آخر سیکولر کون؟

ملک میں بہار الیکشن کے اعلان ہونے کے ساتھ ہی پھر سے یہ سوال پیدا ہوگیاہے کہ آخر سیکولر کون ہیں اور کون کمیونل ہیں کیونکہ آر جے ڈی اور بی جے پی میں دوستی ہوگئی، جے ڈی یو اور بی جے پی میں دشمنی ہوگئی اب کانگریس کسی سے بھی ہاتھ ملانے کے لئے تیار ہوگئ۔ چند چھوٹی موٹی پارٹیوں نے الگ محاذ بنالیا ۔۔۔ہر سیاسی جماعت اپنے آپ کو سیکولر پارٹی قرار دیتی ہے۔ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو جائزہ لیا جائے تو ہر ایک سیاسی جماعت کے ایجنڈے میں سب کا ساتھ ،سب کا وکاس،سب کویکساں حقوق دینے کی بات کہی جاتی ہے،لیکن تمام سیاسی جماعتوں میں سیکولرزم صرف نام کی خاطر ہے اور جو پوشیدہ ایجنڈا ہے وہ سیکولرزم کے خلاف ہے،لیکن تمام سیاسی پارٹیوں سے مسلمان جڑے ہوئے ہیں،ہندوستان میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس میں مسلمان نہ ہوں۔کانگریس، بی جے پی،بی ایس پی، ایس پی،جے ڈی ایس،آر جے ڈی،جے ڈی یو،اے آئی ڈی ایم کے،ڈی ایم کے،سی پی ایم سمیت 239ہندوستان میں سیاسی جماعتیں ہیں جس میں 200 سے زائد سیاسی جماعتوںمیں کم ازکم پانچ فیصد مسلمان عہدوں پر فائزہیں اور انہیں چاہنے والے 25 فیصد مسلمان ہیں۔سیکولرزم کا بھرم بھرنے والی ان سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی اوقات بالکل اسی طرح سے جس طرح سے دال میں کری پتہ ڈالا جاتا ہے۔در حقیقت مسلمانوں نے کبھی سیکولرزم اور اپنے حقوق کے تعلق سے غور وفکر نہیں کیا،ہر کوئی سیاسی جماعت میں پناہ چاہتا ہے،لیکن اپنا کردار کیا ہوگا،اپنے حقوق کیا ہونگے، مسلمانوںکیلئے اس سے کیا فائد ہ ہوگا، مسلمانوں کو یہ سیاسی جماعت کیا دے سکتی ہے ؟مسلمانوںکے تئیں کیارویہ ہوگا؟اگر اقتدار میں آتی ہے تو اس سے مسلمانوں کو کونسی وزار ت دی جائیگی ،کونسا چیرمین بنایا جائیگا،یہ سب کوئی نہیں سوچتا۔ہر سیاسی جماعت میں مائناریٹی کاشعبہ ضرور ہوتا ہے اور اس شعبہ میں مسلمانوں کو مرغی کے پنجرے میں مرغیوں کو ٹھوسنے کے جیسا مسلمانوں کو ٹھو س دیا جاتا ہے اور مسلمان وہاں جگہ پاکر خوش ہوجاتے ہیں،مسلمانوںنے کبھی اپنی سیاسی پارٹیوں مساوی حقوق کو مطالبہ نہیں کیا۔عام طور پر جب حکومتیں آتی ہیں تو تمام وزارتوںمیں سے اقلیتی امور،حج،اوقاف کی وزارت تو مسلمانوں کو ہی ملتی ہے،اس کے علاوہ اور کسی اہم شعبہ یا وزارت میں مسلمانوں کی قیادت نہیں ہوتی۔جب بورڈس وکارپوریشنوں کے چیرمین یا صدر کی بات کی جائے تو اردو اکیڈمی،مائناریٹی کمیشن اور مائناریٹی دیولپمنٹ کارپوریشن کے عہدے ہی مسلمانوں کے حق میں آتے ہیں،باقی تما م اہم شعبوںکے سہرے غیروں کے سر پر باندھے جاتے ہیں۔اس سے یہ بات ثابت ہے کہ مسلمان تمام کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں ہیں یا وہ معاشیات،اقتصادیات،فلاح وبہبودی،پبلک سرویس کمیشن کے عہدوں پر براجمان نہیں ہوسکتے۔اس کے علاوہ سیکولر پارٹیاں جنہیں مسلمانوں کا مکمل ساتھ چاہےے وہ کبھی مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔یوپی میں اعظم خان،دہلی امانت اللہ، کرناٹک میں روشن بیگ اور ایسے ہی ملک کی ہر ریاست میں ایک باصلاحیت و باوقار سیاستدان موجود ہیں، لیکن کبھی کسی سیاسی جماعت نے انہیں سی ایم کا امیدوار نہیں بنایا،سی ایم کے امیدوار بنانے کی بات تو دور جب کسی غیر مسلم اکثریتی علاقے میں ہی ایک مسلمان امیدوار کو کسی بنام سیکولرجماعت سے ٹکٹ دیکر انتخابات میں اتارا جائے تو وہاں سے اس امیدوار کو کامیاب بنانے کیلئے خوداس کی ہی پارٹی کے نمائندے ایک قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ان تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیکولر کون ہے،آخر کونسی سیاسی پارٹی سیکولر ہے او ر کونسا علاقہ سیکولر ہے؟بس ہماری آئین کی کتاب میں لکھا ہو اہے کہ یہ ملک سیکولر ہے اور ا س کی بنیادیں سیکولرزم پر قائم ہیں باقی تمام عمل کمیونل ہے۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 176312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.