محمد نواز شریف نامی ایک شخص نیب کو مطلوب ہے، بتایا جاتا ہے کہ وہ مفرور
ہے، اسے ’عدالت‘ نے طلب کیا ہے، مگر اُس تک اطلاع پہنچانا نیب اور حکومت کے
لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ نیب نے اس مشکل کو آسان بنانے کے مختلف طریقے
ڈھونڈھ نکالے ہیں۔ نواز شریف کے پاکستان میں موجود گھروں کے باہر پوسٹر
چسپاں کئے جائیں گے، جن پر موصوف کی تصویر بھی ہوگی، متعلقہ تھانوں اور
دیگر مقامات پر بھی یہ اطلاع چسپاں ہوگی۔ اردو اور انگلش اخبارات کو اشتہار
جاری کئے جائیں گے، لاؤڈ سپیکرز پر اعلانات کروائے جائیں گے اور سب سے بڑھ
کر یہ کہ ڈھول کے ذریعے منادی کرائی جائے گی۔حکم یہی ملا ہے کہ اِن تمام
امور کو سرانجام دینے پر جو رقم اُٹھے گی وہ وفاقی حکومت کو ادا کرنا ہوگی۔
اِس کارِ خیر پر کتنی رقم خرچ ہوگی؟ اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں، یہ ہم
عوام کے تصور سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، ’’مالِ مفت، دلِ بے رحم ‘‘ کے مصداق
سرکاری اخراجات اندھا دھند ہوتے ہیں، قومی خزانے پر رحم کرنے کا رواج کم ہی
ہے۔
’عدالت‘ میں پیشی کے لئے اطلاع کے پوسٹر پر ’مطلوب‘ کے گھروں پر اس لئے
لگائے جائیں گے کہ اگر کسی رات وہ چوری چوری اپنے کسی گھر میں داخل ہوں تو
پوسٹر پڑھ کر صورت حال سے آگاہ ہو سکیں کہ نیب اُن کی منتظر ہے۔ ممکن ہے کہ
ایسا ہی اطلا عی پوسٹر لندن میں میاں صاحب کے گھر کے باہر بھی چسپاں کر دیا
جائے۔ اگر وہ گھر سے باہر نہ نکلیں، اور پوسٹر پڑھنے کی نوبت نہ آئے تو اس
مشکل کو آسان بنانے کے لئے نیب نے اخبارات میں اشتہار دینے کا فیصلہ کیا
ہے، اگرچہ میاں نواز شریف کے لئے اردو اخبار ہی کافی تھے، مگر نیب نے ایک
قدم آگے بڑھاتے ہوئے انگلش اخباروں میں بھی اس اہتما م کا اعلان کر رکھا
ہے، شاید نیب کا خیال یہ ہو کہ برطانیہ میں مسلسل ایک طویل عرصہ گزارنے کے
بعد اب وہ اردو کی نسبت انگلش اخبارات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہوں، یا وہاں
اردو خبارات ان کی پہنچ سے دور ہوں، جیسا کیسا بھی ہے، اُن کی سہولت کے لئے
دونوں طرح کے اخبارات میں اشتہار شائع کروا ئے جائیں گے، اُن کی مرضی اردو
اخبار پڑھ کر اپنی گرفتاری پیش کر دیں، یا پھر یہ انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے
انگلش اخبار کے تراشے کے ساتھ نیب کے حضورپیش ہوں، یہ سب کچھ میاں صاحب کی
تازہ ذہنی کیفیت کے مطابق ہی ہو گا۔
اگر میاں نواز شریف نے اپنے گھروں کے دروازوں پرلگی اطلاع پر بھی گرفتاری
نہ دی، اور انگلش اردو اخبارات پڑھ کر بھی نیب کے حکم پر کان نہ دھرے تو
تیسرا حربہ استعمال کیا جائے گا، ڈھول بجا کر منادی کروائی جائے گی، ڈھولچی
کے ساتھ ایک صاحب میگا فون پر اعلان کریں گے، اور بتایا جائے گا کہ نواز
شریف ولد میاں محمد شریف نامی ایک شخص نیب کی ’عدالت‘ کو مطلوب ہے، وہ
اعلان سنے تو خود کو پیش کر دے، یا کوئی اور سُنے تو وہ حکومت کو اطلاع کر
دے۔ حکومت کی یہ جان توڑ کوششیں یقینا رنگ لائیں گی، اور مطلوب شخص تو
متعلقہ اداروں کی رسائی ممکن ہو سکے گی۔ یہ ڈھول والا سلسلہ ہی دیگر ذرائع
سے زیادہ کار گر ہوگا۔ تاہم اس ذریعہ میں رنگ بھرنے کے لئے حکومت کو کچھ
نیا کر کے دکھانا ہوگا۔ یہ نہیں کہ روایتی ڈھول والا پکڑا، ایک سرکاری
ہرکارے کو اعلان پر لگا دیا اور چل سو چل۔ اِس ضمن میں اگر حکومت اپنے چند
اہم وزیروں اور مشیروں سے کام لے، تو بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ شیخ
رشید کو ڈھولچی کے ساتھ اعلان کرنے پر لگانا بہت سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
اعلان میں دلچسپ اور فی البدیہہ جملے لوگوں کی دلچسپی کا موجب بنیں گے۔
فواد چوہدری کو بھی آزمایا جا سکتا ہے، مراد سعید سے بھی کام لیا جاسکتا
ہے۔ البتہ مشیروں میں شہباز گِل اور شہزاد اکبر کی خدمات بہت کار آمد ثابت
ہوں گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مندرجہ بالا تمام اہم شخصیات کو موقع دیا
جائے، کسی کو اسلام آباد ، کوئی لاہور، کوئی کراچی یہ کام کرے اور ذلفی
بخاری کو لندن بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ لندن میں ڈھول کی تھاپ پر نواز شریف
کی پیشی کا اعلان یقینا تاریخی کارنامہ ہوگا۔ دھولچی کے ساتھ اعلان کرنے
والوں کے علاوہ اگر بھنگڑا ڈالنے والے حکومتی افراد کا اضافہ کر لیا جائے
تو اس خبر کے پھیلانے میں مزید مدد مل سکتی ہے۔
اِن تمام طریقوں کے علاوہ ٹی وی چینلز بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، یہاں
اوپر بیان کئے گئے تمام ذرائع کو نمایاں کر کے دکھایا جا سکتا ہے، آگاہی دی
جاسکتی ہے کہ کس طرح نواز شریف کے ہر گھر کے باہر پیشی کی اطلاع چسپاں کر
دی گئی ہے، اخباری اشتہارات کو بھی ٹی وی چینلز پر نمایاں کر کے دکھایا
جاسکتا ہے۔ اور رہا ڈھول کا معاملہ تو تمام ڈھولچیوں اور ان کے ساتھ ساتھ
اعلانات کرنے والے وزراء وغیرہ کو بھی نمایاں کورریج مل سکتی ہے۔ قوم دیکھے
گی کہ کس طرح وزرائے کرام اور مشیرانِ نیک نام اپنا فرض نبھاتے ہیں اور ان
اشتہارات ، پوسٹرز اور ڈھول پیٹنے کے نتیجے میں نیب کی عدالت کا’ مطلوب‘ کس
طرح کھِنچا چلا آتا ہے؟ اگر یہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد بھی ’مطلوب‘ کو
’’خبر‘‘ نہ ہو سکی، یا اسے نہ لایا جا سکا، تو کیا ہوگا؟ یقینا نیب نے پلان
بی اور سی وغیرہ بھی کر رکھے ہوں گے، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ،یعنی آگے
آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!!
|