سعودی عرب ایٹمی پروگرام پر عمل
درآمد کا خواہش مند ہے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح شاہی حکومت کو یہ
فکر ہے کہ اگلے چند برسوں میں بجلی کی طلب میں 8 فیصد سالانہ کی شرح سے
اضافہ ہوگا۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر سعودی عرب قدرتی ایندھن کے متبادل کی
تلاش میں سرگرم ہے۔ سعودی عرب گزشتہ ماہ نیوکلیئر پاور کے شعبے میں داخل
ہوگیا، جب اُس نے ملک میں کم از کم دو نیوکلیئر پاور پلانٹس کی تیاری اور
اُسے چلانے کے لیے مشہور جاپانی فرم توشیبا اور امریکا کی دو فرمس شاگروپ
اور ایکسیلون کے ہمراہ منصوبہ کا اعلان کیا۔ یہ معاہدہ مستقبل میں توانائی
کے ذخائر کی دیکھ بھال کرنے والے ایک ادارہ ”کنگ عبداللہ سٹی فار نیوکلیئر
اینڈ ری نیو ایبل انرجی“ کے قیام کی ضمن میں کیا گیا ہے۔
بلاشبہ سعودی عرب ایٹمی توانائی کے حصول کی خواہش رکھنے والا مشرقِ وسطیٰ
کا واحد ملک نہیں، تاہم وہ اپنے غریب پڑوسیوں کے برخلاف اپنے منصوبے پر عمل
درآمد کے لیے مالی استعداد رکھتا ہے۔ بہرکیف ملک کے بڑوں کی جانب سے
اندرونی معاملات کو خفیہ رکھے جانے کے باعث تجزیہ نگار اُس کی ایٹمی
خواہشات کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے
برخلاف متحدہ عرب امارات کا 40 ارب ڈالر کا ایٹمی پاور پروگرام قطعی شفاف
ہے۔ حتیٰ کہ اُس نے ایٹمی تعاون پر امریکا سے ایک دو طرفہ معاہدہ پر دستخط
کیے ہیں، تاہم سعودی عرب نہ تو یو اے ای کی پیروی کرے گا اور نہ ہی اپنے
تمام کارڈ دکھائے گا۔
جب سعودی عرب یہ کہتا ہے کہ وہ مستقبل میں انرجی سیکورٹی کے لیے ایٹمی
توانائی میں دلچسپی رکھتا ہے تو دراصل ایٹمی ایران کا خطرہ اُس کے پیشِ نظر
ہوتا ہے۔ گو کہ مغربی تجزیہ کار ایران کے مبینہ ایٹمی پروگرام میں توسیع پر
غیر یقینی میں مبتلا ہیں تاہم یہ خدشہ سعودی عرب کے لیے پریشان کن ہے کہ
ایران اگلے چند برسوں میں ایٹمی قوت بن سکتا ہے۔ کارنیگی اینڈومنٹ فار
انٹرنیشنل پیس میں نیوکلیئر پالیسی پروگرام کے سینئر ایسوسی ایٹ مارک ہبس
کا کہنا ہے کہ ”سعودی عرب میں ایٹمی طاقت کے حصول کے لیے سیاسی اور اقتصادی
دونوں محرکات موجود ہیں، ملک میں توانائی کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے، یہ
امر باعثِ تشویش ہے۔ اگر قدرتی ایندھن کی برآمد کو اُس کی اقتصادی بنیاد سے
الگ نہ رکھا گیا تو یہ ایک خدشہ ہوسکتا ہے۔ تاہم سعودی عرب خطہ میں ایران
کی ایٹمی لیڈر شپ کو چیلنج کرنے کا خواہش مند ہے۔“ ہبس کا کہنا ہے کہ اس کا
یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ سعودی عرب ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کرے
گا۔ تاہم ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران سعودی عرب کے لیے براہِ راست خطرہ
ہوگا۔
امریکی جریدہ نیوز ویک کے مطابق بعض مغربی حکام کو خدشہ ہے کہ سعودی عرب
پاکستان کے ساتھ ایک ایٹمی دفاعی معاہدے میں شامل ہوسکتا ہے (دونوں ممالک
میں سنی عوام اکثریت میں ہیں) تاکہ شیعہ اکثریت والے ملک ایران سے درپیش
ایٹمی خطرہ سے تحفظ حاصل کیا جائے۔ اس تشویش میں اضافہ ان خدشات کی وجہ سے
بڑھ جاتا ہے جو کہ یورپی اور امریکی حکام ظاہر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
سعودی عرب پہلے ہی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام کے لیے
سرمایہ فراہم کررہا ہے۔ امریکی و یورپی حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا
ایٹمی پروگرام پُرامن ہو یا نہ ہو اس کے مشرِقِ وسطیٰ اور غیر ممالک پر بہت
بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔
(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہوا) |