ندیم ؔصدیقی
کل ہم نے اسی جگہ آنجہانی راج بہادر گوڑ کے تعلق سے کچھ باتیں لکھی تھیں۔
اس پرہمیں بھی حیرت ہوئی تھی کہ ڈاکٹر گوڑ نےMBBS اُردو زبان میں کیا
تھا۔!!
کل بھی ہم نے یہ لکھا تھا کہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اُردو میں شاعری اور
افسانہ نگاری کے سوا کیا رکھا ہے۔ یعنی اس زبان کو زندگی کے دیگر شعبوں میں
کوئی دخل نہیں ہے مگر گوڑ صاحب کی خبرسے پتہ چلا کہ یہ ہماری بے خبری تھی
دورِ گزشتہ میں ہمارے بزرگوں نے اُردو زبان کو محض تفریحِ طبع ہی تک محدود
نہیں رکھا بلکہ مختلف موضوعات پر بھی خاصا کام کیا ہے یہ سوچنے کی بات ہے
کہ انگریزی میں میڈیکل کی اپنی زبان ہی نہیں اس کی طبی اصطلاحات بھی ہونگی
وہ سب اُردو میں کیسے منتقل کی گئیں !!جو ایک نہایت دّقت اور محنت طلب علمی
کام ہے جو سب اُردو میں کیا جاچکا ہے اور ان موضوعات پر باقاعدہ نصابی
کتابیں دستیاب تھیں۔
آزادی کے بعد بالخصوص تقسیم ہند کے بعد ملکِ عزیز کی فضا جس طرح مکدر ہوئی
اسکے اثرات انسانی زندگی ہی پر نہیں بلکہ حیات کے مختلف شعبوں پر بھی پڑے ۔
کیا کوئی آج سوچ سکتا ہے کہ زبانِ اُردو کے ذریعے کوئی شخص MBBS کی تعلیم
مکمل کر سکتا ہے؟ مگر یہ واقعہ ہے کہ ایسا ہوا، جس کی مثال ڈاکٹر راج بہادر
گوڑ تھے یہ تو ہماری بے علمی ہے کہ اگر دورِ گزشتہ میں اُردو زبان میں
اعلیٰ تعلیم وہ بھی میڈیکل کی تعلیم اُردو میں ہو رہی تھی تو صرف راج بہادر
گوڑ ہی نے تو اُردو میںMBBS نہیں کیا ہوگا اور بھی اشخاص رہے ہونگے، بہر
حال یہ ایک دل چسپ اور تاریخی موضوع ہے جس پر تحقیق کی جائے تو کیا عجب ہے
کہ اور بھی راز ہائے علوم سے پردہ اٹھے۔
مشہور براڈکاسٹر رضا علی عابدی نے گز شتہ دنوں اپنے کالم میں ایک ایسی ہی
تحقیقی کتاب کا تذکرہ کیا ،جس میں بتایا گیا ہے کہ سِوِل انجینئرنگ میں ملک
کی اوّلین درس گاہ (واقع رُڑکی۔ ہندوستان) میں ’’ انجینئر نگ جیسا مضمون
کبھی اردو میں پڑھایا جاتا تھا، اس تازہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اپنے قیام
1847ء سے لے کر تقریباً 1870ء تک اس درس گاہ میں ہندوستانی لڑکوں کو
انجینئرنگ کے سارے مضمون اُردو میں پڑھائے جاتے تھے۔‘‘
واضح رہے کہ اب اس درس گاہ کو یونی ورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔ یہ یونی ورسٹی
وسیع و عریض زمین پر رُڑکی جیسے پُر فضا مقام میں تشنگانِ علم و ہنر کو
سیراب کر رہی ہے۔ جس کا ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے۔
رضا علی عابدی کے اس مضمون کو پڑھنےکے بعد ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ
سِوِل انجینئرنگ کی اُردو میں نصابی کتابیں کسی مسلمان کی تحریر کر دہ نہیں
بلکہ اس کارہائے علمی کو برادرانِ وطن نے انجام دیا تھا۔ یقیناً علم ، علم
ہی ہے وہ کسی کا دِین دھرم نہیں دیکھتا جو اُس کی جانب بڑھے گا، جدوجہد کرے
گا، بیشک اسے کامیابی نصیب ہوگی۔
نئی نسل کے کم لوگ جانتے ہونگے کہ لال باغ اور پریل( بمبئی) کے علاقے میں
ایک درس گاہ ’’مہارشی دیانند کالج ‘‘کے نام سے آج بھی واقع ہے یہ بات بہت
پرانی نہیں بس چند دہے قبل کی حقیقت ہے کہ اس کالج میں باقاعدہ اُردو زبان
کا شعبہ قائم تھا جس سے اُردو کے دو مشہوراُستاد ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی
اور خورشید نعمانی صاحبان ایک مدت وابستہ رہے جب اس کالج سے اُردو کے طلبہ
نے منہ موڑا تو نتیجتاً کالج ِ ہذا کے منتظمین کو اس شعبے کو ختم کر نے
کاموقع مل گیا، اس کالج کی لائبریری میں اُردو کی خاصی کتابیں تھیں ، ان کا
کیا بنا؟یہ کس کو پتہ!!
