پاکستان سدا سے اتحادوں کی سیاست کا گڑھ رہا ہے۔اگر اسے
اتحادوں کی جنت کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔اتحاد جس طرح وقتی طور پر
بنتے ہیں اسی طرح مخصوص مقاصد کے حصول کے بعد فورا ختم بھی ہو جاتے
ہیں۔اتحادوں کے تشکیل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کافی کمزور
ہیں،ان میں جمہوریت برائے نام ہے اور پھر موروثی سیاست نے سیاسی جماعتوں کو
مزید کمزور تر کر رکھا ہے۔ کسی بھی ملک گیر سیاسی جماعت میں انتخابات نہیں
ہوتے اور نہ ہی میرٹ پر فیصلے ہو تے ہیں لہذا عوام کی عملی شمولیت بہت کم
ہو جاتی ہے۔جاگیردار،سرمایہ دا ر ،صنعتکار،وڈیرے اور سردار ساری سیاسی
جماعتوں کے کلیدی عہدوں پر بر اجمان ہو جاتے ہیں جس سے جماعتوں میں تازہ
خون کی امیزش نہیں ہو پاتی اور یوں جماعتیں عوامی مزاج اور شناخت سے کوسوں
دور چلی جاتی ہیں۔پڑھا لکھا نوجوان طبقہ سیاسی جماعتوں میں اپنی جگہ نہیں
بنا پاتا کیونکہ اس کا تعلق اشرافیہ سے نہیں ہوتا۔مڈل کلاس سے تعلق ہونے کی
وجہ سے اس کی حیثیت ثانوی رہتی ہے کیونکہ اسے اہم فیصلہ سازی میں شریک نہیں
کیا جاتا جس سے سیاسی جماعتیں وسیع تر عوامی حمائت سے محروم رہتی ہیں۔یونین
کونسل اور گراس روٹ لیول پر عہدیداروں کا تقرر نہیں کیا جا تا جس سے عوام
کی عدمِ دلچسپی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔انہی وجو ہات کی بناء پر اپوزیشن پر
حکومتی دباؤ بڑھ جاتا ہے جس کا تنِ تنہا مقابلہ کرنا کسی بھی جماعت کے بس
میں نہیں ہوتا لہذا اسے دوسری سیاسی جماعتوں کی مدد درکار ہو تی ہے۔ذاتی
اقتدار کے حصول اور حکومتی شکنجہ کی گرفت سے بچنے کے لئے دوسروں کی اعانت
اتحادوں کی بنیاد بنتی ہے۔اتحاد بننے سے سارے محفوظ ہو جاتے ہیں کیونکہ
ساری سیاسی جماعتوں کے کٹھ کا مقابلہ کرنا تنہا حکومت کے بس میں نہیں
ہوتا۔جلسے جلوسوں اور ریلیوں سے حکومتی رٹ کمزور ہو جاتی ہے جس سے ملکی
معیشت مزیر تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے،اگر حکومت تحمل ، بردباری اور نصاف کے
اصولوں پر عمل پیرا ہو تو شائد تحادوں کی تشکیل ناممکن ہو جائے لیکن حکومت
اپنی انا اور طاقت کے گھمنڈ میں اپو زیشن کا جینا حرام کر دیتی ہے اور جواب
میں اپوزیشن اتحادی سیاست سے حکومت کا چلنا دوبھر کر دیتی ہے ۔اسے ہی نہلے
پر دہلہ مارنے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔،۔
اس وقت پی ٹی آئی حکومت کا بیانیہ صرف اتنا ہے کہ اپوزیشن کرپٹ ہے اور اس
نے پاکستانی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔نیب اس بیانیہ کی پشت
پر کھڑی ہو کراپوزیشن کے اہم راہنماؤں کی گرفتاریوں کو یقینی بنا رہی ہے جس
سے سیاسی درجہ حرارت بہت بلند ہو گیا ہے۔اپوزیشن کو پابندِ سلاسل کرنے پر
کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن سوال پیدا ہو تا ہے کہ وہ لوگ جو وزارتوں
پر فائز ہیں ان کے خلاف نیب کیا کا روائی کر رہا ہے؟ کیا ان سے ان کی کرپشن
کا حساب مانگا جا رہا ہے؟کیا ان کے سابقہ ادوار میں ان کے اللوں تللوں پر
کوئی ریفرنس دائر ہو رہا ہے ؟ بد قسمتی سے پاکستان میں اہلِ اقتدار فرشتے
جبکہ اپوزیشن والے شیطان کے ساتھی گردانے جاتے ہیں ۔الیکٹرانک میڈیا روزانہ
نئی کہانیوں کے ساتھ اپوزیشن کا چٹا چٹھاکھولتا رہتا ہے جس سے قو می سیاست
میں انتشار اور مخاصمت کے انگارے ہر سو بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔اقتدار میں
مخالفین سدا دیوار کے ساتھ لگائے جاتے ہیں اور یہی سب کچھ پی ٹی آئی کی
حکومت بھی کر رہی ہے جس سے ملکی استحکام داؤ پر لگتا جا رہا ہے۔کورونا کی
وجہ سے ملکی معیشت پہلے ہی انتہائی کسمپرسی کی کیفیت میں ہے جبکہ اپو زیشن
کے احتجاج نے اسے اور بھی نڈھال کر دیا ہے۔انتقامی روش ،
،الزامات،گرفتاریوں ،جلا وطنیوں اور غداری کے نعروں نے اپوزیشن کو آگ بگولہ
کر رکھا ہے لہذا وہ بھی خم ٹھنک کر میدان میں نکل آئی ہے۔ٹکراؤ یقینی ہے جس
میں ہار ملکی،استحکام،ترقی، سالمیت اور امن کی ہو گی ۔انتشار کو روکنا
حکومتِ وقت کا کام ہو تا ہے لیکن پی ٹی آئی کی حکومت جان بوجھ کر اسے ہوا
