مرد جری ، مسعود یوسف رخصت ہوا ۔

گزشتہ چندماہ میں پوری دنیامیں بالعموم اورپاکستان میں بالخصوص علماء کرام ،صلحاء اورقراء بڑی تعدادمیں اس دنیاسے رخصت ہوئے ہیں ایک حدیث کاترجمہ ہے کہ اﷲ تعالی جب علم کو اٹھائے گا تو اس کاطریقہ یہ نہیں ہوگا کہ لوگوں اوراپنے بندے کے سینے سے اسے کھینچ لے۔بلکہ اﷲ علم کو اس طرح اٹھائے گاکہ علما کرام کو روئے زمین سے اٹھالے گا۔اس طرح علم بھی اٹھ جائے گا۔یہاں تک کہ کوئی عالم زمین پرباقی نہیں بچے گا تولوگ جہلا کواپنا سردار بنالیں گے اور انہیں سے مسا ل دریافت کریں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمرہی کے دلدل میں دھکیل دیں گے۔

دیکھا جائے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس کے بعد مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات۔ یہی وہ طرز حیات ہے جو طے کرتا ہے کہ آپ کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھے اخلاق اور اعلی معیار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ اور یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔

جانا تو ایک نا ایک دن ہے ہی۔۔۔ تو کیوں نا ایسی زندگی گزاری جائے جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، کردارواخلاق ،عزم وہمت ،میل جول ، دور اندیشی و دانائی، تحمل وبرداشت ، زندہ دلی وبردباری الغرض شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔

غریب کیا امیر کیا، اپنے کیا پرائے کیا۔ہر شخص ان کی تعریف کرتا نظر آتا ہے۔ وہ تھے بھی ایسے۔ اخلاص ان کی شخصیت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا رعب اتنا تھا کہ علاقے میں بچے تو کیا بڑے بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ ایک بار حکم دیتے توسرکاری افسرسمیت کسی کو چوں چراں کرنے کی مجال نہ ہوتی، شفیق اتنے کہ ہرکوئی بلاجھجک ان کے پاس پہنچ کراپنامسئلہ بیان کرتاوہ ہرمحفل کی جان تھے ان کی زندہ دلی اوربذلہ سنجی کے سب ہی معترف تھے مگر
ابھی جام عمر بھرا نہ تھا کہ کف دست ساقی چھلک پڑا
رہیں دل کی دل میں ہی حسرتیں کہ نشاں قضا نے مٹا دیا

آزادکشمیرکے مشہورعالم دین شیخ الحدیث مولانامحمدیوسف خانؒ کے فرزندجمعیت علماء اسلام جموں وکشمیرکے امیرمولاناسعیدیوسف کے برادرصغیرقاری مسعود یوسف سفرآخرت پرروانہ ہوگئے میں گزشتہ روزسابق سینیٹرحافظ حمداﷲ ،جے یوآئی کے رہنماء قاری سہیل احمدعباسی ،جمعیۃ المبلغین کے چیئرمین اورکہوٹہ کی سیاسی ومذہبی شخصیت ڈاکٹرعبدالشکورحمادی ،حافظ سعدالدین اورسلطان کے ہمراہ جب دارالعلوم پلندری پہنچے تومسعود یوسف کی وفات پرہرآنکھ اشکبارتھی مگرمولاناسعیدیوسف توپھوٹ پھوٹ کررورہے تھے بھائی کی جدائی نے انہیں نڈھال کردیاتھا وہ فرمارہے تھے کہ مسعود یوسف میرابھائی ہی نہیں میرادوست بھی تھا