اُردو کی کتابوں کا اِس وقت کیا حال ہے؟ یہ حقیقت بھی بڑی دل سوز ہے۔ آج
سے کوئی بارہ پندرہ برس قبل کی بات ہوگی کہ ہفت روزہ BLITZ (اُردو )بند ہو
چکا تھا اور اس کے ممتاز رُکن محترم محمود ایو بی جو کچھ عرصے(اُردو بلٹز
کے) مدیر بھی رہے۔ مہاتما گاندھی میموریل لائبریری(ممبئی) میں کام کر رہے
تھے ہم اپنےبزرگ دوست سے بغرضِ ملاقات اس لائبریری میں پہنچے تو محمود
ایوبی صاحب کسی کام میں مصروف تھے، انہوں نے اشارہ کیا کہ کچھ دیر توقف
کرو۔ ہم لائبریری میں چہل قدمی کرنے لگے، تو دیکھتے ہیں کہ لائبریری کے ایک
حصے میں زمین پر اُردو کی بہت سی کتابیں پڑی ہوئی ہیں ہم نے بڑھ کر کچھ
کتابیں اُٹھائیں تو اُن میں کئی کتابوں پر شہر کے مشہورو اہم افسانہ نگار
اور ادیب انور خان کے دستخط درج تھے بعد میں پتہ چلا کہ انور خان کے انتقال
کے بعد ان کے گھر والوں نے یہ کتابیں مہاتما گاندھی لائبریری کو عطیہ کر
دِی ہیں اور مذکورہ لائبریری میں ان کتابوں کو رکھنے کی فی الحال جگہ نہیں
ہے سو یہ کتابیں زمین پر پڑی ہوئی ہیں۔
دورِ گزشتہ کے اکثر گھروں میں کتابوں کے لیے الماری ہوتی تھیں اور وہ حضرات
جو درس و تدریس یا علم وادب سے تعلق رکھتے تھے ان کے گھروں میں تو باقاعدہ
کتب خانہ ہوتا تھا۔ ہم نے جن شعرا اور ادبا کے گھروں میں کتب خانہ دیکھا ہے
اُن میں محمود سروش اور ڈاکٹر ظ انصاری کا نام نمایاں ہے۔ سروش مرحوم کے
ہاں تو زمین پر بچھے ہوئے تختے سے کمرے کی چھت تک چاروں طرف کتابیں ہی
کتابیں دیکھی ہیں اور یہ کتابیں مختلف موضوعات کی تھیں۔ محمود سروش کی
لائبریری تورِضوی کالج
( واقع باندرہ۔ ممبئی) میں منتقل ہو گئیں اور چند برس قبل کی بات ہے کہ
ڈاکٹر ظؔ انصاری کے فرزندِ اکبر خورشید حیدر صاحب نے ہم سے مدد طلب کی کہ
(قلابہ ۔ ممبئی میں واقع) شیرین بلڈنگ میں ظ صاحب کا فلیٹ فروخت کیا جارہا
ہے سو اُن کی کتابیں فوری طور پر وہاں سے ہٹانا ہے ۔ ہم فوری طور پرکچھ
نہیں کر سکے اور وہ تمام کتابیں اِدھر اُدھر ہو گئیں، اسی طرح ساحر
لدھیانوی اور مشہورِ زمانہ مجلہ’’ فن اور شخصیت‘‘ کے مدیر صابر دت کے تمام
علمی اثاثے بھی بلڈنگ’’ پرچھائیاں‘‘ سے ضائع ہوگئے۔ کالیداس گپتا رضاؔ کے
ہاں بھی ایک گراں قدر علمی ذخیرہ کتابوں کی شکل میں تھا وہ کہاں گیا شاید
کسی کو علم نہیں۔
بات ہو رہی تھی کہ اُردو میں شعرو ادب سے ہٹ کر علمی موضوعات کی کتابوں کی
اور بالخصوص رُڑکی کی انجینئرنگ یونی ورسٹی کی۔ جہاں باقاعدہ انجینئرنگ کی
نصابی کتابیں اُردو میں تیار ہوئیں اور پڑھنے والوں نے اُن سے استفادہ کیا
جس میں اہم بات یہ ہے کہ یہ نصابی کتابیں تیار کرنے والے اہل ِ علم میں یہ
نام ملتے ہیں:
مُنّو لال،رام چندر،مدھو سُدن چٹر جی اور بہاری لال۔۔۔ البتہ بعض مسلمانوں
کے بھی نام ہیں مگر وہ نائبین میں ہیں۔
رضا علی عابدی نے ریسرچ اسکالر ساجد صدیق نظا می کی جس کتاب کا ذکر کیا ہے
