بہار اسمبلی انتخابات آج کل عوام کی تفریح کا سامان بنا
ہوا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں امیدواروں کی عمر فرق ہنسی مذاق کا موضوع بنا ہوا
ہے ۔ سی پی آئی(ایم ایل )کےششی یادو کی عمر پچھلے ۶6سال میں 11 سال بڑھ
گئی توکھگڑیا کی جے ڈی یو امیدوار پونم دیوی کے یہاں کوئی اضافہ ہی نہیں
ہوا۔ سب سے دلچسپ انکشاف جنتا دل یو کے ہری نرائن سنگھ کا ہے۔ 2015 میں ان
کی عمر کی 75 سال تھی اس حساب سے اس بار وہ 80 سال ہونی چاہیے تھی لیکن اب
وہ اسے 73 سال بتارہے ہیں یعنی ان کی عمر گویا 5 سالوں میں 2 سال کم ہوگئی۔
ان مثالوں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ حزب اقتدار اپنے پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ
میدان میں اتری ہے جو اپنی عمر چھپا رہے ہیں اور حزب اختلاف نوجوانوں کے
ساتھ قسمت آزما رہی ہے جو عمر بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہیں ۔ اس انتخاب کی
ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ایک جانب بزرگوں کا گروہ ہے اور ان سے نوجوانوں کا
جتھا برسرِ پیکار ہے۔
مہا گٹھ بندھن سے نتیش کمار کے نکل جانے کی وجہ سے جو خلا رونما ہوا اس کی
وجہ سے آر جے ڈی دل کھول کر144نشستوں پر انتخاب لڑنے کا موقع مل گیا ۔ اس
میں سے ۶ نشستیں اس نے مکیش ساہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی کے لیے مختص کی
تھیں مگر وہ ناراض ہوکر الگ ہوگئی اور بی جے پی سے ۱۱ نشستوں کا سودہ کرلیا
جو برا نہیں ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو آر جے ڈی اپنی جیب سے دو نشستیں
عطا کرے گی اور کانگریس جس نے پچھلی بار صرف 40پر قسمت آزمائی کی تھی اس
بار 70مقامات پر لڑے گی۔ بایاں محاذ عظیم اتحاد میں شامل وکر 29نشستوں پر
انتخاب لڑرہا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر بائیں محاذ میں سب سے زیادہ 19 نشستیں
سی پی آئی(ایم ایل) کے حصے میں آئیں ۔ اس کے بعد 6 سیٹیں سی پی آئی
کوملیں اور قومی سطح پر سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ پارٹی کو 4پر
اکتفا کرنا پڑا ۔ اس مرتبہ بائیں محاذ نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے
کئی نوجوان رہنماوں کو میدان میں اتارا ہےجن کی اوسط عمر 30 سال کے آس پاس
ہے۔ اس بار یہ نوجوان سیاست داں نتیش کمار کی نیند حرام کردیں گے ۔
جے این یو کی طلبا یونین کے سابق رکن سندیپ سورو فی الحال آئیسا کے قومی
جنرل سکریٹری ہیں۔ وہ سی پی آئی (ایم ایل) کے امیدوار کے طور پر پالی گنج
سیٹ سے میدان میں اترے ہیں اور انہوں نے ہندی ادب میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ پالی
گنج کوایک زمانے میں سی پی آئی ایم ایل کا گڑھ مانا جاتا تھا اور 2005 کے
انتخاب میں وہاں سے سی پی آئی (ایم ایل) کے امیدوارنے جیت درج بھی کرائی
تھی مگر 2010 میں بی جے پی کی اوشا ودیارتھی نے یہ سیٹ اس سے چھین لی ۔
2015 میں یہاں سے آر جے ڈی کے وردھن یادو کامیاب ہوگئے تھے اس کے باوجود
تیجسوی نے اپنے امیدوار کو ہٹا کر سی پی آئی ایم ایل کو لڑانے کا حوصلہ
مند فیصلہ کیا ۔ مزے کی بات یہ ہے اپنی ٹکٹ کے چھنتے ہیں سابق رکن اسمبلی
وردھن یادو پالا بدل کر جنتا دل یو میں شامل ہو گئے اور ان کا وہاں پر
استقبال کیا گیا۔ بعید نہیں کہ نتیش کمار انہیں کو ٹکٹ بھی دے دیں کیونکہ
