حفصہ اکبر علی
تاریخ کے آئنے میں دیکھیں تو اکتوبر کا مہینہ ہمیشہ سیا سی گہماگہمی کا
متحمل رہا ہے۔ سیاسی لیڈروں اور حکومتوں پر بھارے رہنے والا یہ مہینہ بڑی
بڑی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔ خاص کر کے میاں نوازشریف بے نظیر بھٹو ، مولانا
فضل الرحمن ، میر ظفر اللہ خان جمالی ، ایوب خان اور موجودہ وزیراعظم عمران
خان کے لے یہ مہینہ ناقابل فراموش ہے ۔
27اکتوبر 1947 کوانڈین آرمی نے کشمیر پر قبضہ کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر
اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر کو کمپنی باغ راولپنڈی میں شہید کیا
گیا۔قتل کی وجہ تاحال معلوم نا ہوسکی تاہم تجزئیے کے مطابق ان کی خارجہ
پالیسی ہی وجہ بنی۔ 17 اکتوبر کو ملک غلام محمد نے گورنر جنرل اور خواجہ
ناظم الدین نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا ۔
24اکتوبر 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی آئینی اسمبلی کو تحلیل کیا۔
6 اکتوبر 1955 کو غلام محمد نے استعفی دے دیا اور اسکندر مرزا نے ان کی جگہ
لے لی۔
یکم اکتوبر 1956 کو پہلی بار مشترکہ انتخابات کا بل قومی اسمبلی میں پیش
ہوا۔
ملک میں لگنے والا پہلہ مارشل لاء بھی 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا نے
لگایا۔ پہ سیاسی عدم استحکام اور لیڈر شپ کے درمیان ٹسل کا دور تھا۔
تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا تھا
ایوب
خان پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے اور پھر 24 اکتوبر کو وزیر اعظم بن گئے۔
صرف تین دن بعد اپنے محسن اسکندر مرزا کو گھر بھیج دیا اور صدر بن بیٹھے۔
22اکتوبر 1964 کو خواجہ ناظم الدین ڈھاکہ میں انتقال کر گئے۔ اکتوبر ہی کے
مہینے میں زوالفقارعلی بھٹو نے ایٹمی منصوبے کا آغاز کیا
(اچھی خبر) ۔ لیکن یہ مہینہ بھٹو پر بھی بھاری گزرا۔ 16 اکتوبر 1979 کو
ضیاء الحق نے تمام سیاسی پارٹیوں کو تحلیل کیا اور پریس پر سینسر لگادیا جو
ماشل لاء کی ایک تلخ یاد ہے۔
6 اکتوبر 1988کو بے نظیر کو ہرانے کی لیے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا جو
اپنے مقصد میں کامیاب تو نا ہو سکا لیکن بے نظپر کو ان کے سیاسی کیرئیر کا
ٹف ٹائم ضرور دے گیا۔
پھر دو سال بعد 29 اکتوبر 1990 کو انتخابات ہوئے اور آئی جے آئی 106سیٹیں
لے کر بازی لے گئی۔ یکم نومبر 1990کو میاں نواز شریف نے وزارت عظمی کا حلف
اٹھایا۔
تین سال بعد 6 اکتوبر 1993 میں پھر سیاسی لہر اٹھی اور انتخابات میں اب کی
باری بے نظیر بھٹو نے میدان مارا ۔9اکتوبر 1993کو دوبارہ وزارت عظمی کا
چارج سنبھالا ۔
12اکتوبر 1990 پاکستانی جمہوری تاریخ کا سب سے سیاہ ترین دن تھا۔ جب ملکی
منتخب وزیر اعظم میاں نوازشریف کو دفتر سے اٹھا کر کال کوٹھڑی میں بند کر
دیا گیا۔ پرویز مشرف نے آئین کو تحلیل کردیا اور مارشل لاءنافذ کر دیا۔ پھر
اکتوبر 2002 کو عسکری نگرانی میں انتخابات کرائے گئے ۔ میاں نوازشریف اور
بے نظیر کی زیرک قیادت اس وقت ملک میں موجود نہیں تھی۔ ق لیگ نے الیکشن
جیتا اور مشرف کوسو بار وردی میں منتخب کرنے کی بات کی۔
پھر 8اکتوبر 2005کو تاریخ کا سب سے خوفناک زلزلہ آیا جو 80,000 جانیں لے
گیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔
18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر صاحبہ جلا وطنی کاٹ کر اپنے وطن واپس لو ٹیں جن
کا کراچی میں بم دھماکے سے استقبال کیا گیا ۔ اس سانحے میں نشانہ بے نظیر
ہی تھی لیکن وہ بال بال بچ گئیں۔ سانحہ کارساز کے ٹھیک دو ماہ بعد بے نظیر
کو اسی لیاقت باغ میں شہید کردیا گیا جہاں لیاقت علی خان کو کیا گیا تھا۔
وہ بھی اس وقت بہت بڑے جلسے سے خطاب کر کے واپس جا رہیں تھی۔ اکتوبر
2010میں پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کی لندن میں بنیاد رکھی جو اب
بھی غداری کے مقدمے میں مطلوب ہیں تاہم منظر عام سے غائب ہیں۔
اکتوبر 2011کو تحریک پاکستان کے چیئر مین عمران خان نے اپنے کیرئر کی سب سے
بہترین اننگز کھیلی۔ انہوں نے مینار پاکستان میں اپنی زندگی کا سب سے
تابناک اور تاریخی جلسہ کیا۔ خود کو سیاسی لیڈر کے طور پر منوایا۔ 2013 کے
الیکشن تو نا جیت سکے لیکن 2018میں حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔
اب پچھلے سال 30 اکتوبر 2019 کو مولانا فضل الرحمن نے اپنے سیاسی کیرئر کو
گئیر لگایا اور اسی مینار پاکستان میں بہت بڑے پنڈال میں جلسہ کیا اور
اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔ اس لانگ مارچ نے ثابت کیا کے جے یو آئی
بھی ایک بڑی اور منظم سیاسی قوت ہے اور مولانا حقیقی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اب
اس سال اپوزیشن اتحاد پی ایم ڈی کے سربراہ بھی مولانا ہی ہیں اور بھر پور
سیاسی احتجاجی تحریک چلانے کےلئے مستعد ہیں۔ ادھر غداری کا مقدمہ چلانے کی
باتیں ہو رہی ہیں۔ ادھر بلاول بھٹو اور محترمہ مریم نواز صاحبہ بڑے جلسوں
کی تیاریوں میں ہیں۔شہباز شریف نیب کی زیرِ حراست ہیں اور نوازشریف لندن
میں بیٹھے ہیں!! سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہو رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس
سال اکتوبرکیا بڑی تبدیلی لے کرآئے گا۔ |