پولیس ریاست کا ایک چہرہ ہے جس کا
بنیادی فریضہ جرائم کو کنٹرول کرنا، امن و امان کا قیام اور عوام کے جان و
مال کا تحفظ اور مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنا ہوتاہے۔ دنیا کے پولیس
ماہرین متفق ہیں کہ پولیس یہ بنیادی فرائض اس وقت تک ادا نہیں کر سکتی جب
تک اسے عوام کا اعتماد حاصل نہ ہو۔مگر یہ اعتماد کب اور کیسے حاصل ہو جب
پولیس ہی عوام دوست کی بجائے عوام دشمن بن چکی ہو،آئے روز کئی تھانوں یا
پولیس ملازمین کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہوتی ہیں جس میں شہریوں
کو بے بنیاد مقدموں میں ملوث کر کے ان پر تشددکرنااور ہتک آمیز رویہ سے پیش
آناثابت ہوتا ہے۔اس طرح کے تھانہ کلچر پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے حالیہ
دنوں میں تھانہ اٹھارہ ہزاری(جھنگ) کے اے ایس آئی نے قانون کو پاؤں کی نوک
پر رکھتے ہوئے ایک نیچ حرکت کرڈالی ہے،شاید وہ خود اس کو ایک بڑا کارنامہ
سمجھتاہو گا۔مگر یہ حرکت قانون اور پولیس کے لئے سوالیہ نشان ہے۔نکے تھانے
دار نے پُھرتیاں کھیلتے ہوئے 60سالہ سماجی شخصیت ملک نواز کوفون کے ذریعے
ضروری کام کے لئے تھانے بلوایا۔جو کہ ایک غیر قانونی طریقہ ہے بزرگ شہری
اپنے داماد کے ہمراہ تھانے پہنچا ۔تھانے داخل ہوتے ہی ایک دم سے تھپڑوں،
گھونسوں اور ننگی گالیوں کی برسات کردی گئی،ہوش سنبھالنے پر پتہ چلا کہ
گالیوں کی آواز عوام کے تحفظ کے دعوے دار اسی صاحب بہادر کی تھی جس نے
بلایا تھا،بزرگ کی منت سماجت پر بھی رحم نہ آیا،مار پیٹ سے تھک ہار جانے کے
بعدضعیف العمر کو حوالات میں بند کر دیا۔سسکتے لہجے میں بزرگ نے جب اپنا
قصور اور وجہ دریافت کی تو جواب ملا ’’کیا سمجھ رکھا ہے ابھی پتا چل جائے
گا‘‘پھر ایک لین دین کی فرضی اور بے بنیاد درخواست درج کردی۔سوال یہ ہے کہ
کس قانون کے تحت شہری کو موبائل کال کے ذریعے تھانے بلوایا گیاوہ بھی بغیر
کسی مقدمے کے؟اور اگر اس کا قصور اور کوئی مقدمہ تھا بھی تو اسے نوٹس کیوں
نہیں بھیجاگیا اور خود ساختہ سزا کس بنیاد پر دی گئی ہے؟مقامی انتظامیہ کی
اس طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے وزیراعظم اور آئی جی پنجاب پولیس سے گزارش
ہے کہ تھانہ کلچر کے خاتمہ اور پولیس کا شہریوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے پر
اثر حکمت عملی اپنائی جائے،تاکہ کسی شریف شہری کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔
تھانہ کلچر کے خاتمے کے لئے سابقہ حکومتوں نے بھی کئی مصلحتیں پیش کیں مگر
بے سود رہیں موجودہ حکومت نے بھی پولیس کو ’’ریاست مدینہ‘‘ کی ماڈل پولیس
بنانے کے دعوے کئے تھے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت نے اس پر عمل
نہیں کیا تاکہ ان کے ذاتی مفادات بلا رکاوٹ آگے بڑھتے رہیں۔ پولیس کے بجٹ
میں ہر سال اضافہ کیا جاتا ہے، اربوں روپے کا بجٹ پولیس پرخرچ ہو رہا ہے
مگر پولیس اپنے بنیادی فرائض ادا کرنے سے ہمیشہ قاصر رہی ہے۔ |