غیر فطری تباہی کا ذمہ دارکون؟

مسلسل بارشوں، سیلاب اور بڑے پیمانے پر جھیل کی تباہی کے باعث اس سال پاکستان کے لیے قدرتی آفات کی کوئی مثال نہیں ملتی جس کی تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے وسیع پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے۔ ایک عشرہ کے دوران قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہی کی شرح کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہیرالڈ حالیہ تباہی ہونے اور اس کی شدت کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اس کی وجہ ہے جب کہ پیشگی اقدامات کے ذریعے اس کی شدت میں کمی لائی جاسکتی تھی۔

حالیہ عشرے میں ملک کو تین بڑے زلزلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 26 جنوری 2001ءکو مشرقی سندھ میں زلزلہ (جس کا مرکز بھارتی صوبہ گجرات تھا)، 29 اکتوبر 2008ءکو بلوچستان میں آنے والا زلزلہ (افغان سرحد کے نزدیک) درمیانے درجے کا تھا۔ تاہم 8 اکتوبر 2005ءکو پاکستان میں خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں مہلک زلزلہ آیا جس کے لیے امدادی سرگرمیاں کئی ماہ تک جاری رہیں۔ ایک 40 سالہ خاتون کو زلزلہ آنے کے دو ماہ بعد معجزانہ طور پر بچا لیا گیا، تاہم بحالی کی سرگرمیاں ایک مشکل ہدف تھا۔

اسی اثناءمیں پاکستان میں پانی سے متعلقہ تباہی ایک پنڈولم کی مانند عقب میں رہی۔ 2000ءمیں سندھ، جنوبی بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں ڈھائی برس تک بارشیں نہ ہونے کے باعث سخت قحط جیسی صورتِ حال رہی۔ بارشیں نہ ہونے کے باعث سیلاب سے حالیہ تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جون 2007ءکے آخر میں سائیکلون یمین (Yemin) کے بلوچستانی ساحل سے ٹکرانے کے باعث سندھ کے ساحلی علاقوں میں بہت تباہی ہوئی۔ مئی کے آخر اور جون کے شروع تک سائیکلون پیٹ گوادر میں بڑے پیمانے پر سیلاب کا باعث بنا۔ اس سال ہنزہ کے عطاآباد ولیج میں بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں عطاآباد جھیل بن گئی۔

جولائی اور اگست کے درمیان قیامت خیز سیلاب کے نتیجے میں پہلے ہی 1600 سے زیادہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جب کہ ملک بھر میں دو کروڑ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2000ءسے اب تک لاکھوں زندگیاں قدرتی آفات سے متاثر ہوچکی ہیں۔ 2000ءمیں آنے والے قحط سے 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جس میں سے بیشتر پانی کی کمی (Dehydration) سے متاثر ہوئے۔ سندھ میں اس سے 22000 کلومیٹر زمین متاثر ہوئی جب کہ ہزاروں مویشی ہلاک ہوگئے۔ 2005ءمیں آنے والے زلزلے میں 8 ہزار افراد ہلاک جب کہ 33 لاکھ اپنے گھروں سے محروم ہوئے۔

سائیکلون یمین جس وقت پاکستان کے ساحل سے ٹکرایا تو یہ سائیلون پیٹ سے زیادہ تباہ کن تھا۔ یمین سے 730 افراد ہلاک اور 350,000 افراد بے گھر ہوئے۔ اس کے برخلاف سائیکلون پیٹ سے 15 افراد جاں بہ حق اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔ دریں اثناءہنزہ جھیل کی تباہی کے باعث 25,000 افراد بے گھر ہوگئے۔
ماضی میں بھی پاکستان کو قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1935ءمیں آنے والے زلزلے میں 60 ہزار افراد جاں بہ حق ہوئے۔ بعدازاں 1945ءکے زلزلے میں 4000 افراد ہلاک ہوگئے۔ 1950ءمیں سیلاب سے 2900، 1965ءمیں ہواؤں کا طوفان 10,000 کی زندگیوں کا چراغ گُل کر گیا۔ 1974ءکے زلزلے میں 4700، جب کہ 1991ءمیں قیامت خیز گرمی کی لہر 523 جیتے جاگتے انسانوں کو نگل گئی۔

درج بالا اعداد و شمار کے مطابق قدرتی آفات کے باعث اس عشرے کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد سابقہ عشروں کے مقابے میں بہت زیادہ ہے۔ ماہرِ ماحولیات رینا سعید خان کے مطابق یہ اس لیے بھی ہوا ہے کہ پاکستان میں چند عشروں قبل ماحولیاتی اثر سخت تھا۔ حال ہی میں اتنے وسیع پیمانے پر تباہی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے لوگ ایسے بحران سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مثال کے طور پر لوگوں نے دریاؤں کے نزدیک نشیبی سطح پر مکانات تعمیر کرلیے۔ اس کے برخلاف 50 برس قبل لوگ زمین کی سطح سے کافی اونچائی پر مکان تعمیر کرتے تھے، جب کہ دریا کی سطح میں اضافہ ہونے کے باوجود محفوظ تھے۔ زلزلے کی صورت میں نقلِ مکانی موثر طور پر ہوسکتی ہے۔

اب تک ماحولیاتی سائنس دان اور مبصرین جولائی و اگست میں پاکستان میں سیلاب، روس میں سخت گرمی کی لہر اور چین میں سیلابوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجوہات کو ایل نینو/لانینا سدرن اوسی لیشن ”اینسو“ (El Nino/La Nina Southern Oseillation) کے اثرات سے تعبیر کررہے ہیں۔ اینسو بحرالکاہل میں جنم لیتی ہے کیوں کہ سمندر کی سطح پر درجہ حرارت زیادہ اور درمیانی سطح پر کم ہوتا ہے۔ یہ سائیکل اوسطاً ہر پانچ سال بعد دوبارہ مکمل ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سخت قدرتی آفات آتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ (یو این) کی ورلڈ میٹرولوجیل آرگنائزیشن کے مطابق موجودہ تباہی اتنے وسیع پیمانے پر ہے کہ اُس نے انتہائی سخت قدرتی آفات کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ نے ماحولیاتی سائنس دانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر ان حالات کی اسٹڈی کریں کہ کہیں موسمی شیڈول (Weather Patterns) مستقل طور پر تبدیلی تو نہیں ہورہا ہے؟ رینا سعید خان نے موسمی شیڈول کے مستقل طور پر تبدیلی کے ممکنات پر کہا کہ سائنس دان یقینی طور پر ماحولیات کی تبدیلی اور عالمی سطح پر قدرتی آفات میں اضافہ کے درمیان تعلق کی وضاحت نہیں کرسکتے۔ تاہم انہوں نے متنبہ کیا کہ موسمی اور ماحولیاتی صورتِ حال مستقبل میں مزید تباہ کن ہوسکتے ہیں۔

(آرٹیکل روزنامہ جرات کراچی میں شائع ہوا)
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77856 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More