بہار کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی کا دھرم
سنکٹ دن بہ دن گہرا ہوتا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آج تک وہ
اپنی ساری اٹھا پٹخ کے باوجود سنچری نہیں مار سکی ۔ اس بار اس نے کسی طرح
نتیش کمار سے زیادہ نشستیں جیتنے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا تو وہ پانی کا
بلبلہ سطح آب پر آنے سے پہلے پھوٹ گیا۔ بی جے پی کے خوف کا یہ عالم ہے کہ
پچھلے ہفتہ جب نتیش کمار نے اسے ٹائٹ کیا تو اس کے صوبائی صدر سنجے جیسوال
دفتر کا کام کاج چھوڑ کر چانکیہ ہوٹل میں قائم بی جے پی کے میڈیا سینٹر
پہنچ گئے۔ وہاں پر نامہ نگار اس بات کے منتظر تھے کہ بی جے پی اپنے
امیدواروں کی فہرست ظاہر کرے گی مگر انہوں صرف ۴۴ سیکنڈ میڈیا سے خطاب کیا
۔ جی ہاں ایک منٹ سے بھی کم ۴۴ سیکنڈ اور ۶ جملے کہے اور ان میں سے ہر ایک
میں نتیش کمار کا نام تھا۔ انہوں نے کہا بہار میں این ڈی اے کے قائد نتیش
کمار ہیں۔ بہار اتحاد میں ساری باتیں نتیش کمار کی قیادت میں طے ہورہی ہیں۔
نتیش کمار کی قیادت کو بی جے پی پوری طرح قبول کرتی ہے۔ این ڈی اے میں وہی
رہیں گے جو نتیش کمار کی قیادت کو قبول کرتے ہیں۔ نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ
بنانے کے لیے بی جے پی پوری کوشش کرے گی ۔ نتیش کمار تین چوتھائی سے زیادہ
اکثریت کے ساتھ پھر سے وزیر اعلیٰ بنیں گے ۔
۲۰۱۰ سے نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ ہیں ۔ درمیان ایک صوبائی انتخاب کے
علاوہ ہر الیکشن وہ بی جے پی کے ساتھ مل کر لڑ چکے ہیں لیکن کبھی بھی بی جے
پی کو اس طرح صفائی پیش نہیں کرنی پڑی اور ۴۴ سیکنڈ کے ۶ جملوں میں ۶ مرتبہ
نتیش کا نام نہیں لینا پڑا۔ یہ دراصل چور کی داڑھی میں تنکہ کی کیفیت ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخراس بار جبکہ مرکز میں اس کی نہایت مضبوط حکومت ہے۔ اس کے
پاس مودی جیسا سائنسداں نما وشوگرو اور امیت شاہ جیسا چانکیہ مو جود ہے تو
آخر بی جے پی کی یہ درگت کیوں بن گئی؟ ایسا اس لیے ہوا کہ اس نے نتیش کمار
کی پیٹھ میں چراغ پاسوان کی مدد چھرا گھونپنے کی کوشش اس بھونڈے انداز میں
کی سب کو پتہ چل گیا اور نتیش کو بی جے پی قافیہ بند کرنا پڑا۔
ایل جے پی نے اس بار اتحاد کے اندر رہنے کے لیے پہلے کی طرح ۴۲ نشستوں کا
مطالبہ کردیا لیکن پچھلی بار نتیش کمار این ڈی اے میں شامل نہیں تھے اس لیے
بی جے پی کے لیے یہ سہل تھا اب کی بار جے ڈی یو کے آنے کے بعد یہ ناممکن
ہوگیا ۔ نتیش کمار کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا اس لیے کہ وہ خود چاہتے
ہیں کہ بی جے پی کم سے کم نشستوں پر انتخاب لڑے تاکہ ان کی کرسی محفوظ رہے۔
ان کا موقف یہ تھا کہ صوبائی انتخاب میں بی جے پی کو جے ڈی یو سے کم نشستیں
ملنی چاہئیں لیکن وہ بھول گئے کہ قومی انتخاب میں انہوں نے خود صوبائی اور
قومی سطح کے فرق کو پامال کرچکے ہیں ۔ ان کی دوسری منطق یہ تھی کہ جے ڈی یو