دے رہی ہے ۔اہلِ علم،اہلِ قلم، ماہرینِ قانون اور دانشورانتقامی سیاست کی
روش اور اس کے تباہ کن عواقب کی کی سینکڑوں مثالیں دے دے کر تھک چکے ہیں
لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔وہ پہلے دن سے جس روش پر گامزن
تھی آج بھی اسی روش پر گامزن ہے۔اسے اپوزیشن پر ڈنڈا پھیرنے کے علاوہ کچھ
نظر نہیں آتا۔شائد حکمرانوں کی انا کی تسکین اپوزیشن کو جیلوں میں ٹھونسنے
سے ہی ہو سکتی ہے اس لئے وہ اس روش سے کنارہ کش نہیں ہو رہی ۔اپوزیشن کا ہر
بڑا لیڈر جیل کی ہوا کھا چکا ہے لیکن اس کے باوجود وزیرِ اعظم کا غصہ فرو
نہیں ہو رہا۔ان کا بس چلے تو وہ سارے مخالفین کو بجلی کے کھمبوں کے ساتھ
لٹکا کر سزادے ڈالیں لیکن آئینی مجبوریاں ان کی راہ میں روک بنی ہوئی
ہیں۔کشیدگی کا ماھول بیرونی سرمایہ کاری کو بری طرح سے متاثر کر رہا ہے جس
سے بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ہچکولے کھاتی معیشت مزید تنزلی
کی جانب بڑھ رہی ہے ۔بے روزگاری ملک میں تشدد کا عنصر شامل کر رہی
ہے۔اجتماعی زیادتیوں اور پر تشدد واقعات میں اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ امن و
امان ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔قانون کی حکمرانی قصہِ پارینہ بنتی جا رہی ہے
جبکہ پچھلے ادوار سنہری ادوار نظر آ رہے ہیں کیونکہ ان ادوار میں،تشدد،
مہنگائی، لا قانونیت بے روزگاری اور قانون کے نفاذ کی حالت اتنی بگڑی ہوئی
نہیں تھی۔،۔
پاکستانی تاریخ میں پاکستان قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد دو ایسے
اتحاد تھے جو کافی پر اثر اور مضبوط تھے کیونکہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کی حمائت
حاصل تھی۔اگست ۲۰۱۴ کو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقا دری کا لانگ مارچ
اسٹیبلشمنٹ کی حمائت کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہ سکا کیونکہ اس میں
ساری اپوزیشن شامل نہیں تھی۔حکومت اپنے پانچ سال تو پورے کر گئی لیکن میاں
محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے۔رہی سہی کسر ان کی عمر
بھر کی نا اہلی اور گرفتاری نے پو ری کر دی۔ پی ٹی آئی حکومت کی دو سالوں
کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی جس سے عام آدمی کی زندگی مزید اجیرن ہو گئی ۔
مہنگائی نے غریب آدمی کو براہِ راست متاثر کیا توعمران خا ن کے حمائتی بھی
معذرت خواہانہ رویہ اپنانے لگے کیونکہ کوئی انسان بھی اپنے بچوں کو بھوک
اور افلاس کے منہ میں جاتا نہیں دیکھ سکتا۔عوام عمران خان سے محبت کرتے تھے
اور ان سے انھوں نے امیدیں بھی وابستہ کر رکھی تھیں لیکن عمران خان نے
عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے ذاتی انا کے خول میں زندہ رہنے کو ترجیح دی
جس سے حکومتی کارکردگی صفر ہو گئی۔وہ انتقام کی بجائے مفاہمت کی روش اپناتے
تو حالات بالکل مختلف ہوتے۔مفاہمت کے معنی لٹیروں سے دوستی نہیں بلکہ قانون
کا بلا امتیاز نفاذ ہوتا ہے۔اپنے اور مخالف جب بلا امتیاز قانون کی گرفت
میں ہوتے ہیں تو پورے ملک میں انتشار کی بجائے جوش اور یگانگت کی فضا ہوتی
ہے۔ہر بڑے حکمران کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس کی نظر میں سب برابر
ہو تے ہیں ، وہ اپنوں سے صرفِ نظر نہیں کرتا اور مخالفین کی گردنین نہیں
دبوچتا بلکہ قانون کو اپنا راستہ بنانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔قانون کی یک
طرفہ عملداری نے حکومت کے خلاف اپوزیشن کو یکجا کر دیا ہے۔پی ڈی ایم کا
قیام حکومت کی سفاکیت اور انتقامی روش کے خلاف ایک ردِ عمل ہے جو ملک کی
ترقی ،اتحاد،استحکام اور ایکتا کیلئے زہرِ قاتل ہے۔حکومت ابھی تک طاقت کے
نشہ میں مستغرق ہے لہذا وہ نئی صف بندی کی گہرائی کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اپوزیشن کا متحرک ہونا حکومتی ناکامی کی دلیل ہے کیونکہ حکومت کا کام آگ
بھڑکانا نہیں بلکہ آگ بجھنا ہوتا ہے۔کاش کوئی حکومت کو سمجھائے کہ اس کاکام
اپوزیشن کا مکو ٹھپنا نہیں بلکہ ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔،۔ |