عہد حاضر میں ترقی یافتہ ممالک یا تیزی سے ابھرتی ہوئی
معیشتوں کی کامیابی کا جائزہ لیا جائے تو موئثر پالیسی سازی کے ساتھ ساتھ
اس پر دیرپا عمل درآمد ترقی کی کلید ہے۔حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں مگر
ملکی مفاد میں بہترین پالیسیوں پر عمل درآمد سے متعلق ترجیحات میں کوئی
فرق نہیں آتا ہے۔ اس کے برعکس پسماندہ یا کم ترقی یافتہ ممالک میں قیادت
کی تبدیلی ، ترجیحات میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔پاکستان کے تناظر
میں دیکھا جائے تو طویل المدتی پالیسی سازی کے حوالے سے حالیہ عرصے کے
دوران سی پیک کی تعمیر و ترقی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق
رائے پایا گیا ہے اور ہر سیاسی جماعت متفق ہے کہ سی پیک کو بناء کسی رکاوٹ
کے آگے بڑھنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین اور پاکستان کے درمیان روایتی مضبوط دوستی
کو گزرتے وقت کے ساتھ مزید عروج حاصل ہو رہا ہے ،دونوں ممالک نہ صرف عالمی
اور علاقائی پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کے مضبوط حامی ہیں بلکہ ایک دوسرے کی
مضبوط اقتصادی سماجی ترقی کے خواہاں بھی ہیں۔معاشی ترقی کی بات کی جائے تو
حالیہ عرصے میں چین۔پاک اقتصادی راہداری کو دونوں ممالک کے مابین مستحکم
معاشی تعلقات کی ایک مضبوط بنیاد کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔پاکستان میں سی
پیک منصوبہ جات کی تعمیر تیزرفتاری سے جاری ہے اور وزیر اعظم عمران خان کا
کہنا ہے کہ پوری قوم سی پیک کے تحفظ اور اس سے استفادےکے لئے متحد ہے۔ طویل
مدتی تناظر میں دیکھا جائے تو سی پیک کا مقصد نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے
کی ترقی ہے، اسی باعث اس منصوبے کو چین کے "دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کا
فلیگ شپ منصوبہ قرار دیا جاتا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ سی پیک کے پہلے
مرحلے کی کامیاب تکمیل کے بعد یہ اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جس
میں چین اور پاکستان کے درمیان صنعتی اور زرعی شعبے میں تعاون کو کلیدی
اہمیت حاصل ہو گی۔
صنعتکاری کے فروغ کے لیے سی پیک کے تحت پاکستان بھر میں نو خصوصی اقتصادی
زونز تعمیر کیے جائیں گے جن سے یقینی طور پر جہاں پاکستانی برآمدات میں
اضافہ ممکن ہو گا وہاں روزگار کے وسیع مواقع بھی میسر آئیں گے اور پاکستان
کے چین سمیت وسط ایشائی ریاستوں اور دیگر علاقائی ممالک سے تجارتی روابط
فروغ پائیں گے۔اقتصادی زونز کے شعبے میں چین اور پاکستان کے درمیان تعاون
اور تبادلوں کی وسیع گنجائش اور امکانات ہیں۔ چین خصوصی اقتصادی زونز کی
تعمیر و ترقی کے باعث دنیا بھر میں جانا جاتا ہے اور ابھی حال ہی میں ملک
کے پہلے "شین جن خصوصی اقتصادی زون" کے قیام کی 40ویں سالگرہ منائی گئی جس
سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ نے اصلاحات اور کھلے پن کو مزید
وسعت دینے کا عزم ظاہر کیاہے۔ خصوصی اقتصادی زون کی اہمیت کا اندازہ اس بات
سے لگایا جا سکتا ہے کہ شین جن کا شمار ایک چھوٹے سے گاوں میں کیا جاتا تھا
جس کی وجہ شہرت ماہی گیری تھی لیکن صرف چار دہائیوں میں یہ گاوں ایک جدید
ترین شہر میں تبدیل ہو گیا اور آج اپنی زبردست اقتصادی سرگرمیوں کے باعث
چین کی " سیلیکون ویلی" کہلاتا ہے۔1980 سے2019 تک کے سفر کے دوران شہر کی
جی ڈی پی سالانہ20.7فیصد کی شرح نمو سے 400ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہے۔شین جن
کی درآمدات و برآمدات کی مجموعی مالیت 2019 میں 431.5ارب ڈالرز ہو چکی ہے۔
لوگوں کے معیار زندگی میں بھی بہترین تبدیلیاں آئی ہیں اور تعلیم ،طبی
نگہداشت ،رہائش سمیت دیگر تمام شعبہ جات میں انہیں معیاری سہولیات دستیاب
ہیں ۔حیرت انگیز طور پر شین جن میں فی کس ڈسپوزایبل آمدنی بلندیوں کی حدوں
کو چھوتے ہوئے2019 میں 9272ڈالرز ہو چکی ہے انہی حقائق کی روشنی میں آج شین
جن چین میں پائیدار ترقی کا ایک بہترین اور قابل تقلید نمونہ قرار دیا جاتا
ہے۔
اسی طرح اب اگر پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کی بات کی جائے تو اس شہر کو
بھی شین جن کی طرح ماہی گیروں کا شہر قرار دیا جاتا ہے۔ سی پیک کی تعمیر
میں گوادرکو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور گوادر بندرگاہ ،گوادر ائیرپورٹ اور
گوادر فری زون جیسے منصوبہ جات حکومت پاکستان کی ترجیحات میں شامل ہیں اور
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گوادر پاکستان میں صنعتی اور سرمایہ کاری کی
سرگرمیوں کے ایک مرکز میں ڈھلنے کے لیے تیار ہے ۔چین گوادر بندرگاہ کی
تعمیر میں بھی پاکستان کو مدد فراہم کر رہا ہے ،گوادربندرگاہ قدرتی طور پر
گہرے پانی کی بندرگاہ ہے جو اسے قریب میں واقع دیگر بندرگاہوں سے ممتاز
کرتی ہے ۔گوادربندرگاہ اپنے اسٹریٹجک جغرافیائی محل وقوع کی بدولت بھی
نمایاں اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ خلیج اومان اور خلیج فارس کے سرے پر
واقع ہے جس کی بدولت دیگر علاقائی ممالک سے تجارتی روابط بھی باآسانی
استوار ہو سکتے ہیں۔ بندرگاہوں اور بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی میں
چین کا تجربہ یقیناً پاکستان کے کام آ رہا ہے اور اس وقت جس تیز رفتاری سے
گوادر میں تعمیر اتی سرگرمیاں جاری ہیں بلاشبہ ان کی روشنی میں کہا جا سکتا
ہے کہ بہت جلد گوادر پاکستان کی "سیلیکون ویلی" کہلائے گا اور عالمی و
علاقائی سطح پر اقتصادی و تجارتی روابط کو فروغ دینے کے ایک مرکز کے طور پر
ابھر سکے گا۔ |