نے بی جے پی کے ساتھ الحاق کیا ہے ایل جے پی کے ساتھ نہیں کیا۔ بی جے پی نے
چونکہ ایل جے پی کے ساتھ الحاق کررکھا ہے اس لیے وہ اپنے کوٹے میں سے جتنی
نشستیں چاہے چراغ پاسوان کو دے ۔
اس صورتحال میں اگر بی جے پی کو نصف نشستیں بھی مل جائیں تب بھی اس کے لیے
۴۲ نشستیں ایل جے پی کو دے کر خود صرف 79 سیٹوں تک محدود کرلینا ممکن نہیں
تھا۔ اس لیے نئے حالات میں ایل جے پی سے 15پر اکتفاء کرلے کیونکہ اگرچہ
پچھلی مرتبہ ایل جے پی نے 48نشستوں پر مقابلہ کیا تھا تو بی جے پی بھی 145
سیٹوں پر الیکشن لڑی تھی ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس مرتبہ جہاں بی جے پی
59 نشستوں پر کامیابی ملی تھی وہیں ایل جے پی کو صرف دو مقامات پر کامیابی
ملی تھی۔ چراغ پاسوان کااصرار تھا کہ اگر اس کواتحاد میں 42 نشستیں نہیں
ملیں تو وہ ایک نیا اتحاد بناکر جملہ 142 مقامات پر اپنے امیدوار کھڑے کریں
گے ۔ چراغ پاسوان نے یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں نتیش کمار کی قیادت منظور
نہیں ہے ۔ ان کی پوری کوشش ہوگی کہ نتیش کمار کے زیادہ سے زیادہ امیدواروں
کو شکست فاش سے دوچار کریں اور کچھ نشستوں پر بی جے پی کے ساتھ دوستانہ
مقابلہ کریں ۔ چراغ پاسوان نے مرکزی سرکار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا
کیونکہ مرکز کے اندر این ڈی اے میں ایل جے پی شامل ہے۔ مرکزی حکومت میں اس
وقت ایل جے پی کے رام ولاس پاسوان کابینی وزیرتھے اور وہاں پر جے ڈی یو کا
کوئی وزیر نہیں ہے اس لیے چراغ پاسوان کی بات درست تھی۔ ایل جے پی کا موقف
تھا کہ وہ نریندر مودی کے ترقیاتی منصوبوں کی بنیاد پر انتخاب لڑے گی اور
انتخاب کے بعد بی جے پی کے ساتھ بہار میں حکومت سازی بھی کرے گی ۔
بی جے پی کو ایل جے پی کے اس ارادے میں ایک سنہری موقع نظر آیا ۔ اس نے
سوچا کیوں نہ ایل جے پی کے ذریعہ جے ڈی یو کو ٹھکانے لگا دیا جائے اور اپنے
وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ایل جے پی کی مدد سے سرکار بنا لی جائے۔ ان کم
ظرفوں کو نہیں معلوم کہ اس طرح کی سازشیں پس پردہ کی جاتی ہیں ۔ یہ راز جب
کھل گیا تو نتیش کمار نے ممکن ہے بی جے پی کو ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی
لے ڈوبیں گے والی دھمکی دے ڈالی ہو جس سے جیسوال جی کی گھگی بندھ گئی ۔ اس
پریس کانفرنس سے قبل این ڈی اے کی سیٹ بنٹوارے کو لے کر ایک مفصل پریس
کانفرنس ہوچکی تھی ۔ اس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جنتا دل کو 122 نشستیں
دی جائیں اور بی جے پی کو 121 مقامات پر لڑنے کا موقع ملے گا ۔ پسماندہ
ترین طبقے کے رہنما جتن رام مانجھی کو ان کی حیثیت کے مطابق 7نشستیں دی
جائیں گی جو جے ڈی یو کے حصے میں سے ہوں گی اور ۱۱ نشستیں مہاگٹھ بندھن سے
ناراض ہوکر نکلنے والی وکاس شیل انسان پارٹی کو ملیں گی جو بی جے پی کے
کوٹے سے ہوں گی ۔ اس طرح اب بی جے پی 110 نشستوں پر انتخاب لڑے گی اور جے
