاں رضوی مصباحی نے رضا اکیڈ می ممبئی سے پہلی بار شائع کرایا، اس میں سابقہ جلد نہم کے مسائل بھی شامل ہیں ،تمام جلدوں کی نئی تر تیب حضرت مفتی عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ کے حکم وارشاد کی مر ہون منت ہے ، جس کی تفصیل حضرت مفتی صاحب نے جلد دواز دہم کے مقد مے میں تحریر فر مائی ہے ۔

اس طرح فتاویٰ رضویہ کی بارہ جلدیں منظر عام پر آگئیں، پھر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے پچہترویں عرس کے موقع پر تمام جلدوں کی ایک ساتھ اشاعت کا ارادہ کیا تو مولانا محمد حنیف خاں رضوی مصباحی نے بحر العلوم مفتی عبد المنا ن اعظمی کی رہنمائی میں بعض تر تیبی خامیوں کو دور کر نے کے لیے بڑی جد وجہد کی،۱۴۱۵ھ میں تمام جلدیں ایک ساتھ رضا اکیڈ می ممبئی سے شائع ہو ئیں ،[تقریب جلد یازدہم ، از مولانا حنیف خاں رضوی مصباحی]

۱۹۸۸ء میں لاہور پاکستان میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کی تصنیفات خصوصافتاوی رضویہ کی جدید اشاعت کے لیے ’’ رضا فاؤنڈیشن ‘‘ کے نام سے ایک ادارے کا قیام ہوا، مفتی عبد القیوم ہزاروی [وصال ۲۰۰۵ھ] کی سر پرستی میں فتاوی رضویہ کی عربی وفارسی عبارات کا ترجمہ، ماخذ و مراجع کی نشان دہی اور تحشیہ کا کام شروع ہوا، یہ عظیم کا م تنہا ایک شخص نہیں کر سکتا تھا، لہذا اس کے لیے ہند وپاک کے متعدد علماکی خدمات حاصل کی گئیں، ایک مختصر عرصے میں ہی تما م جلدوں کے ترجمہ اور تخریج وتحشیہ کا کام مکمل ہو گیا، اب فتاویٰ رضویہ مترجم کی ۳۰؍جلدیں ہو گئی ہیں ، مترجم ایڈیشن میں ان رسالوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو غیر متر جم ایڈیشن میں شامل ہو نے سے رہ گئے تھے۔ اس عظیم کام میں مفتی عبد القیوم ہزاروی[وصال ۲۰۰۵ء]علامہ عبد الحکیم شر ف قادری [وصال۲۰۰۷ء]مولانا عبد الستار سعیدی، مولانا عمر ہزاروی اور ہندوستان کے مستند عالم دین خیر الاذکیا علامہ محمد احمد اعظمی مصباحی صدر المدرسین جامعہ اشرفیہ مبار کپور نے خاص طورپر حصہ لیا۔
۱۹۹۹ء میں رضا اکیڈ می نے مترجم فتاویٰ رضویہ کی آٹھ جلدیں شائع کیں ، پھر اس کے بعد ادارہ نشر واشاعت بر کات رضا پوربندر گجرات نے اولا ۲۴؍جلدیں پھر تیس جلدوں کا مکمل سیٹ شائع کیاجو بر وقت دستیاب ہے اور ابھی سال ۲۰۰۸ءمیں رضا اکیڈ می نے مکمل تیس جلدیں شائع کر کے نہایت کم قیمت میں دستیاب کرا ئی ہیں۔

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 91796 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.