جمعہ نامہ: ظلم و فساد کا یکساں انجام

ارشادِ ربانی ہے: ’’ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ‘‘ ۔ سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ یہ بات منافقین کے بارے میں ہے کہ جب انہیں فساد بپا کرنے سے روکا جائے تو وہ الٹا خود کو مصلح بتاتے ہیں لیکن اس آیت کی بابتحضرت سلمان فارسی ؓ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ :’’ اس خصلت کے لوگ اب تک نہیں آئے‘‘۔یعنی حضور ﷺ کے زمانہ میں بڑے بدخصلت لوگتھےمگر آگے آنے والے ان سے بھی بدتر ہوں گے ۔ بابری مسجد سے متعلق سی بی آئی کی عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد بے ساختہ یہ آیت اور قول یاد آگئے ۔فسطائی رہنما اپنی ہر مفسدانہ سرگرمی کو اصلاح کا نام دیتے رہے ہیں اور گودی میڈیا بھی اس کی تائید کرتا رہاہےلیکن اب تو عدالت نےدو قدم آگے نکل کر فسادیوں کو مصلح قرار دیتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ تو غیر سماجی عناصر کو بابری مسجد کے انہدام سے روک رہے تھے بقول ملک زادہ منظور؎
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

ایسی لوگوں پر قرآن حکیم کا یہ تبصرہ صادق آتا ہے کہ:’’ خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں احساس نہیں ہے‘‘۔ آیت کے اس حصے کا اطلاق عدالت اور بری ہونے والے فسادیوں کو مبارکباد دینے والوں پر بھی ہوتاہے ۔ سورۂ بقرہ میں آگے فرمایا :’’انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں‘‘۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن کے وعدے کسے اچھے نہیں لگتے ۔ ان کے بارے میں مزید فرمایا :’’ اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا کو گواہ ٹھیرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے‘‘۔ اقتدارحاصل ہوجانے کے بعد ا ن قسموں اور وعدوں کو انتخابی جملہ بازی کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے لیکن معاملہ صرف وعدہ خلافی تک محدود نہیں رہتا بلکہ فرمایا :’’ جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائےاور نسل انسانی کو تباہ کرے ‘‘۔ ملک بھر میں ہونے والا ہجومی تشدد اور ہاتھرس جیسے واقعات سرکار کی حمایت اورسرپرستیمیں ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ :’’ کھیتوں کو غارت کرتاہے‘‘۔کسانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر تباہ و تاراج کرنے والے قوانین اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جبکہ:’’ اللہ فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا ‘‘۔

حضرت شعیبؑ کی اہل مدین کو دعوت میں قوم کے جو اخلاق و عادات بیان ہوئے ہیں ان میں اور ملک کے حالات میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے ۔ خطیب الانبیاء نے فرمایا : ’’اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آ گئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو، لوگوں کو اُن کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو، اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اسی میں تمہاری بھلائی ہے اگر تم واقعی مومن ہو‘‘۔ موجودہ معاشرے میں شرک و بت پرستی ، دھوکہ فریب اور دنگا فساد کا اسی طرح بول بالا ہے۔

اگلی آیت خواص کے عادات و اطوار بیان کرتی ہے:’’ اور ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوف زدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہو جاؤ‘‘۔حکومتِ وقت ہر موڑیعنی ادارے کو جبر و ظلم کے فروغ کی خاطر استعمال کررہی ہے۔ ایسے میں حضرت شعیب ؑ کی تذکیر یاد کریں :’’ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا، اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے‘‘۔یہ فسطائی بھی کم تعداد میں تھے لیکن زیادہ ہوکر اقتدار کے نشے میں پچھلے فسادیوں کاانجام بھول گئے ۔ آگےفرمانِ ربانی ہے:’’(مدین والے ) ایسے مٹے کہ گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے شعیبؑ کے جھٹلانے والے ہی آخر کار برباد ہو کر رہے‘‘ ۔قرآن حکیم کے واقعات کا اپنے حالات پر انطباق ، اللہ کی سنت کے اعادہ کا اشارہ کرتاہے ۔ یہی تو ’تاریخ کا اپنے آپ کو دوہرانا ‘ہے بقول شاعر؎
یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448255 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.