چین پاکستان کا نہ صرف پڑوسی ملک
ہے بلک دونوں ممالک دوستی کے ایک پائیدار اور لازوال رشتے میں بندھے ہوئے
ہیں۔ چین نے حالیہ عشرہ میں جس تیز رفتاری سے اقتصادی ترقی کی ہے، اس نے
یورپ و امریکا کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ زیرِ نظر مضمون اسی مغربی سوچ اور
پروپیگنڈا کا عکاس ہے، جو مغربی میڈیا عالمی سطح پر کررہا ہے۔ مضمون کا
ترجمہ قارئین کو مغرب کی سوچ سے آگاہ کرنے کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
ریوٹنٹو سے لے کر گوگل تک غیر ملکی کمپنیوں سے ہونے والی ہائی پروفائل چینی
لڑائی نے ان کمپنیوں کے سی ای اوز کی راتوں کی نیند حرام کردی ہے۔ تاہم ملک
میں کوئلے کی کانوں کے نجی مالکان اور حکومت کے درمیان لڑائی یہ ظاہر کرتی
ہے کہ سمندر پار کمپنیاں بیجنگ کا واحد ”اہداف“ (Targets) نہیں ہیں۔ آسان
منافع اور لچک دار قوانین نے کوئلے کی صنعت کو آلودگی، کرپٹ افسران اور کام
کی خطرناک شرائط کے حوالے سے بدنام کردیا ہے۔ اب چین بدنامی کی ان وجوہات
کو کوئلے کی کانیں قومیانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے
دوران بیجنگ نے کوئلے کی کانوں کی تعداد نصف کردی ہے جو کہ اب ملک بھر میں
صرف 13000 کے لگ بھگ ہیں۔ انڈسٹری کے بعض ذرائع کے مطابق بند ہونے والی
بیشتر کانیں نجی شعبے میں چل رہی تھیں۔ نئے قوانین نے پرائیویٹ مائنز کے
لیے اپنے لائسنس کی تجدید کو سخت مشکل بنا دیا ہے، جب کہ مالکان کو مائنز
کے سائز اور استعمال ہونے والے آلات کے ضمن میں سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔
ایسے وقت جب حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کمزور فرموں کی قیمت پر ملک میں
مائنز کی بہتری کو فروغ دے رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین دولت کے انفرادی
ذرائع پر اپنی ملکیت چاہتا ہے، کیوں کہ اُسے خطرہ ہے کہ انڈسٹری کی وسعت
اُس پر کنٹرول کو مشکل بنا دے گی۔ اس رجحان کو حکومت کی پیش قدمی اور نجی
شعبے کی پسپائی کی پالیسی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بیجنگ کو نجی
شعبے کو اپنے تصرف میں لے کر اقتصادی قوت بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ نہ
صرف کوئلے کی کانیں بلکہ ہوا بازی، آئل ریفائننگ اور اسٹیل کی صنعتیں بھی
اسی پالیسی سے متاثر ہوئی ہیں۔ 2008ءکے ایک کیس میں ایک صوبائی حکومت نے
مارکیٹ کی قدر توڑنے کے لیے ایک اسٹیل میگنٹ پلانٹ کی خریداری کی، اس کا
وسیع پیمانے پر یہ مطلب لیا گیا کہ ارب پتی صنعت کار اس شعبے سے بہت زیادہ
کما رہے ہیں۔
پیکنگ یونیورسٹی میں اکنامکس کے ایک پروفیسر ژیایلنانگ کا کہنا ہے کہ اگر
حکومت کے اس مقصد کو پیشِ نظر رکھا جائے کہ ”وہ نجی شعبہ کی قیمت پر پبلک
سیکٹر کو متمول بنانا چاہتی ہے“ تو یہ معاشیات کا ایک آسان معاملہ نہیں ہے۔
اس کا تعلق نظریاتی مقاصد سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ سرکاری کنٹرول میں
ایک انٹرپرائزز مارکیٹ لیڈر ”قومی چمپئن“ تیار کرنے کا خواہش مند ہے۔ چینی
حکومت کو یقین ہے کہ ملکی سطح پر قائم ہونے والی یہ انٹرپرائزز بیرونِ ملک
اہم کمپنیوں بہ شمول پیبوڈی انرجی اور آرک کول سے مسابقت کرسکے گی۔ تاہم آج
منقسم کول انڈسٹری نے اس خواہش کو عملاً ناممکن بنادیا ہے۔ چین کی سب سے
بڑی کول کمپنی ”شین ہُوا“ نے گزشتہ برس ملک میں مجموعی طور پر استعمال ہونے
والے 3 ارب ٹن کوئلے میں سے صرف 10 فیصد کے لگ بھگ کوئلہ پیدا کیا۔
اب بھی کوئلے کی زیادہ کانیں ریاستی کنٹرول میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ
کرپشن ختم ہوجائے گی۔ اپریل میں شانک ژی صوبائی حکومت نے کول بیورو کے ایک
اعلیٰ افسر کو رقم خوردبُرد کرنے کے الزام میں 20 سال کی قید کی سزا سنادی۔
اُس پر اتنی رقم غبن کرنے کا الزام تھا جس سے بیجنگ میں 35 اپارٹمنٹ خریدے
جاسکے تھے۔ کوئلے کی صنعت سے وابستہ بڑے سابق صنعت کاروں کے لیے رِیَل
اسٹیٹ ہمیشہ ہی دوسرا کیریئر رہا ہے۔ |