کوشیاری جی کی ہوشیاری اور آنندی بین کا آنند

انسانی عمل مقصد اور طریقۂ کار کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ اشتراک مختلف قسم کا ہوتا ہے مثلاً کبھی تو اچھے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے درست طریقۂ کار اختیار کیا جاتا ہے اور یہی مطلوب طرزِ عمل ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مقصد اور طریقہ کار دونوں ہی غلط ہوں جیسے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا بیان کہ ہندوستان کا مسلمان سب سے زیادہ خوش ہے۔ اس بیان کےمقصد میں بھی فریب کاری ہے اور انداز بھی اس قدر بھونڈا ہے کہ ان کے بھکتوں کو بھی یہ پاکھنڈ( منافقت)راس نہیں آئی ہوگی ۔ اس کے علاوہ درمیانی کیفیت میں کبھی اچھے مقصد کے لیے برا طریقۂ کار اور کبھی برے مقصد کے لیے ایسا خوشنما طریقہ اختیار کیا جاتا ہےکہ اس کی برائی کا اندازہ ہی نہ ہوسکے ۔ مغرب کا طریقۂ کاریہ ہے کہ اپنے ظلم و استحصال کا ایک خوبصورت جواز گھڑو اور خوب تشہیر کے ذریعہ ساری دنیا کو اس کا قائل کرنے کے بعد اپنے مذموم عزائم کو بروئے کار لاؤ تاکہ لوگ مذمت کے بجائے تعریف کریں ۔ مثلاًعراق پر حملہ کہ جس سے قبل ’عمومی تباہی کے اسلحہ‘ کا جھوٹ گھڑا گیا اور اس کی آڑ میں ایک ملک خود مختار ملک کو تباہ و برباد کردیا گیا ۔ وہاں کے سارے نوادرات چرا لیے گئے ۔ عوام کو بے شمار مشکلات و مصائب کا شکار کیا گیا اور پھر بے آبرو ہوکر لوٹنے سے قبل اعتراف کرلیا گیا کہ ’عمومی تباہی کے اسلحہ ‘ کی خبر جھوٹی تھی ۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ مقصد وہ نہیں تھا کہ جس اظہار کیا گیا تھا ۔

اچھے مقصد کے لیے بھونڈا طریقہ استعمال کرنے کی مثال مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے پیش کی۔ ملک کے اندر کورونا کا عتاب مہاراشٹر میں سب زیادہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نمٹنے کے لیے جس شفافیت اور سنجیدگی کے ساتھ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے کام کیا اس کی تحسین عالمی سطح پر کی گئی۔ انہوں نے سخت پابندیاں لگائیں اور اسے بتدریج ہٹایا لیکن اس میں حیرت کا پہلو یہ تھا کہ پہلے مال کھلے ،، پھر ہوٹل اور شراب خانے بھی کھل گئے یہاں تک تھیٹرس کو اجازت دے دی گئی لیکن عبادتگاہوں پر پابندی برقرار رہی۔ یہ معاملہ قابلِ تشویش تھا اور اس پر عوام کے اندر شدید بے چینی تھی۔ مسلمانوں کی اور ہندووں کی کئی تنظیمیں اس کے لیے حکومت کو اپنا محضر نامہ پیش کرچکی ہیں جنہیں ٹھنڈے بستے کی نظر کردیا گیا۔ مہاراشٹرا کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ذریعہ وزیراعلیٰ ادھوٹھاکرے کی اس جانب توجہ دہانی ایک مستحسن اقدام ہے۔