ڈی یو 115مقامات پر قسمت آزمائے گی ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اس بار پھر بی
جے پی سنچری بنانے سے محروم رہ جائے گی ۔
ان انتخابی نتائج کا اصل رنگ تو اس وقت دیکھنے میں آئے گا جب بی جے پی کو
جے ڈی یو سے زیادہ نشستیں ملیں اور حکومت سازی کی پوزیشن میں ہو۔ ایسے میں
نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بننے سے روکنے کے لیے سنجے جیسوال کو ٹھکانے لگا
کر ان کے عہدو پیمان کو سیاسی جملہ بازی قرار دینا پڑے گا۔ تفصیلی پریس
کانفرنس میں نتیش کمار کے علاوہ بی جے پی مرکزی نمائندے بھوپندر سنگھ اور
دیویندر فڈنویس بھی موجود تھے ۔ اس میں سنجے جیسوال کہہ چکے تھے کہ بہار
این ڈی اے میں وہی رہے گا جو نتیش کمار کو این ڈی اے کا قائد تسلیم کرے گا۔
یہ جملہ سننے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا قومی سطح پر این ڈی اے اور بہار کے
اندر این ڈی اے دو جدا جدا تنظیمیں ہیں۔اس موقع پر نائب وزیر اعلیٰ سشیل
مودی نے کہا تھا کہ بہار بی جے پی کے صدرنے یہ واضح کردیا ہے کہ سرکار بنی
تو وزیر اعلیٰ نتیش کمار ہی ہوں گے ۔ کوئی کنفیوزن نہ رکھیں ۔ رام ولاس
پاسوان دہلی میں بیمار ہیں ۔ وہ اگر صحتمند ہوتے تو ایل جے پی کے معاملے
میں یہ صورتحال نہیں ہوتی۔ اب تو رام ولاس پاسوان کا انتقال ہوگیا ہے یعنی
این ڈی اے اور ایل جے پی کے درمیان جو تار تھا وہ ٹوٹ گیا ہے ۔ اس الیکشن
سے پہلے تو چراغ پاسوان کو باپ کی جگہ وزیر نہیں بنایا جاسکتا اس لیے عملاً
بی جے پی اور ایل جے پی کا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔
سشیل کمار مودی ایک حقیقت پسند سیاستداں ہے اس لیےانہوں نے بڑی صاف گوئی سے
نتیش کمار کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور
وزیر داخلہ امیت شاہ ایک درجن مرتبہ وضاحت کرچکے ہیں اس کے بعد بھی سوال
پوچھا جارہا ہے ۔ ایسے میں کیا کرسکتے ہیں۔ سشیل کمار مودی سخت لہجے میں
بولے بہار کی انتخابی مہم میں ایل جے پی وزیر اعظم نریندر مودی یا امیت شاہ
کا نام استعمال نہ کرے اور پوسٹر یا بینر پر ان کی تصویر نہ لگائے۔ سشیل
کمار مودی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے نام نتیش کمار کا کمار اور نریندر مودی
کا مودی دونوں شامل ہیں لیکن ترتیب کے لحاظ سے کمار پہلے آتا ہے ۔ اس لیے
کہ جب نتیش کمار ساتھ ہوتے ہیں انہیں نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی پر عیش کرنے
کا موقع مل جاتا ہے۔ نتیش کے بغیر نریندر مودی انہیں نائب وزیر اعلیٰ نہیں
بنا پاتے ۔ اس لیے سشیل کے نزدیک نریندر مودی سے زیادہ اہمیت کے حامل نتیش
کمار ہیں اور وہ بھاگتے چور کی لنگوٹی کی طرح وزیر اعلیٰ کی نیابت کو ہی
اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بہار کے اندر بی جے پی
اور جے ڈی یو کی حالت رام ملائی جوڑی ایک اندھا اور ایک کوڑھی جیسی ہوگئی
جو ایک دوسرے کی مدد سے ووٹ کی بھیک مانگ کر سیاست کی روٹی سینکتے ہیں۔
|