اس سے ہم کو کئی اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ہماری جامعات میں ریسرچ کا کیا اور کس معیار کا کام ہو رہا ہے وہ سب پر
کھلا ہوا ہے۔ شاعری اور ادب کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔ یاد آتا ہے کہ
مشہور شاعر اور براڈ کاسٹر زبیر رضوی(مرحوم) سے ایک بار گفتگو ہو رہی تھی
تو انہوں نے کہا تھا:
ہمارے بچوں اور ہمارے اُردو اساتذہ کے ہاں تو جیسے تنوع اور نت نئی جستجوکے
تمام چراغ بجھ گئے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُردو کے مشہور شاعر اور سیاست
داں مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی کی شاعری پر یقیناً پی ایچ ڈی وغیرہ کی
گئی ہوگی مگر اُن کی سیاسی زندگی تو ان کی شاعری سے کہیں زیادہ اہمیت کی
حامل ہے اور پارلیمنٹ میں ان کی تقریروں کے تمام ریکارڈ ابھی محفوظ ہیں مگر
کسی نے اب تک پارلیمان کے آرکائیز کے اس اثاثے کو ہاتھ نہیں لگایا، جب کہ
یہ ایک اہم تحقیق کا موضوع ہے۔
عجب نہیں کہ کسی وقت ہمارا یہ بیش قیمت اور تاریخی اثاثہ بھگوا سیاست کی
نذر ہوکر تباہ ہوجائے۔
دہلی میں ایک خاتون ہیں ڈاکٹر اجیت کور ،انہوں نے محمد علی جناح پر ایک غیر
معمولی تحقیقی ورک کیا ہے جو انگریزی سے ہندی اور اُردو زبان میں (’’ محمد
علی جناح: اک سیکولر کردار‘‘ کے زیر عنوان)کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ اسے
پڑھ کر جناح کے تعلق سے ایسی کئی باتیں ہمارے علم میں آئیں جو جناح کی
تاریخ کے بعض اہم گوشوں کو روشن کرتی ہیں۔خود اس کتاب کا نام ہی اپنے آپ
میں ہمارے لیے حیرت کا باعث تھا،اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس کتاب کو لکھنے
کی جرأت کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ایک سردارنی نے کی ہے۔
وہ دَور گزرے بہت وقت نہیں بیتا جب ہر شہر میں اعلیٰ درجے کی لائبریری
سرکاری ہی نہیں پرائیویٹ لائبریریز بھی ہوتی تھیں ہمارے کانپورمیں
مشہورپھول باغ میں سرکاری لائبریر ی اورمِسٹن روڈ(مولانا حسرت موہانی
مارگ)میں بھی ایک پبلک لائبریری تھی، اسی طرح بانس منڈی (کانپور ) کی اقبال
لائبریری بھی یاد آتی ہے جن میں اُردو کی بیش بہا کتابیں موجود تھیں وہ سب
کہاں گئیں شاید کانپور میں بھی اب کسی کو نہ پتہ ہو۔ یہ تو جو یاد آگیا
اُن کا تذکرہ ہو گیا ورنہ تو جیسا کہ ہم نے لکھا کہ ہر شہر میں لائبریرئیاں
تھیں اور ان کے پڑھنے والے بھی تھے مگر اب سب قصۂ پارینہ ہے۔
رضا علی عابدی کا یہ کالم جس میں ریسرچ اسکالر ساجد صدیق نظا می کی تحقیق
ہی موضوع بنی ہے ، اس کامتقاضی ہے کہ اُردو کے وہ لوگ جو اپنی زبان کا درد
رکھتے ہیں اسےضرور پڑھیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پڑوس میں صرف اُردو
شاعری وغیرہ ہی نہیں ترقی کر رہی ہے بلکہ وہاں زبان ِ اُردو کے تعلق سے
دیگر تحقیقی اور علمی کارنامے بھی وجود پا رہے ہیں۔ ہماری تعلیمی تاریخ میں