اس مقصد کے لیے گورنر کو چاہیے تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ سے بات چیت کرتے یا مکتوب تحریر کرتے۔ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور ادھو ٹھاکرے سے خط لکھ کرسوال کیا کہ ممبئی میں شراب خانے اور جوے کے اڈے تو شروع کردیئے گئے ہیں مگر عبادتگاہوں کو کھولنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ یہ بالکل جائز استفسار ہے اور عوام کے دل کی آواز ہے ۔ اول تو اپنے عہدے کا خیال کرکے انہیں یہ بات ذاتی سطح پر کہنی چاہیے تھی لیکن عرصۂ دراز تک سیاست میں رہنے کے سبب وہ صبر نہیں کرسکے اور اپنا مکتوب میڈیا میں دے دیا تب بھی کوئی حرج نہیں تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے جو کچھ لکھا وہ تعجب خیز ہے۔ گورنر صاحب لکھتے ہیں ’’کیا آپ بھی ’’سیکولر‘‘ ہوگئے ہیں؟ جبکہ سیکولرازم سے آپ کو ہمیشہ نفرت رہی ہے ‘‘۔ یہ دراصل گھٹیا سیاست ہے۔ سیکولرزم کی مضرتوں سے قطع نظر وہ نظریہ عبادتگاہوں کے کھولنے میں مانع نہیں ہے۔ کوشیاری نے دہلی میں ۳؍ جون سے عبادتگاہوں کے کھلنے کا حوالہ دیا ۔ وہ فیصلہ مرکز کی فرقہ پرست حکومت کا نہیں بلکہ کیجریوال کی سیکولر حکومت کا ہے ۔ اس لیے یہ سوال ازخود غلط ہوگیا۔

ادھو ٹھاکرے کو یہ کہہ کر عار دلانا کہ انہیں سیکولرزم سے ہمیشہ نفرت رہی ہے ۔ آپ ایودھیا اورپنڈھرپور کے وٹھل مندر میں پو جا کرچکے ہیں ۔ کیا آپ پر مندروں کو نہیں کھولنے کے لیے کوئی الہام ہوتا ہے دراصل گورنر کے عہدے کو زیب نہیں دیتا۔ بی جے پی نے سیکولرزم سے خوب کھلواڑ کیا ہے۔ لال کرشن اڈوانی نے جعلی سیکولرزم (pseudo secularism) نامی اصطلاح کی طرح ڈال کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اصلی سیکولرزم پر صرف ان کی جماعت عمل کرتی ہے اور مخالفین اس نام سے اقلیتوں کی منہ بھرائی(appeasement) کا کام کرتے ہیں ۔ اس بابت مودی جی نے ٹیلی ویژن پر یہاں تک کہہ دیا کہ سیکولرزم کے نام پرمسلمانوں کی فلاح وبہبود کا کوئی کام نہیں ہوا بلکہ ان کو صرف دھوکہ دیا گیا۔ آگے چل کےگرگٹ کی مانند رنگ بدل کر اپنے آپ کو سچا سیکولر کہلوانے والی بی جے پی نے سیکولر لفظ کو گالی بنادیا اور 2019 انتخاب کے بعد بڑے فخریہ انداز میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اس مرتبہ کسی میں سیکولرزم کا لبادہ اوڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی نے اقلیتوں کی منہ بھرائی نہیں کی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اقلیتوں کا (appeasement) بری بات ہے تو اکثریت کا (appeasement) اچھی بات کیسے ہوگیا؟ اس بابت یہ لوگ چونچ نہیں کھولتے ۔