مولاناسعیدیوسف نے بتایاکہ وہ لوگوں کے درمیان صلح کروانے والے اور انصاف میں توازن رکھنے والے ایک بہترین منصف اور پنجایتی تھے۔علاقے میں ایک قتل ہواتومسعود یوسف نے مقتول کی تدفین سے قبل فیصلہ کردیاجودونوفریقین نے قبول کیاان کی قوت فیصلہ ایسی تھی کہ لمحموں میں بڑے بڑے معاملات کے فیصلے کردیتے تھے ہزاروں لوگوں کوتھانہ کچہری سے بچایا ،رحم دلی اتنی تھی کہ انسان تو کیا جانور کو بھی تکلیف میں نہ دیکھ سکتے تھے۔ تحمل اور بردباری ایسی کہ بڑے سے بڑے سانحات، پریشانیوں اور مسائل کا انتہائی خندہ پیشانی اور حوصلے سے سامنا کیا۔ مخیر اتنے کہ یتیم بچیوں کی پرورش، اور غریب طالب علموں کے اخراجات،بیماروں کاعلاج اس طرح اٹھاتے کہ کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوتی ۔
ایک غریب آدمی کی بیوی بیمارہوگئی علاج کے لیے ساڑھے چارلاکھ روپے کی ضرورت تھی کسی نے اس کومسعود یوسف کابتایامسعود یوسف یہ سن کربے تاب ہوگیافوری طورپرمسعود یوسف نے ساڑھے چارلاکھ روپے مہیاکیے اوراس آدمی کوکہاکہ جاؤبیوی کاعلاج کرواؤ اﷲ کی مرضی،کہ وہ عورت آپریشن کے دوران ہی فوت ہوگئی تومسعود یوسف نے کہاکہ اس غریب آدمی کوکم ازکم یہ احساس ورنج تو نہیں ہوگا کہ اس کے پاس بیوی کے علاج کے لیے پیسے نہ تھے ۔

ان کے بھائی اسدیوسف نے بتایاکہ مسعود یوسف درددل رکھنے والے انسان تھے درجنوں لوگوں کوگھرکی چھت فراہم کی مگرذاتی گھرنہیں بنایا جن کی صحبت ہر کسی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی تھی اور ان کی جدائی پرلاکھوں کامجمع دھاڑیں مارمارکررورہاتھا مرنا ہم سب نے ہے لیکن ایک مثالی زندگی گزار کر جانا کسی کسی کی قسمت میں ہی لکھا ہے وہ دوستوں کے دوست تھے اوردشمنوں کوبھی دوست بنانے کافن جانتے تھے صرف یہی نہیں بلکہ معاشرتی رشتوں میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ایک سچے عاشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور ایک محب وطن مجاہد تھے۔ انہوں نے تمام زندگی اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق گزاری اورعوام کی خدمت کی ۔

ان کے چھوٹے بھائی ارشدیوسف نے آنسوپونچھتے ہوئے بتایاکہ قاری مسعود یوسف نے پچپن سال کی مختصر زندگی پائی بغیر کسی ریاکاری اور دھوکے و فریب کے، مکمل ایمانداری اور جہد مسلسل کے ساتھ کس طرح اپنانام بنایاسیاسی ،سماجی میدان میں کس طرح کامیابیاں حاصل کیں یہ ایک الگ اور لمبی داستان ہے۔ڈٹ کے حق بات کہنے والا۔کسی الجھن، تردد اور لاگ لپیٹ سے پاک۔ وجہ کیا تھی؟وجہ یہ تھی کہ ان کا سونا جاگنا اوڑھنا بچھوناعوام کے سواکچھ نہ تھا ۔ وہ مرد جری جسے خوف خدا کے سوا کوئی خوف نہ تھا۔ جوش خطابت اور سطوت الفاظ سے پرہیز لیکن بات اتنی پراثر اور دو ٹوک کہ سیدھی دل میں اتر جائے۔
ان کی قوت برداشت کا یہ عالم تھا کہ شدید ترین غصے میں بھی اپنے آپ پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے۔ نفرت، کینہ بغض، حسد، عداوت اور منفیت جیسی بری عادات تو ان کے پاس سے بھی نہ گزری تھیں۔ ان کی طبیعت میں درشتگی کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ فطرتا نرم دلی، سادگی اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے انسان تھے۔ہزاروں بیماروں کااپنے خرچ سے علاج کروایاگزشتہ تین سال سے وہ خودبسترعلالت پرتھے متعددآپریشن ہوئے اوربالآخرکینسرنے ان کی جان لے لی ۔

قاری مسعود یوسف کی زندگی کے واقعات سن کریہ کہاجاسکتا ہے کہ اگر انسان چاہے تو آج کے دور میں بھی ایک مثالی زندگی گزار کر بعد میں آنے والوں کے لیے ہمیشہ ایک زندہ و جاوید مثال بن سکتا ہے۔ شخصیت ہو تو ایسی ہو۔۔۔ جینا ہو تو ایسا ہو۔وہ قرآن کی اس آیت کی تقسیربن کررخصت ہوئے ۔ اے نفس مطمئن! اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
 
Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 95700 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.