ایکSir ہے جس کا یہ لقب اس کےنام کا حصہ بن چکا ہے کہ کوئی بھی اب علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی کے بانی کو صرف سید احمد خاں نہیں کہتا ، ان کو یاد کرنے
والے پرلازم ہےکہ وہ ان کے نام کے ساتھ ’سَر‘ کا سابقہ لگائے مگر اس ترقی
یافتہ دور میں اب گلی گلی’’ سَروں‘‘ کی بہتات ہے۔
عام یا نام نہاد اساتذہ اور’’ ماہرین ِتعلیم‘‘ اپنے احترام اور اپنےلقب
۔۔۔Sir۔۔۔ کے سحر میں گُم رہیں اور موٹی موٹی تنخواہوں سے اپنی اولادوں کو
اُردو زبان سے دور رکھتے ہوئے انگریزی میڈیم سے تعلیم دلاتے رہیں۔
ہمارے ایک سینئر دوست جو مُمبرا کے اوّلین مسلم وکیل تسلیم کیے جاتے تھے ہم
ان سے اُردو کی مخدوش صورتِ حال پر گفتگو کر رہے تھے کہ کمرےمیں ایک نو
جوان کی آمد ہوئی پتہ چلا کہ وہ نوجوان، وکیل صاحب کا بھتیجا اور داماد ہے
اس نے ہماری گفتگو سنتے ہوئے اچانک ایک جملہ ہماری طرف پھینکا کہ
’’ اُردو سے کیا ملنے والا ہے۔؟‘‘
اس جملے پر اس سے پہلے کہ ہم کچھ بولتےاعظمی وکیل صاحب کے چہر ےپر نگاہ پڑی
تو اس کا رنگ اُڑ چکا تھا چونکہ وہ داماد بھی تھا تو بیچارے وکیل صاحب اپنے
داماد سے کیا جرح کرتے۔!!
دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی یونی ورسٹی کے (سابق)استاد خالد محمود
صاحب کا بیان کردہ واقعہ بھی ذہن میں چپکا ہوا ہے جو مذکور ہوجاوے کہ ان کی
طالب علمی کا زمانہ تھا وہ کسی موضوع پر تحقیقی ورک کر رہے تھے ان کے کمرے
میں ایک محترم خاتون داخل ہوئیں اور انہوں نے اُردو کی کتابوں کا ڈھیر
دیکھتے ہوئے برجستہ کہا تھا:
’’خالد میاں! آپ ابھی تک اُردو ہی میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اُردوکےمشہورو ممتازافسانہ نگارجوگندر پال اپنے دیرینہ دوست جو دور کسی شہر
میں کسی بڑے عہدے پر فائز تھا اس کی دعوت پراس کےگھر گئے اور دوست کے اصرار
پر کئی دن تک مہمان رہے،جوگندر پال نے ایک جگہ لکھاہے کہ مَیں اپنے دوست کی
کوٹھی کے مہمان خانے میں تھا، جس کی ایک کھڑکی باہر لان کی طرف کھلتی تھی
کہ ایک صبح مَیں چائے پی کر بیٹھا تھا کہ دوست کا بیٹا اپنے کسی دوست کے
ساتھ لان میں باتیں کر رہا تھااُن دونوں کی آوازیں مجھے صاف سنائی دے رہی
تھیں، آنے والے نوجوان نے میرے دوست کے بیٹے سے پوچھا :کیا تمہارے ہاں
کوئی مہمان آیا ہواہے ۔؟
تو میرے دوست کے فرزند نے جواب دِیا کہ’’ہاں یار کسی اولڈ لینگویج کے کوئی
رائٹر ہیں جو میرے فادر کی اسٹوڈنٹ لائف کے ساتھی ہیں۔‘‘
تصور کیجیےکہ جوگندرپال نے تو اپنی زندگی ہی میں سُن لیا تھا کہ وہ ’’ کسی
اولڈ لینگویج کے کوئی رائٹر ہیں۔‘‘
ہمارے دَور کے ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ کے نشےمیں دُھت اُردوقلم کاروں کو جب
اُن کی خاک بھی اُڑ چکی ہوگی تب کن لفظوں سے یاد کیا جائے گا۔۔ ۔ ؟ ؟ ! !
آپ ہم سوچتے رہیں،اگر ہمیں سوچنے کی فرصت ہو۔!!
ورنہ یہ سوال تو بہر حال باقی ہے کہ’’ اُردو سے کیا ملنے والا ہے۔؟‘‘
|