گورنرکوشیاری نےجب اپنے وقار کو خود مٹی میں ملا دیا تو ادھو ٹھاکرے نے بھی ذرائع ابلاغ میں منہ توڑ جواب دیتے ہوئے لکھا کہ میرے ہندوتوا کے نظریہ کو آپ کی تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔ کنگنا رناوت کا حوالہ دے کرادھو نے لکھا کہ کسی ایسے فرد کا استقبال کرنا جو ہمارے صوبے کو مقبوضہ کشمیر کہتا ہو ہندوتوا کی میری تعریف میں نہیں آتا۔ اس کے بعد ادھو ٹھاکرے نے سوال کیا تھا کہ کیا بھگت سنگھ کوشیاری کے لئے ہندتوا کا مطلب مذہبی مقامات کو دوبارہ کھولنے سے ہے اور کیا انہیں نہ کھولنے کا مطلب سیکولر ہونا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے یہ بھی پوچھا کہ، ’کیا سیکولرازم آئین کا اہم حصہ نہیں ہے، جس کے نام پر آپ نے گورنر بنتے وقت حلف لیا تھا‘‘۔ ویسے مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے گورنر بی ایس کوشیاری کو یہ اطلاع بھی دی کہ ریاست میں کورونا سے وابستہ صورتحال کا مکمل جائزہ لینے کے بعد مذہبی مقامات کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ٹھاکرے نے کہا کہ لوگوں کے جذبات اور اعتقادات کو مدنظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی جانوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ لاک ڈاؤن اچانک مسلط کرنا اور ختم کرنا درست نہیں ہے۔ریاستی حکومت ان کی درخواست پر غور کرے گی۔
مثل مشہور ہے بندر بوڑھا ہوجائے تب بھی قلابازی کھانے سے باز نہیں آتا یہی حال کوشیاری کا ہے ۔ وہ بی جے پی کے نائب صدر رہ چکے ہیں اس لیے بھول جاتے ہیں کہ گورنر بننے کے بعد انسان کو پارٹی سے الگ ہوکر غیر جانبدار بن جانا پڑتا ہے ۔ این سی پی صدر شردپوار نے وزیراعظم کو مکتوب لکھ کر گورنر کیخلاف شکایت کی ۔ شردپوار نے کہا کہ انہیں یہ دیکھ کر صدمہ اور حیرت ہوئی کہ گورنر مہاراشٹرا بھگت سنگھکوشیاری نے کس قسم کی زبان استعمال کی ہے ۔ گورنر نے چیف منسٹر ادھو ٹھاکرے پر غلط الزامات لگائے ہیں ۔ گورنر کو اظہار خیال کی آزادی ہے مگر ان کو محتاط رہنا چاہیے۔ شرد پوار نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’آئینی عہدوں پر بیٹھے اشخاص کی زبان اور لہجہ ان کے قد کے مطابق ہونا چاہئے۔میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ گورنر کے پاس خصوصی اختیارات ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ کے سامنے اپنے خیالات ظاہر کرسکیں مگر میڈیا میں جاری ہونے والے ان کے خط اور اس میں استعمال کی گئی زبان کو لے کر ششدر اور حیرت زدہ ہوں‘‘۔ شرد پوار نے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال میں وزیر اعلیٰ کے پاس میڈیا میں اپنا جواب جاری کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔

گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کا لب و لہجہ ان کےنیت کی چغلی کھاتا ہے۔ نیت اور مقصدچونکہ پوشیدہ ہوتے ہیں اس لیے اس کے اظہار میں جعلسازی کا امکان ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے مقصد کا اظہار اصلی اور جعلی دونوں ہوتا ہے ،یعنی کہا تو کچھ جاتا ہے مگر حقیقی مقصود وہ نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ گورنر کوشیاری نے موجودہ حکومت سازی سے قبل جس طرح راتوں رات بغیر اکثریت کے دیویندر فردنویس اور اجیت پوار کی حلف برداری کرائی اور ادھو ٹھاکرے کے ودھان پریشد انتخاب میں جیسے روڑے اٹکائے اس سے ان کی جانبدارنہ گھٹیا سیاست عیاں ہوچکی ہے۔ اس بار بھی اگر وہ اپنے تبصرے کو صرف عبادتگاہوں کے کھولے جانے تک محدود رکھتے تو انہیں مسلمانوں کی بھی حمایت حاصل ہوجاتی لیکن ان کی بدزبانی نے سارا کام خراب کردیا ۔

بی جے پی کے کم ظرف گورنر آئے دن اپنے وقار کو خاک میں ملاتے رہتے ہیں ۔ ان کی زبان غیر بی جے پی سرکاروں کے خلاف ہی کھلتی ہے ۔ پچھلے دنوں مغربی بنگال کے گورنر نے کہا کہ بنگال بھی اتر پردیش اور بہار کی مانند مافیا کے زیر تسلط صوبے میں بدل رہا ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ بنگال کا گورنر تو اترپردیش اور بہار میں مافیا حکومت کا اعتراف کرتا ہےجبکہ ان دونوں مقامات پر این ڈی اے کی حکومت ہے لیکن مذکورہ صوبوں کے گورنر اس بابت لب کشائی کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ اتر پردیش میں ہاتھرس کا سنگین معاملہ ہوا۔ اس صوبے کی گورنر آنندی بین ایک خاتون ہیں ۔ وہاں پر اگر غیر بی جے پی حکومت ہوتی تو ابھی تک اسے برخواست کرکے صدر راج نافذ کردیا گیا ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ آنندی بین اتر پردیش میں آنند کے ساتھ عیش کررہی ہیں اور مہاراشٹر کے بھگت سنگھ آئے دن کوئی نہ کوئی نئی ہوشیاری دکھا دیتے ہیں ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448646 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.