اس حلقہ انتخاب میں یادو سماج کا خاصہ اثر ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تیجسوی
یادو اپنے فیصلوں سے پارٹی کی ایک برادری تک محدود شبیہ بدلنے کی فکر میں
ہیں۔
اس حلقۂ انتخاب میں زیادہ تر آبادی بے زمین کسانوں یا روزآنہ کے مزدوروں
کی ہے۔ مہاجر مزدوروں کے حوالے سے نتیش حکومت کی بے حسی نے نوجوانوں کو بہت
مایوس کیا ہے خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے اپنے ہی لوگوں پر سرحد بند
کردی تھی۔ اس بے چینی کی بھاری قیمت این ڈی اے کو چکانی پڑے گی کیونکہ اس
معاملے میں صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی سرکار بھی برابر کی قصور وار
ہے۔ سندیپ سورو کی طرح آئیسا کے ریاستی سکریٹری اجیت کشواہا، جنوبی بہار کے
ڈمراؤں سیٹ سے میدان میں ہیں۔ انھوں نے ویر کنور سنگھ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ
کیا ہے۔ پچھلے انتخاب میں یہاں سے جے ڈی یو نے زبردست جیت حاصل کی تھی مگر
اس وقت وہ مہاگٹھ بندھن کا حصہ تھی۔ انقلابی یوتھ ایسو سی ایشن کے ریاستی
صدر کو اس بار امید ہے کہ گٹھ بندھن کا ووٹ ان کو ملے گا ۔ تیجسوی یادو نے
اس بار پڑھے لکھے نوجوانوں کو میدان میں لاکر ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔
ان نوجوان امیدواروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ذات برادری کی بنیاد پر ووٹ کے
طلبگار نہیں ہیں بلکہ ان سب نے میدان میں اتر کر عوامی مسائل کو حل کرنے کی
کوشش کی ہے مثلاً تیز طرار منوج منزل کو اگیاؤں سے میدان میں اتارا گیا ہے۔
وہ تو سی پی آئی (ایم ایل) کی انقلابی یوتھ ایسو سی ایشن کے قومی سربراہ
ہیں۔ ان کے پاس پالٹیکل سائنس میں ایم اے کی ڈگری ہے ۔ دلت طلبا کے حقوق کے
لیے احتجاج کرنے والے اس نڈر رہنما کو ڈرانے لے لیے 2015 میں کئی فرضی
معاملوں کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ 2015 میں اگیاؤں سے وہ
تیسرے نمبر پر رہے تھےاور یہ سیٹ مہاگٹھ بندھن کے پربھوناتھ پرسادنے جیتی
تھی اس کے باوجود ان کا ٹکٹ کاٹ کر منزل پر اعتماد کیا گیا ہے۔منوج منزل کو
یقین ہے کہ ایل جے پی کا امیدوار بھی یہاں سے ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا
موجودہ صورتحال میں وہ این ڈی اے کا ہی نقصان کرے گا ۔
سمستی پور ضلع میں کلیان پور سیٹ سے رنجیت رام الیکشن لڑ رہے ہیں جو پیشے
سے وکیل اور روی داس سیوا سنگھ کے سکریٹری بھی ہیں۔ انہوں نے شہری حقوق کے
لیے دربھنگہ سے پٹنہ تک پیدل یاترا کی تھی ۔ کلیان پور سیٹ جے ڈیو کا گڑھ
مانی جاتی ہے ۔ پچھلے دو انتخابات میں اسے یہاں سے زبردست کامیابی ملی تھی
دیکھنا یہ ہے کہ اس بار رنجیت رام کیسے لوہا لیتے ہیں۔ انصاف منچ کے ریاستی
نائب صدر آفتاب عالم کومظفر پور ضلع کی اورائی سیٹ سے امیدواربنایا گیا ہے
۔ آفتاب عالم نے مگدھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے۔ پچھلے انتخاب میں یہاں
آر جے ڈی نے زبردست جیت درج کرائی تھی مگر اس بار وہ سی پی آئی (ایم ایل)
کے آفتاب عالم کے حق میں دستبردار ہوگئی اس لیے ان کی کامیابی کے روشن
امکانات ہیں۔ اس دوران مظفر پور ضلع سرکاری شیلٹر ہوم میں لڑکیوں کے جنسی
استحصال اور اغواء کے علاوہ فرقہ وارانہ فساد کے سبب خبروں میں رہا ہے ۔
انتخابی نتائج پر اس کا کیا اثر ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ اس فہرست میں
