جب انسان نے اپنی جبلت کے ہاتھوں مجبور ہو
کردوسرے انسانوں کا خُدا بننا چاہا تو اس قدر تباہی ہوئی کہ اس عمل نے
انسانوں کو درندوں اور بھیڑیوں کے مقام پر کھڑا کر دیا۔کسی نے غالباً اسی
انسانی جذبہ انتقام سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ”درختوں کی شاخوں پر بیٹھے
ہوئے بندروں نے زمین پر انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے قتل و خون ریزی کا
بازار گرم دیکھاتو بے اختیار اُن کے منہ سے نکلا ”خُدا کا شکر ہے کہ ہم
ارتقاء (EVOLUTION) سے بچ گئے“۔فرمان نبیﷺ ہے ”تم میں سے بہترین وہ ہے جس
کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“۔ثابت یہ ہوا کہ
طاقت،امارت،عہدہ،مرتبہ، نسبت،رنگ اورنسل کی بنیاد پرکوئی اچھا یا بُرا نہیں
ہوگا۔اچھا بننے کی کسوٹی ان سب چیزوں سے مُبراء ہے۔نہ سُپر نیچرل ہونے کی
ضرورت ہے اُور نہ ہی میٹا فزکس کی کسی تھیوری کو پڑھنے کی۔سادہ سی بات ہے
کہ جس کی ذات دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند ہوگی وہ افضل ہے۔اللہ کا یہ
قانون عام آدمی کے لیے بھی ہے اُور حکمرانوں کے لیے بھی۔مگر پاکستان کے
حکمران طبقے کی طرف سے ماضی میں ملک وقوم کے وسائل کو جس بے دردی سے لوٹا
گیا اور غضب خُدا کاان غداران وطن کوملکی سلامتی کے نام پر جوکھلی چھوٹ دی
گئی تھی وہ پہلے ہی اس ارض پاک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے۔ ہماری
سیاسی قیادت اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف وقتوں میں ملک دشمن
عناصر کے ہاتھوں میں بھی کھیلتی رہی ہے اُور اس سلسلے میں دہشت گردی
پھیلانے والی مذہبی اور علاقائی جماعتوں کو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی دی
گئی۔اس گٹھ جوڑ کے ہمیشہ سے بھیانک نتائج نکلے ہیں اُور ہم اب تک ان نتائج
کے بداثرات بھگت رہے ہیں۔ماضی کے ان بھیانک نتائج اور اثرات کو سامنے رکھتے
ہوئے موجودہ سیاسی و عسکری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ ا ب اس کھیل کو
روکنا ہے نیز ملک کی سلامتی اور استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے
گا۔سیاسی و عسکری قیادت کے اس فیصلے کے بعد سے دشمن قوتیں گٹھ جوڑ کر رہی
ہیں اُور ایک بار پھر سے اپوزیشن سیاسی قیادت اُور ملک دشمن قوتوں کا اتحاد
ہو گیا ہے۔پاکستان میں معیشت کی بحالی،عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کا
سیاحتی رینکنگ میں اضافہ، عالمی منظر نامے میں پاکستانی حکومت کی پذیرائی
اُ ورپاکستان کی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کی طرف کامیاب پیش
قدمی پر ناکام اُور لُٹیری اپوزیشن اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے بھارت
جیسے دشمن کے ایجنڈے پربھی کام کرنے کو تیار ہے۔’اللہ کے شیروں“کو للکارا
جا رہا ہے،اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے بہادر فوجی جوانوں کی حب
الوطنی زیر بحث لائی جا رہی ہے، اسلام کے فرزندوں سے ابو جہل کے پیروکار
اُلجھ رہے ہیں۔اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ ان کومٹانے اُور گرانے کا ناپاک