سب سے تازہ دم 27 سالہ جتیندر پاسوان گوپال گنج کی بھور سیٹ سے الیکشن لڑ
رہے ہیں۔ 2015 میں کانگریس کے امل کمار سے وہ ہار گئے تھے مگر اس بار کا
نگریس نے اپنا امیدوار ہٹا کر ان کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے ۔نوجوانوں پر
اعتماد تبدیلی کی کرن بن کر ابھر رہا ہے۔
بہار میں اس بار نتیش کمار کے خلاف نوجوان سیاستدانوں کی بہار ہے ۔ آر جے
ڈی کی قیادت تیجسوی یادو کے پاس ہے ۔ کانگریس کے لیے راہل گاندھی آئیں گے
۔ دایاں محاذ کنھیا کمار کی قیادت میں نظر آئے گا اور این ڈی اے سے باہر
ہوکر انتخاب لڑنے والی ایل جے پی کی قیادت چراغ پاسوان کریں گے ۔ اس لشکر
کا مقابلہ نتیش کمار، سشیل مودی ، نریندر مودی اور مانجھی جیسے بزرگ کیسے
کرپائیں گے یہ بات دیکھنے جیسی ہوگی اور ان کے لیے باہر سے آنے والی کمک
میں بھی کوئی نوجوان چہرہ نہیں ہے ۔ سچ تو یہ ہے نریندر مودی کی قیادت میں
بی جے پی یک چہرہ پارٹی بن کر رہ گئی ہے ۔ وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے سارے
رہنماوں کی اہمیت اور وقعت ختم کرکے رکھ دی ہے۔ مودی کے بعد ایک امیت شاہ
نظر آتے ہیں لیکن وہ بھی لگاتا بیمار چل رہے ہیں ۔ جے پی نڈا کو امیت شاہ
آگے آنے نہیں دیتے اور باقی سارے لوگوں کی ٹانگ مودی جی کھینچتے رہتے ہیں
۔ ایسے میں یہ بوڑھوں کی یہ جماعت نئی نسل کے رہنماوں کا مقابلہ کب تک اور
کیسے کرپائے گی ؟ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ اسی کے ساتھ زمینی
سطح پر ہونے والی یہ تبدیلی صوبائی حکومت کو بدل پاتی ہے یا نہیں اس پر ملک
کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں ۔
بہار کے اندر جب انتخابات کا اعلان ہوگیا تو یو پی اے کے اختلاف کو ذرائع
ابلاغ خوب اچھال رہا تھا۔اس زمانے میں ایک مرتبہ تیجسوی یادو سے سیٹ بٹوارے
کو لے کر پر یس کا نفرنس میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ابھی تو کافی
وقت ہےلیکن آپ لوگ یہی سوال این ڈی اے کے رہنماوں سے کیوں نہیں کرتے؟ کیا
ان کے یہاں نشستوں کی تقسیم ہوچکی ہے ؟ اس پر اعتماد جواب کو سن کر نامہ
نگار ہکا بکا رہ گئے ۔ ان میں سے ایک ذہین آدمی نے پینترا بدل کر ہمدردی
کے لہجے سوال کیا آپ بہت دباو میں دکھائی دے رہے ہیں کیا بات ہے؟ اس کا
جواب تو گویا دھوبی پچھاڑ تھا ۔ تیجسوی نے کہا آپ میری جگہ آکر بیٹھیں تو
پتہ چل جائے گا کہ میں دباو میں کیوں ہوں؟ اس گفتگو سے یہ بات ثابت ہوگئی
کہ تیجسوی یادو اب ویسے بچے نہیں رہے کہ زیادہ نشستوں پر کامیابی کے باوجود
انہیں ڈپٹی وزیر اعلیٰ اور نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے۔ حالات
اور تجربہ نے انہیں پختہ کار سیاستداں بنا دیا ہے ۔ اس بیچ یہ خبر آئی کہ
لالو پرشاد یادو کوچارہ گھوٹالا کے ایک اور معاملے ضمانت مل گئی ممکن ہے
جلد ہی تیسرے میں بھی مل جائے اور انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے جیل سے
باہر آجائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب آر جے ڈی ان کی محتاج نہیں ہے۔ رائے
دہندگان کی نئی نسل لالو یادو کے ساتھ ان پر لگائے جانے والے بدعنوانی کے
الزامات کو بھی فراموش کرچکی ہے۔ بہار کے اندر بی جے پی بوکھلاہٹ کمزوری کی
علامت ہے۔ اس ریاست میں این ڈی اے کی شکست یقیناً 2024 کے قومی انتخاب پر
نہ صرف اثر انداز ہوگی بلکہ نئی نسل کے اندر ایک انقلابی امنگ اور حوصلہ
پیدا کرے گی ۔
|