ارادہ رکھنے والے غیر ملکی ایجنٹوں کے ساتھ کون کون کھڑا ہے؟۔سندھ میں
کشمور اور کندھ کوٹ کے خوراک کے مراکز میں گندم کی جگہ مٹی سے بھری بوریاں
رکھنے والے کون ہیں؟۔ کراچی جیسے بڑے شہر کو بے یارو مددگار چھوڑنے والے
کون ہیں؟۔تھر کے ریگستانوں میں عزرائیل کو اموات کاٹھیکہ کس نے
دیا؟۔اٹھارویں ترمیم کا نعرہ لگا کر اپنی لوٹ مار اور کرپشن کا دروازہ کون
کھلا رکھنا چاہتا ہے؟۔سپریم کورٹ پر حملہ کس نے کروایا؟۔نوٹوں سے بھرے بریف
کیس ججوں میں کس نے تقسیم کروائے؟۔اداروں میں کرپشن کی بنیاد کس نے
رکھی؟۔کس سیاسی قائد نے سیاست میں خریدو فروخت کا آغاز کیا؟۔ سرکاری
ملازموں کو ذاتی ملازم بنانے کا کام کس نے شروع کیا؟۔عدالتوں پر جانبداری
کا الزام کس نے لگایا؟۔ فوج کو بدنام کرنے کی مذموم سازش کون کر رہا ہے؟۔
ملکی معیشت کو گھٹنے ٹیکنے پر کون مجبور کر رہا ہے؟۔منی لانڈرنگ کو سپورٹ
کرنے کے قوانین کس نے بنائے؟۔سرکاری عمارتوں میں کرپشن کے ثبوت مٹانے کے
لیے اہم ریکارڈ کوکون آگ لگواتارہا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کو آج سمجھنا بہت
ضروری ہے۔موجودہ حالات میں پتلی گلی آگے سے بند اُور تیر کمانوں پر چڑھ چکے
ہیں۔ایسے میں بیمار کے لیے عدالت بھی سخت فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہے۔انداز
بیان میں شدت اُور غصہ صاف نظر آتا ہے۔حالات کس نہج پرچلے جائیں گے اس کا
اندازہ نہیں ہو پا رہا البتہ مولانا فضل الرحمان کو تحریک چلانے پر آمادہ
کیا جا چکا ہے۔ شریف برادران کی میچ فکسنگ اور زرداری صاحب کی مفاہمت
پالیسی اب کس رُخ بیٹھتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا البتہ شہباز شریف کی
گرفتاری کے فوراً بعد ہی مسلم لیگ نون کی تنظیم سازی کا نیا پرچہ آؤٹ ہوا
اُور اس تنظیم سازی میں مریم نوازبیانیہ گروپ اکثریت میں نظر آرہا
ہے۔اپوزیشن کی طرف سے مسلسل اُور جارحانہ احتجاج کے اشارے دئیے جا رہے ہیں
کیونکہ وہ پُرامید ہیں کہ عوام مہنگائی کی وجہ سے تنگ ہیں۔مگر یہ اُن کی
بھول ہے کیونکہ ہماری عوام اب باشعور ہوچکی ہے اُور جانتی ہے کہ جن کے
کاروبار باہر،رشتہ دار باہر، جائیدادیں باہر،اُولاد باہر اُور موت کے بعد
صرف دفن ہونے کے لیے قبرستان پاکستان میں ہو،ایسے لوگ بھلا کیوں ارض پاک
اُور یہاں کے رہنے والوں کی فکر کریں گے؟۔عوام جانتی ہے کہ ملک میں مہنگائی
بہت ہے اُور شائد اکثریت پی ٹی آئی کو اگلی بار ووٹ بھی نہ دے مگردوسری طرف
وہ اپوزیشن کا کردار بھی جانتی ہے جو صرف اپنی آل،مال اُور کھال بچانے کی
فکر میں ہے۔عوام جانتے ہیں موجودہ اپوزیشن کی قیادت صرف اپنا اُلو سیدھا کر
نے کے لیے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے۔اتنا عرصہ دھوکہ کھانے کے بعد عوام
اپنے دوست اور دشمن کو اچھی طرح پہچاننے لگے ہیں اس دفعہ عوام اس پاک
سرزمین کے غداروں کو ملک کا امن اور سلامتی خطرے میں نہیں ڈالنے دیں گے
اُور ہر ایسی ناپاک کوشش کو ناکام بنا کر ملک کو مزید مستحکم اور مضبوط
بنائیں گے۔عوام اپنے سلامتی کے اداروں کے ساتھ ہے اُور ان شاء اللہ ملک میں
خانہ جنگی کا خواب دیکھنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
|